Getty Images
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ گذشتہ کئی دہائیوں کی امریکی خارجہ پالیسی کے برعکس روس کے قریب تر ہوتے نظر آ رہے ہیں۔
ٹرمپ یوکرین میں جنگ روکنے کے معاملے پر بھی پوتن کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ وہ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ جنگی بندی کے لیے روس کی کڑی شرائط کو قبول کریں حالانکہ اس کے برعکس سچ یہ ہے کہ اس جنگ میں حملہ کرنے والا پہلا ملک روس ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے یورپی اتحادیوں سے بھی کہا ہے کہ وہ یہ توقع نہ رکھیں کہ امریکہ اُن کے دفاع میں اُن کی مدد کرتا رہے گا۔
ایسے میں اہم سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ صدر ٹرمپ کی زیر قیادت کسی بڑی اور نئی حکمت عملی پر کام کر رہا ہے؟ یا کیا یہ روس کو چین سے دور کرنے کے کسی بڑے اور سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے؟ یا ٹرمپ کا یہ طرز عمل محض اُن کی ذاتی ترجیحات اور پوتن سے اُن کی قربت کا عکاس ہے؟
ٹرمپ انتظامیہ روس کا ساتھ کیسے دے رہی ہے؟
روس کے حوالے سے امریکہ کی پالیسی میں سب سے بڑی تبدیلی گذشتہ ماہ 12 فروری کو اُس وقت دیکھنے میں آئی جب صدارتی منصب سنبھالنے کے بعد ٹرمپ نے صدر یوتن سے 90 منٹ تک فون پر بات کی۔
اس کے بعد انھوں نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی پر دباؤ ڈالا کہ وہ امریکہ کی جانب سے کوئی سکیورٹی ضمانت دیے بغیر روس کے ساتھ امن معاہدے پر راضی ہو جائیں۔
پوتن کے ساتھ فون پر کی گئی بات چیت کے بارے میں بتاتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ انتہائی قریب ہو کر اور مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔‘
ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ یوکرین جنگ کے خاتمے کے بعد یوکرین نیٹو کا رُکن نہیں بن سکے گا۔
یاد رہے کہ سابق امریکی صدر جو بائیڈن نے یوکرین سے وعدہ کیا تھا کہ اسے نیٹو کا رُکن بنایا جائے گا، تاہم اس اعلان کی روس نے سخت مخالفت کی تھی۔
وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ اور زیلنسکی کی ملاقات تکرار میں کیسے بدل گئی اور اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ٹرمپ زیلنسکی تکرار کے بعد یورپی ممالک کی یوکرینی صدر کی حمایت لیکن پھر بھی امریکہ سے عسکری امداد کی خواہش کیوں؟’ٹرمپ کی پوتن جیسی سوچ‘ اور ’مغربی عالمی نظام‘ کے خاتمے کا خدشہامریکی F-35 یا روسی SU-57: جدید لڑاکا طیاروں کی کمی اور وہ پیشکش جس نے انڈین فضائیہ کو مشکل میں ڈال دیا
اس کے بعد متعدد مواقع پر ٹرمپ نے یوکرینی صدر کو ’آمر‘ اور ’بیکار‘ شخص بھی قرار دیا۔
گذشتہ دنوں وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ اور زیلنسکی کے درمیان جو جھگڑا ہوا اسے پوری دنیا نے دیکھا۔ وائٹ ہاؤس کی اس میٹنگ کے دوران ٹرمپ نے کہا کہ یوکرین کو ’جنگ شروع ہی نہیں کرنی چاہیے تھی۔‘
یاد رہے کہ ماضی میں پوتن بھی ایک بار ایسا ہی تبصرہ کر چکے ہیں جس میں جنگ کے آغاز کا الزام یوکرین پر عائد کیا گیا تھا۔
ٹرمپ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر جنگ ختم ہونے کے بعد یوکرین میں امن فوج تعینات کی جاتی ہے تو اس عمل میں امریکہ یورپ کی مدد نہیں کرے گا جبکہ روس بھی یوکرین میں مغربی افواج کی تعیناتی کے اعلان کو واضح انداز میں مسترد کر چکا ہے۔
اس سے بقل یوکرین جنگ کے آغاز کے تین سال مکمل ہونے پر اقوام متحدہ میں ہوئے ایک خصوصی اجلاس میں ہونے والی ووٹنگ میں امریکہ نے روس کا ساتھ دیا تھا اور روس کی مذمت پر مبنی قرارداد کا حصہ بننے سے انکار کیا تھا۔
Reutersکیا امریکہ روس کو چین سے دور کرنے کے لیے ایسا کر رہا ہے؟
