اسلام آباد ہائیکورٹ نے تعلیمی اداروں میں منشیات کی مبینہ سپلائی روکنے کے لیے حکم دیا ہے کہ سکولوں، کالجوں اور جامعات میں طلبہ کو اشیا کی براہ راست ڈیلیوری کی سہولت پر فوری پابندی عائد کی جائے۔
جسٹس انعام امین منہاس نے ایک آئینی درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کی رسائی کی ایک بڑی وجہ کوریئر اور فوڈ ڈیلیوری سروسز ہیں، جہاں بظاہر پیزا یا دیگر اشیا منگوائی جاتی ہیں، مگر اسی کے ساتھ منشیات بھی پہنچا دی جاتی ہیں۔
انہوں نے متعلقہ حکام کو ہدایت کی کہ تمام تعلیمی اداروں میں ہونے والی براہِ راست ڈیلیوریز کی مکمل فہرست تیار کی جائے اور ان سکولوں یا کالجوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے جو ان عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہیں کرتے۔
عدالت نے اس دوران استفسار کیا کہ نیشنل اینٹی نارکاٹکس کونسل، جس کی سربراہی خود وزیراعظم نے کرنی ہے اور جس میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ شامل ہونے تھے، تاحال کیوں تشکیل نہیں دی گئی؟ عدالت نے سیکریٹری کابینہ کو ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر اس حوالے سے رپورٹ پیش کی جائے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے تعلیمی اداروں میں منشیات کی روک تھام سے متعلق پولیس حکام سے بھی رپورٹ طلب کی تھی۔
پولیس نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ وہ وی آئی پی ڈیوٹیز کی مصروفیات کے باعث منشیات پر قابو پانے میں کامیاب نہیں رہے۔
جسٹس انعام امین منہاس نے اس حوالے سے تحریری حکم جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اسلام آباد پولیس نے عدالت کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ وہ منشیات کے جرائم پر قابو پانے کے بجائے وی آئی پی ڈیوٹیز میں مصروف ہے کیونکہ یہ ڈیوٹیز زیادہ حساس اور وقت طلب ہوتی ہیں، تاہم عدالت نے واضح کیا کہ یہ مؤقف قانون کے مطابق درست نہیں اور پولیس کی اس عدم دلچسپی کو نااہلی قرار دیتے ہوئے کارروائی کا عندیہ دیا۔
دوسری جانب اے این ایف ترجمان نے بتایا ہے کہ انسداد منشیات فورس (اے این ایف) نے تعلیمی اداروں سمیت مختلف شہروں میں منشیات سمگلنگ کے خلاف بھرپور کریک ڈاؤن کیا۔ کریک ڈاؤن کے نتیجے میں 9 مختلف کارروائیوں میں 14 ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔
ان کارروائیوں کے دوران مجموعی طور پر 16 کروڑ 54 لاکھ روپے سے زائد مالیت کی منشیات برآمد کی گئیں۔
اے این ایف نے تعلیمی اداروں میں منشیات کی سمگلنگ اور فروخت کے خلاف بھی خصوصی کارروائیاں کیں، اور ایک بڑے نیٹ ورک کو بے نقاب کیا۔ گرفتار ملزمان نے اعتراف کیا کہ وہ تعلیمی اداروں کے طلبہ کو منشیات فروخت کر رہے تھے۔
یہ مسئلہ اگرچہ اب عدالت میں زیرِبحث آیا، تاہم اس کا پس منظر کئی برس پر محیط ہے۔ پی ٹی آئی کے گزشتہ دورِ حکومت میں وزیر مملکت برائے داخلہ و انسداد منشیات شہریار آفریدی نے 2019 میں پارلیمنٹ میں حیران کن انکشاف کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام آباد کے پوش تعلیمی اداروں میں 75 فیصد طالبات اور 45 فیصد طلبہ منشیات کا استعمال کر رہے ہیں۔
اسلام آباد کے متعدد تعلیمی اداروں کے سربراہوں نے وقتاً فوقتاً اس مسئلے کی سنگینی پر آواز بلند کی ہے۔ فائل فوٹو
ان کا کہنا تھا کہ ’میں یہ بات کسی سنی سنائی بنیاد پر نہیں کر رہا بلکہ اس کے پیچھے باقاعدہ تحقیقات موجود ہیں، جن میں اسلام آباد کے بڑے تعلیمی اداروں کے سیمپلز لے کر فارنزک تجزیہ کیا گیا۔ میں یہ بات ایک باپ کی حیثیت سے کر رہا ہوں، ہمیں فوری اور سخت اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ یہ زہر ہماری نسلوں کو کھا جائے گا۔ والدین کو اپنی اولاد کے رویوں، نیند، کھانے پینے اور معمولات پر کڑی نظر رکھنی چاہیے کیونکہ اکثر منشیات کا آغاز ایک انجانے تجربے سے ہوتا ہے جو بعد میں لت بن جاتا ہے۔‘
شہریار آفریدی کے اس انکشاف کے بعد اسلام آباد پولیس اور انسداد منشیات فورس نے بعض اداروں کے گرد کریک ڈاؤن کیا، تاہم کوئی مستقل پالیسی یا قانونی فریم ورک سامنے نہیں آ سکا۔ اسلام آباد کے متعدد تعلیمی اداروں کے سربراہان اور ماہرین تعلیم نے بھی وقتاً فوقتاً اس مسئلے کی سنگینی پر آواز بلند کی ہے۔
ہیلتھ سروسز اکیڈمی اسلام آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر شہزاد علی خان نے بتایا کہ یونیورسٹی ہاسٹلز منشیات کے استعمال کے مراکز بن چکے ہیں۔ ’اگر فوری طور پر سنجیدہ اقدامات نہ کیے گئے تو ہم نہ صرف ذہنی و جسمانی طور پر مفلوج نوجوان تیار کریں گے بلکہ سماج کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیں گے۔‘
انہوں نے تجویز دی تھی کہ تمام ہاسٹلز میں باقاعدہ چیکنگ، کونسلنگ اور ری ہیب کا نظام وضع کیا جائے۔