کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے لاؤنج میں موجود 44 سالہ خالد حسین اپنے فون پر بار بار بورڈنگ کی تازہ ترین معلومات تلاش کر رہے ہیں۔
وہ ترکیہ کے شہر استنبول جا رہے تھے، جہاں انہیں اپنا دفتر جوائن کرنا ہے مگر ان کی فلائٹ گزشتہ 22 گھنٹے سے تاخیر کا شکار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی فضائی حدود کچھ وقت کے لیے بند کی گئی تھی، جس کی وجہ سے ترکیہ سے آنے والی پرواز کو روک دیا گیا۔ اب میری فلائٹ دوبارہ کب روانہ ہو گی، کوئی کچھ نہیں بتا رہا۔‘ خالد حسین کی آواز میں تھکن اور غصہ نمایاں تھا۔
خالد حسین اکیلے ہی اس صورتحال کا شکار نہیں۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد، پشاور اور ملتان سمیت ملک کے تمام بڑے ہوائی اڈوں پر ایسے سینکڑوں مسافر موجود ہیں جو گزشتہ دو ہفتوں سے پاکستان میں جاری فضائی بندشوں اور ایئرلائنز کے محدود فلائٹس آپریشنز سے متاثر ہو رہے ہیں۔
بین الاقوامی ایئرلائنز نے آپریشنز محدود کر دیے
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق کئی بین الاقوامی ایئرلائنز نے پاکستان میں اپنی پروازوں کی تعداد کم کر دی ہے۔ بعض روٹس مکمل طور پر معطل کر دیے گئے ہیں جبکہ بعض کے لیے مخصوص دنوں میں اُڑان بھری جا رہی ہے۔
پاکستان ایئر پورٹس اتھارٹی نے حالیہ کشیدہ علاقائی حالات اور سکیورٹی خدشات کے پیش نظر وقتاً فوقتاً ملک کی فضائی حدود بعض حصوں میں بند کی ہیں۔
ایئر پورٹس اتھارٹی کے ترجمان کے مطابق ان بندشوں کا اطلاق اکثر رات کے اوقات یا مخصوص فضائی راستوں پر ہوتا ہے مگر اس کے اثرات دن بھر کی پروازوں پر مرتب ہو رہے ہیں۔
خلیجی ممالک جانے والے سب سے زیادہ متاثر
نبیلہ زاہد جو کراچی سے دوحہ جا رہی تھیں، کہتی ہیں ’میں نرس ہوں اور قطر کے ایک ہسپتال میں نوکری کرتی ہوں۔ چھٹیاں ختم ہو چکی ہیں مگر فلائٹ نہیں مل رہی۔ مجھے اب نئے ٹکٹ پر قریباً دگنی رقم خرچ کرنا پڑ رہی ہے لیکن اس کے باوجود یہ نہیں معلوم کہ کب تک دوحہ پہنچ سکوں گی۔‘
اسی طرح اسد احمد جو شارجہ سے کراچی آئے تھے، اب واپسی کے لیے دربدر ہو رہے ہیں۔ ’پی آئی اے نے پہلے میری فلائٹ ری شیڈول کی، پھر کینسل کر دی۔ اب اگلی فلائٹ ایک ہفتے بعد ہے۔ آفس میں غیر حاضری پر کٹوتی ہوگی، اور ویزا بھی متاثر ہو سکتا ہے۔‘
پاکستان ایئر پورٹس اتھارٹی کے مطابق موجودہ صورتحال کا مقصد قومی سلامتی اور فضائی تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پییورپ اور امریکہ جانے والے بھی مشکلات میں
ایسے پاکستانی جو لندن، پیرس، نیویارک یا ٹورنٹو جیسے شہروں کے لیے سفر کر رہے تھے، انہیں بھی غیرمتوقع التوا اور راستہ بدلنے کی وجہ سے اضافی وقت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
علی قریشی جو کراچی سے لندن جا رہے تھے ان کا کہنا تھا کہ ان کی فلائٹ کا روٹ تبدیل کر دیا گیا کیونکہ پاکستان اور کچھ پڑوسی ممالک کی فضائی حدود بند تھیں۔ ’فلائٹ 8 گھنٹے تاخیر سے پہنچی، اور میرا کنیکشن چھوٹ گیا جس کے باعث مجھے نیا ٹکٹ خریدنا پڑا۔‘
اندرونِ ملک پروازوں پر بھی اثرات
یہ بحران صرف بین الاقوامی نہیں بلکہ ملکی پروازیں بھی اس کی زد میں ہیں۔ کئی ایئر لائنز اندرون ملک پروازوں کو اس وقت محدود اوقات میں چلا رہی ہیں۔ فضائی راستوں کی جزوی بندش کی وجہ سے کراچی سے اسلام آباد، لاہور یا کوئٹہ جانے والی پروازیں گھنٹوں تاخیر کا شکار ہو رہی ہیں۔
شازیہ نعیم جو کراچی سے اسلام آباد ایک کنسلٹنسی میٹنگ کے لیے جا رہی تھیں، کو کہا گیا کہ ان کی فلائٹ 6 گھنٹے لیٹ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایسا لگتا ہے جیسے ہوابازی کا نظام مکمل طور پر مفلوج ہو چکا ہے۔ سب کچھ بے ترتیب ہو گیا ہے، اور مسافر بے یار و مددگار ہیں۔‘
سول ایوی ایشن کا مؤقف
پاکستان ایئر پورٹس اتھارٹی نے وضاحت کی ہے کہ موجودہ صورتحال کا مقصد صرف اور صرف قومی سلامتی اور فضائی تحفظ کو یقینی بنانا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق علاقائی صورتِ حال کے معمول پر آنے تک اس نوعیت کی مشکلات پیدا ہوتی رہیں گی۔ فائل فوٹو: اے پی پی
اتھارٹی کے ترجمان نے بتایا کہ ’ہم حالات کا مسلسل جائزہ لے رہے ہیں۔ فضائی حدود کی بندش عارضی اور مخصوص اوقات میں ہوتی ہے۔ ہم تمام ایئرلائنز سے رابطے میں ہیں تاکہ مسافروں کو کم سے کم تکلیف پہنچے۔‘
ماہرین کیا کہتے ہیں؟
ایوی ایشن امور کے ماہر راجہ کامران کے مطابق علاقائی صورتِ حال کے معمول پر آنے تک اس نوعیت کی مشکلات پیدا ہوتی رہیں گی۔ ’بین الاقوامی ایئرلائنز احتیاطی طور پر پاکستان کے لیے کم پروازیں چلا رہی ہیں کیونکہ انہیں فضائی راستوں کی بندش، ایندھن کے بڑھتے اخراجات، اور فلائٹ سیفٹی کے حوالے سے خدشات لاحق ہیں۔‘
مسافر مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکومت اور ایئرلائنز مسافروں کو معلومات فراہم کریں۔ کچھ لوگوں نے یہ تجویز دی ہے کہ سول ایوی ایشن ایک باقاعدہ ہیلپ لائن یا آن لائن پورٹل قائم کرے جہاں بندشوں اور پروازوں کے بارے میں بروقت اور درست معلومات فراہم کی جائیں۔