BBC’کیہل‘ کمیونٹی نسل در نسل لکڑیوں کی کشتیوں پر اپنے گھر بنانے اور دریائی پانی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے لیے مشہور تھی
’پہلے یہاں حالات بہت اچھے تھے اور دریا میں پانی بھی کافی زیادہ تھا لیکن اب پانی صرف بیراج کی حد تک رہ گیا ہے۔ یہاں اتنی مچھلی ہوتی تھی کہ ہمارے بڑے کشتیاں بھر بھر کر مچھلی لاتے تھے اور یہاں دریا کے کنارے ٹرک کھڑے ہوتے تھے جس میں مچھلی لوڈ کر کے مارکیٹ لے جائی جاتی تھی۔ اب تو پورے دن میں پانچ کلو مچھلی بھی مل جائے تو شکر ادا کرتے ہیں۔‘
’اب تو بعض اوقات ایسے دن میں بھی آ جاتے ہیں کہ فاقوں کی نوبت آ جاتی ہے، بچوں کے لیے محنت کرتے ہیں تاکہ انھیں کم سے کم سوکھی روٹی تو دے سکیں۔‘
بشیران مائی بی بی سی کو اپنی بےبسی کی کہانی سُنا رہی تھیں۔ اُن کا تعلق پاکستان میں دریائے سندھ اور اس کے کناروں پر بسنے والی اُس روایتی اور قدیم کمیونٹی سے ہے جنھیں ’کیہل‘ یا ’آدی واسی‘ کہا جاتا ہے۔
یہ کمیونٹی نسل در نسل لکڑیوں کی کشتیوں پر اپنے آشیانے اور گھر بنانے اور دریائی پانی میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے لیے مشہور تھی۔ مگر گذشتہ کچھ برسوں سے دریائے سندھمیں پانی کی کمی کی وجہ سے یہ کمیونٹی اپنا طرز زندگی اور روایات کو ترک کر رہی ہے۔
BBCپانی کی کمی اور خشک سالی کے باعث دریائے سندھ اب بعض مقامات پر کسی نالے کی صورت اختیار کر لیتا ہے
اب اس کمیونٹی کے ارکان دریائے سندھ سے منھ موڑ کر شہروں میں جھونپڑیاں یا کچے مکان بنا کر زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کمیونٹی کے لوگ اب قریبی شہروں میں محنت مزدوری یا بھیک مانگ کر گزارہ کرنے پر مجبور ہیں۔
دنیا میں موسم کی تبدیلیوں، بارشوں اور پہاڑوں پر برف باری میں کمی کے علاوہ دریاؤں پر بیراج اور نہریں نکالنے سے اِن آدی واسیوں کے لیے دریا اب خشک ہوتا جا رہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث اب جہاں دریا رُخ بدل رہے ہیں وہیں ان میں پانی کی روانی کم تر ہوتی جا رہی ہے اور اسی صورتحال کے باعث دریا کو اپنا 'باپ' کہنے والی اس کمیونٹی کی زندگی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
اسی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی بشیراں مائی کے شوہر ایک کشتی کے مالک ہیں۔ بشیراں مائی اور ان کے خاندان نے کسی نہ کسی حد تک دریا سے اپنا تعلق آج بھی جوڑ رکھا ہے۔ وہ اور اُن کے بچے آج بھی کشتیوں کو ہی اپنا گھر سمجھتے ہیں اور وہیں رہتے ہیں۔
بشیراں مائی نے بتایا کہ ان کے گھر کے کوئی 8 سے 10 افراد ہیں جن میں اُن کے شوہر کے بھائی بھی شامل ہیں۔
