انڈیا اور پاکستان امریکی مداخلت کے بعد جنگ کے دہانے سے پیچھے ہٹ چکے ہیں تاہم تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے ’تنازع کشمیر پر ثالثی کی پیشکش‘ کے بعد عالمی سفارتی طاقت بننے کے خواہش مند نئی دہلی کو ایک اہم امتحان کا سامنا ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے اے پی کی تجزیاتی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کی پانچویں بڑی معاشی طاقت کے طور پر سامنے آنے سے انڈیا کے اعتماد اور دنیا پر اس کے اثر میں اضافہ ہوا، جس کی بدولت اس نے سری لنکا کی اقتصادی تباہی اور میانمار میں زلزلے جیسے علاقائی بحرانوں سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کیا۔
تاہم ماہرین کشمیر کے تنازع کو مختلف طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ حالیہ لڑائی کے بعد امریکی صدر کی پیشکش نے انڈین سیاست کے ’حساس اعصابی معاملے‘ کو چھو لیا ہے۔
پچھلے دنوں دونوں ممالک کے درمیان شدید لڑائی ہوئی، جس میں کم سے کم 66 افراد ہلاک ہوئے، جس کے بعد جنگ بندی ہو چکی ہے۔
انڈیا اس مشکل سفارتی صورت حال سے کیسے نمٹے گا کیونکہ اسے امریکہ کے ساتھ تجارت کو بھی آگے بڑھانا ہے اور دوسرا کشمیر تنازع پر بھی اپنے مفادات کا تحفظ کرنا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں بننے والی صورت حال کا زیادہ تر انحصار ملک کی سیاست پر ہو گا۔
واشنگٹن میں رہائش پذیر جنوبی ایشیا کے معاملات کے ماہر مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ ’انڈیا ممکنہ طور پر وسیع مذاکرات کا خواہش مند نہیں ہے، جس سے اس کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔‘
جنگ بندی ہو جانے کے باوجود بھی دونوں ممالک نے ایک دوسرے پر خلاف ورزیوں کے الزمات لگائے ہیں جو کہ اس جنگ بندی کی کمزوری کی طرف اشارہ ہے۔
دونوں ممالک کے درمیان جنگ بندی کا اعلان واشنگٹن سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
ڈونلڈ ٹرمپ نے جنگ بندی کے بعد اتوار کو کہا تھا کہ ’میں انڈیا اور پاکستان دونوں کے ساتھ کافی حد تک تجارت کو بڑھانے جا رہا ہوں اور یہ دونوں عظیم ملک ہیں۔‘
انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے تنازع شروع ہونے کے بعد سے عوامی سطح پر کوئی اظہار خیال نہیں کیا ہے۔
انڈیا کشمیر کو اپنے ملک کا اٹوٹ حصہ سمجھتا ہے اور کسی تیسرے فریق کی ثالثی میں اس پر بات چیت بھی نہیں کرنا چاہتا۔
اسی طرح پاکستان بھی ہمالیہ کے اس خوبصورت خطے پر جزوی حکمرانی رکھتا ہے تاہم دونوں ہی اس کی مکمل ملکیت کا دعویٰ رکھتے ہیں اور اسی کی وجہ سے جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔
انڈیا اس کے زیرانتظام کشمیر میں شورش کی حمایت کا الزام پاکستان پر لگاتا ہے جبکہ پاکستان اس سے انکار کرتا ہے۔
1947 میں الگ ہونے کے بعد مغربی دنیا نے دونوں ممالک کو ایک ہی نظر سے دیکھا جو کشمیر کے تنازع پر لڑتے رہے تاہم حالیہ برسوں کے دوران ایک تبدیلی کچھ ایسے آئی کہ انڈیا نے معاشی طور پر بہت ترقی کی اور پاکستان کی معیشت انڈیا کے 10ویں حصے سے بھی کم ہے۔
پاکستان اور انڈیا شروع سے ہی پورے کشمیر پر ملکیت کا دعویٰ کرتے آئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
تاہم ٹرمپ کی تجویز اور مارکو روبیو کی جانب سے کسی نیوٹرل مقام پر بات چیت کے بیان نے بہت سے انڈینز کو بے چین کر دیا ہے۔
دوسری جانب پاکستان نے اس تجویز پر کئی بار امریکی صدر کا شکریہ ادا کیا ہے تاہم انڈیا نے جنگ بندی میں بھی کسی تیسرے فریق کے کردار کو تسلیم نہیں کیا اور کہا کہ یہ دو طرفہ طور پر کی گئی۔
انڈیا کی حزب اختلاف کی جماعتیں حکومت سے مسلسل سوال پوچھ رہی ہیں کہ کیا اس نے پاکستان پر حملے سے تزویراتی مقاصد حاصل کر لیے ہیں، جو اس نے پہلگام واقعے کے بعد جوابی کارروائی کے طور پر کیا تھا۔
پاکستان میں بہت اندر تک میزائل حملوں کے ذریعے نریندر مودی نے اپنے پیشرووں کے مقابلے میں زیادہ خطرہ مول لیا تاہم اچانک جنگ بندی کی وجہ سے انہیں ملک میں تنقید کا بھی سامنا ہے۔
ان کی پارٹی بی جے پی سے تعلق رکھنے والے سابق قانون ساز سواپن داس گپتا کا کہنا ہے کہ انڈیا میں جنگ بندی اچھی طرح سے نہیں ہوئی کیونکہ صدر ٹرمپ اچانک کہیں سے نمودار ہوئے اور اپنا فیصلہ سنا دیا۔
اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کانگریس نے بھی ’واشنگٹن سے جنگ بندی کے اعلان‘ پر حکومت سے وضاحت طلب کی ہے۔
کانگریس کے ترجمان جے رام رمیش نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا ہم نے کسی تیسرے فریق کی ثالثی کے لیے دروازے کھول دیے ہیں۔‘