یورپی اتحادیوں سے دوری اور روس کی جانب جھکاؤ ۔۔ یہ اقدام امریکہ کی 80 سالہ پرانی خارجہ پالیسی سے علیحدگی اختیار کرنے جیسا ہے۔ تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ آیا یہ امریکی کی خارجہ پالیسی کی نئی حکمت عملی ہے یا نہیں۔
25 فروری کو امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے نیوز ویب سائٹ 'بیریٹبارٹ' کو بتایا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور اُن کی انتظامیہ روس اور چین کے درمیان تعلقات کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 'میرے خیال میں روس ہمیشہ کے لیے چین کا جونیئر پارٹنر نہیں بننا چاہے گا۔ کیونکہ ایسی صورتحال میں روس کو وہی کرنا پڑے گا جو چین کہے گا۔ مجھے نہیں لگتا کہ یہ روس کے لیے اچھا ہے۔ یہ امریکہ یا یورپ یا دنیا کے لیے بھی اچھی بات نہیں ہے۔'
انھوں نے کہا کہ یہ امریکہ کے لیے بھی خطرناک ہو گا کیونکہ 'آپ امریکہ کے خلاف دو ایٹمی سپر پاورز کے متحد ہونے کی بات کر رہے ہیں۔'
روبیو نے یہ بھی کہا کہ امریکہ چین کے عالمی تجارتی نیٹ ورک کو چیلنج کرے گا، جسے بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کہا جاتا ہے۔ چین نے روبیو کے ان ریمارکس پر شدید ردعمل کا اظہار کیا تھا۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان لن جیان نے کہا کہ 'چین اور روس کے درمیان پھوٹ ڈالنے کی امریکہ کی کوشش ناکام بنا دی جائے گی۔ چین اور روس کے پاس ترقی کے لیے طویل مدتی حکمت عملی ہے۔'
یاد رہے کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو جس حکمت عملی کی بات کر رہے ہیں وہ سابق امریکی صدر رچرڈ نکسن نے بھی سوویت دور میں اختیار کی تھی۔
نکسن نے روس کو تنہا کرنے کے لیے چین کے ساتھ تعلقات قائم کیے تھے۔ اور شاید اب ٹرمپ روس کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کر کے چین کو تنہا کرنا چاہتے ہیں۔ مبصرین نے اسے 'ریورس نکسن' یا 'ریورس کسنجر' پالیسی قرار دیا ہے۔
اپنے قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر کے مشورے پر صدر نکسن نے سنہ 1972 میں چین کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جس کے نتیجے میں ان دونوں کمیونسٹ ممالک کی امریکہ کے خلاف مشترکہ جارحیت کا خاتمہ ہوا تھا۔
امریکی تھنک ٹینک 'کونسل فار فارن ریلیشنز' کا کہنا ہے کہ 'روبیو کی بات سے پتہ چلتا ہے کہ وائٹ ہاؤس اور اس کے کٹر مخالفین چین کو تنہا کرنے اور اس کے بڑھتے ہوئے عالمی اثر کو کم کرنے کے لیے روس کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔'
لندن سکول آف اکنامکس سے منسلک پروفیسر کلاؤس ولی کہتے ہیں کہ 'امریکہ نہیں چاہتا کہ روس چین کے لیے خام مال کی سپلائی کا مرکز بن جائے اور اپنے وسائل اور معدنیات چین کو سستے داموں بیچے اور اس کے نتیجے میں چین کو امریکہ پر برتری ملے گی۔'
تاہم برطانیہ میں قائم 'انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار سٹریٹجک سٹڈیز' کی ڈاکٹر ڈانا ایلن کا کہنا ہے کہ اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ٹرمپ اس حکمت عملی کی مکمل طور پر حمایت کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'یہ ٹرمپ کا کوئی غیر معمولی خیال نہیں ہے، اور وہ یہ سوچ سکتے ہیں کہ ایسا ہونا ممکن ہے۔ لیکن درحقیقت یہ آئیڈیا مارکو روبیو اور دیگر روایتی ریپبلکن شخصیات کی طرف سے آیا ہے جو وائٹ ہاؤس کی اُس ٹیم میں شامل نہیں ہیں جو پالیسی بنا رہی ہے۔'
Getty Imagesچین روسی تیل کا سب سے بڑا خریدار ہےکیا ’ریورس کسنجر‘ حکمت عملی کام کرے گی؟
روس اور چین کو الگ کرنے کے لیے امریکہ کو بہت سخت محنت کرنی پڑ سکتی ہے۔