دریائے سندھ میں تونسہ بیراج کے جس مقام پر بشیراں رہتی ہیں وہاں آج بھی آٹھ سے دس کشتیوں پر مکمل گھر آباد ہیں۔ خواتین انہی کشتیوں پر کھانا پکانے کا کام کرتی ہیں، انھوں نے دریا کے کنارے پر کچھ مویشی بھی رکھے ہوئے ہیں۔ تونسہ بیراج کے اس مقام پر رہنے والے یہ افراد اپنے آپ کو ’سندھی‘ کہتے ہیں۔
BBCموسمیاتی تبدیلیوں کے باعث اب جہاں دریا رُخ بدل رہے ہیں وہیں ان میں پانی کی روانی کم تر ہوتی جا رہی ہے اور اسی صورتحال کے باعث دریا کو اپنا 'باپ' کہنے والی اس کمیونٹی کی زندگی بھی متاثر ہو رہی ہے
بی بی سی نے آدی واسیوں کے طرز زندگی اور ان کو درپیش مشکلات کو جاننے کے لیے ڈیرہ اسماعیل خان سے دریائے سندھ کے کنارےتونسہ بیراج تک کا سفر کیا ہے۔
سرائیکی علاقے سے تعلق رکھنے والے شاعر اور دانشور اشو لال کا کہنا ہے کہ دریا کے ساتھ جو کیا گیا ہے اس کے نتیجے میں ایک ایسی کمیونٹی (آدی واسی)، جو پہلے معاشی طور پر بہت بہتر تھی، اب کمزور ہو چکی ہے۔
اشو لال کی شاعری میں دریا کی ایک خاص اہمیت ہے۔ اُن کی ایک نظم میں دریا کو 'ماں باپ' اور اس میں بسنے والے لوگوں کو اس ’دریا کی اولاد‘ کہا گیا ہے۔
دریا او دریا، پانڑی تیڈے ڈونگھے
تو ساڈا ماں پیو، اساں تیڈے پونگے
’کیہل‘ کمیونٹی کا دریا سے خشکی تک کا سفرBBCدریا میں روزگار ختم کرنے کے باعث اب اس کمیونٹی کے ارکان آبادیوں میں اپنے گھر بنانے پر مجبور ہیں
دریائے سندھ میں کشتیوں کے اندر اپنی ساری زندگی گزارنے والے ان لوگوں کو سرائیکی زبان میں ’آدی واسی‘ کہا جاتا ہے یعنی انڈیجینئس لوگ۔
ماضی میں یہ کمیونٹی صوبہ سندھ کے شہر حیدر آباد سے صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے سرحدی شہر اٹک تک دریائے سندھ میں کشتیوں میں ہی گزر بسر کرتی تھی۔
لیکن اب بارشوں کی کمی، دریائے پر ڈیم، بیراج اور نہروں کی تعمیر کے باعث اس کمیونٹی کا دریا ان سے چِھن گیا ہے۔
’سندھو بچاؤ ترلہ‘ کے نام سے قائم ایک تنظیم ان آدی واسیوں کی فلاح سے متعلق کام کرتی ہے۔ اس تنظیم سے منسلک خادم حسین بتاتے ہیں کہ ’یہ آدی واسی ماضی میں بڑی کمیونٹی کے طور پر بستے تھے اور ان کا گزر بسر کشتیوں میں اور دریا کے کنارے کنارے ہوتا تھا۔ یہ لوگ دریائے سندھ سے مچھلی کا شکار کرتے، خود بھی کھاتے اور گزر بسر کے لیے مارکیٹ میں بھی فروخت کرتے۔ اس کے علاوہ یہ کمیونٹی دریا میں افراد اور سامان کی ٹرانسپورٹیشن کا کام بھی کرتی تھی۔ دریا سے ہی ان کی زندگی وابستہ تھی۔ ان کا انحصار دریا کے ساتھ ساتھ واقع جنگلات پر بھی ہوتا تھا جہاں سے حاصل ہونے والی جھاڑیوں سے ان کی خواتین ٹوکریاں اور دیگر سامان تیار کرکے شہروں میں فروخت کرتے تھے۔‘
خادم حسین کے مطابق ان کی تنظیم کی جانب سے کیے گئے سروے میں سامنے آیا کہ دریائے سندھ پر چشمہ بیراج سے لے کر تونسہ بیراج تک کے 250 کلومیٹر کے درمیانی علاقے میں اِن آدی واسیوں کی تعداد 40 ہزار تک ہے۔ ’اُن میں اب کچھ دریا کے کنارے تو کچھ خانہ بدوشوں کی طرح شہروں میں زندگیاں گزارنے پر مجبور ہیں۔‘
تاہم بی بی سی اس سروے کی آزادانہ تصدیق نہیں کر سکا ہے۔
دریا پر بیراج اور نہریں بننے سے جہاں پانی کی روانی متاثر ہوئی وہیں مچھلی پکڑنے کے لیے ٹھیکیداری کا نظام رائج ہوا جس کے باعث آدی واسیوں کا روزگار متاثر ہوا۔
میرا اپنا تعلق خیبر پختونخوا کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے اور مجھے یاد ہے کہ بچپن میں ڈی آئی خان کے مقام سے گزرنے والے دریائے سندھ کے ایک کنارے سے دوسرا کنارہ مشکل سے ہی نظر آتا تھا یعنی دریا کا پاٹ بہت چوڑا تھا۔
اسی دریا میں کبھی اتنا پانی تھا کہ یہاں چھوٹے بحری جہاز، لانچیں اور بڑی کشتیاں چلتی تھیں۔ ’ایس ایس جہلم‘ نامی بحری جہاز لگ بھگ 30 سال پہلے دریائے سندھ کے اسی مقام پر آنے والے ایک طوفان کے دوران دریا میں ڈوب گیا تھا۔ مگر اب صورتحال یکسر مختلف ہے اور یہاں دریا کسی ندی کا روپ دھار چکا ہے۔
کیہل کمیونٹی کی بستی
ڈیرہ اسماعیل خان کے مضافات میں تھویا فاضل کے مقام پر خشک ہوتے دریا کے قریب ایک بستی میں اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے والے درجنوں خاندانوں کے خیمے اور کچے مکان ہیں۔
یہاں بسنے والے خاندان گزر بسر کے لیے جھاڑیوں اور لکڑیوں سے ٹوکریاں بناتے ہیں۔
یہ کام وہ اپنے آباؤ اجداد کے دور سے کرتے آ رہے ہیں۔ ماضی میں کشتیوں کے ذریعے وہ دریائے سندھ کے کناروں پر آباد جنگلوں سے ٹوکریاں بنانے کے لیے درکار لکڑیاں اور جھاڑیاں کاٹ کر لاتے تھے مگر اب چونکہ دریا کے ساتھ ساتھ جنگل بھی ختم ہو رہے ہیں تو انھیں یہ لکڑیاں بھی مشکل ہی سے مل پاتی ہیں۔
BBCوہ جھاڑیاں جو پہلے باآسانی دریا کے ساتھ موجود جنگل سے مل جاتی تھیں اب ان کا حصول بھی مشکل تر ہو چکا ہے
صفیہ بی بی کے ہاتھ مردوں کی طرح سخت ہو چکے ہیں اور اُن پر چھالے پڑے ہوئے ہیں۔ ٹوکری بناتے بناتے انھوں نے ہمیں بتایا کہ دیگر ذرائع آمدن ختم ہونے کے باعث اب ان کا بڑا دارومدار ان ٹوکریوں کی فروخت پر ہی ہے اور اس کے لیے انھیں بہت زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ ’یہ ایک ٹوکری ڈھائی سو سے تین سو روپے میں فروخت ہو جائے گی۔‘
صفیہ بی بینے بتایا کہ یہ مشکل کام ہے جسے کرنے سے ان کے ہاتھوں کی جلد پھٹ جاتی ہے۔ ’مشکل یہ ہے کہ اب یہ جھاڑیاں بھی نہیں ملتیں۔ پہلے جنگل تھے، جھاڑیاں بھی تھیں مگر اب جنگلوں کے رقبوں پر لوگوں نے فصلیں کاشت کر لی ہیں۔‘