سنہ 2022میں یوکرین پر حملے سے چند روز قبل روس اور چین نے ’نہ ختم ہونے والی‘ دوستی کے عزم کا اعادہ کیا تھا اور اس کے بعد سے اِن دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات انتہائی تیزی آئی ہے۔
چین روسی خام تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ چین نے سنہ 2024 میں 62 ارب ڈالر مالیت کا روسی خام تیل خریدا ہے جبکہ چین کی جانب سے سنہ 2021 میں کی جانے والی روسی خام تیل کی خریداری محض 20 ارب ڈالر کے لگ بھگ تھی۔
یوکرین پر حملے کے بعد مغربی ممالک نے روسی تیل کی درآمد پر پابندیاں عائد کر دی تھیں جس کے بعد چین کو روس سے مزید سستا تیل خریدنے کا موقع ملا تھا۔ دوسری طرف چین روس کی کمپیوٹر چپس جیسے ہائی ٹیک آلات کی ضرورت کو پورا کرنے میں ایک قابل قدر شراکت دار بن کر ابھرا ہے۔
امریکن انٹرپرائز انسٹیٹیوٹ اور کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس جیسے امریکی تھنک ٹینکس کی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ روس جو کمپیوٹر چپس درآمد کرتا ہے ان کا ایک بڑا حصہ چین سے آتا ہے۔
تاہم شنگھائی اکیڈمی آف گلوبل گورننس اینڈ ایریا سٹڈیز سے منسلک پروفیسر یانگ چینگ کا کہنا ہے کہ روس اور امریکہ کے درمیان مکمل ہم آہنگی کا امکان اِن دونوں ممالک کے درمیان ’پیچیدہ تاریخی عدم اعتماد اور نظریاتی اختلافات‘ کی وجہ سے شاید ممکن نہ ہو۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’روس امریکی خارجہ پالیسی کا یکطرفہ آلہ کار بننے کے بجائے سٹریٹیجک خودمختاری برقرار رکھے گا۔‘
سویڈش انسٹیٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز کے ڈاکٹر ہنرک واچمسٹر کہتے ہیں کہ ’میرے خیال میں پوتن شاید تھوڑی دیر کے لیے امریکی نقطہ نظر کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر چلیں گے، لیکن وہ کسی بھی امریکی پیشکش کے بدلے چین کے ساتھ اپنے تعلقات پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’روس اور چین وسائل کے لحاظ سے فطری اتحادی ہیں جبکہ روس اور امریکا کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔
’تیل اور گیس کی تجارت کے معاملے میں امریکہ اور روس ایک دوسرے کے حریف ہیں۔‘
کیا ٹرمپ ذاتی وجوہات کی بنا پر روس کا ساتھ دے رہے ہیں؟
ڈاکٹر ایلن کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی جانب سے روس اور پوتن کی حمایت کرنے کی وجہ کوئی سفارتی حکمت عملی نہیں ہے بلکہ یہ ’انتہائی ذاتی‘ نوعیت کا معاملہ ہے اور یہ ٹرمپ کی پہلی مدت صدارت کے دوران بھی ابھر کر سامنے آیا تھا۔
روس پر امریکہ کی صدارتی انتخاب کی مہم میں مداخلت کا الزام تھا جبکہ امریکہ میں چند حلقوں نے اس ضمن میں ٹرمپ اور اُن کی ٹیم پر روس کے ساتھ ملی بھگت کا الزام عائد کیا تھا۔
وائٹ ہاؤس میں زیلنسکی کے ساتھ حالیہ ملاقات میں ٹرمپ نے پوتن کے بارے میں کہا کہ ’میں انھیں کافی عرصے سے جانتا ہوں، ہم روس کے بارے میں ایک جیسے پروپیگنڈے سے گزرے ہیں۔‘
ڈاکٹر ایلن کے مطابق ’ٹرمپ اپنے آپ کو پوتن جیسی صورت حال سے دوچار تصور کرتے ہیں: یعنی انتقامی جذبے سے بھرپور۔‘
لندن سکول آف اکنامکس کے پروفیسر ولی کہتے ہیں کہ ’ہم جانتے ہیں کہ ٹرمپ اور پوتن کے درمیان اچھے تعلقات ہیں اور صدر ٹرمپ کے روس کو لے کر تجربات اچھے رہے ہیں۔‘
ٹرمپ زیلنسکی تکرار کے بعد یورپی ممالک کی یوکرینی صدر کی حمایت لیکن پھر بھی امریکہ سے عسکری امداد کی خواہش کیوں؟زیلنسکی پر وائٹ ہاؤس میں سوٹ نہ پہننے پر تنقید: کیا ٹرمپ سے بحث کی ایک وجہ یہ تھی؟’ٹرمپ کی پوتن جیسی سوچ‘ اور ’مغربی عالمی نظام‘ کے خاتمے کا خدشہامریکی F-35 یا روسی SU-57: جدید لڑاکا طیاروں کی کمی اور وہ پیشکش جس نے انڈین فضائیہ کو مشکل میں ڈال دیازیلنسکی سمیت عالمی رہنماؤں سے ’تلخی‘ سے پیش آنے والے ٹرمپ کے نائب جے ڈی وینس جو امریکی خارجہ پالیسی کو نیا رخ دے رہے ہیں