’ہم یہ جھاڑیاں توڑ کر لاتے ہیں پھر انھیں پانی میں رکھتے ہیں۔ اس کے بعد انھیں خشک کرکے تراش خراش کرتے ہیں اور اس کے بعد ان کی مدد سے ٹوکریاں بنائی جاتی ہیں۔‘
BBC’زمین کے بدلے میں ہم لوگوں کے گھروں کے کام کرتے ہیں اور اس کے علاوہ مزدوری کبھی مل جاتی ہے اور کبھی بھوکے گزارہ کرنا پڑتا ہے‘
یہاں رہنے والے بہت سے افراد نے بتایا کہ اُن کی کمیونٹی کی بیشتر خواتیناب یا تو قریبی علاقوں میں لوگوں کے گھروں میں کام کرتی ہیں یا بھیک مانگ کر گزارہ کرتی ہیں جبکہ مرد بھی اپنے طور پر تھوڑی بہت مزدوری کر لیتے ہیں اور بیشتر خالی ہاتھ ہی گھر واپس لوٹتے ہیں۔
ماضی میں دریا میں کشتیوں پر آباد ان خاندانوں کو مقامی افراد نے جھونپڑیوں اور کچے کمروں کی تعمیر کے لیے زمین دی ہے۔ ’لیکن اس زمین کے بدلے میں ہم ان کے گھروں کے کام کرتے ہیں اور اس کے علاوہ مزدوری کبھی مل جاتی ہے اور کبھی بھوکے گزارہ کرنا پڑتا ہے۔‘
خشک دریا میں آدی واسیوں کی ٹوٹی کشتیاںBBCدریائے سندھ میں پانی کی کمی کے باعث اب کشتیاں خشکی پر ہیں اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں
ڈیرہ اسماعیل خان میں بہنے والے دریائے سندھ میں اب پانی اتنا کم ہے کہ ماضی میں پانی پر تیرتی کشتیاں اب خشکی پر پڑی نظر آتی ہیں اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔
محمد اسلم کی کشتی بھی اب خشکی پر ہی ہے اور وہ اس کی مرمت کے لیے پریشان ہیں۔ محمد اسلم نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ خود حیران ہیں کہ دریا کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ ’ہمارے بزرگ تو اس دریا سے فائدہ اٹھا لیتے تھے، مزدوری مل جاتی تھی، کشتی کا کام چل جاتا تھا۔ لیکن اب نہ تو پانی ہے اور ناں ہی لوگ اس طرف آتے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’پہلے ہمارے باپ دادا مچھلی کا شکار کر لیتے تھے لیکن اب اگر ہم مچھلی پکڑ لیں تو ٹھیکیدار کے لوگ آ جاتے ہیں اور ہم سے جرمانہ وصول کیا جاتا ہے۔‘
BBCدریائے سندھ میں پانی کی روانی برقرار رکھنے کے لیے دریا میں گلاب کی پتیاں ڈالی جاتی ہیں
محمد اسلم نے بتایا کہ اب وقت پر بارش نہیں ہوتی تو دریا بالکل سوکھ جاتا ہے اور اس صورتحال نے اُن کی زندگی بہت متاثر کی ہے۔
اشو لال کہا کہنا ہے کہ دریاؤں میں بسنے والی اس کمیونٹی کی زندگی اس وقت انتہائی مشکل ہے۔ ’اُن کی زندگی یا فلاح و بہبود پر زیادہ کام نہیں کیا گیا ۔ خشک ہوتے دریا سے جہاں ان کی روایتی زندگی کو خطرہ ہے وہیں موسمی تبدیلی سے دریا کے قریب آبادی بھی متاثر ہو رہی ہے۔‘