جنسی مجرموں کے لیے کیمیکل کیسٹریشن: ’سیکس کی خواہش کم ہونے سے جنسی حملوں کے امکان میں کمی آئے گی‘

بی بی سی اردو  |  May 23, 2025

Getty Imagesسزائے موت اور عمر قید جیسی سزاؤں کے متبادل کے طور پر 1944 میں پہلی بار کیمیکل کیسٹریشن کی سزا متعارف کرائی گئی تھی

برطانیہ میں وزیر انصاف نے کہا ہے کہ جنسی جرائم کے مجرموں کے رضاکارانہ کیمیکل کیسٹریشن کرنے کے منصوبے کو انگلینڈ کی 20 جیلوں تک توسیع دی جائے گی۔

وزیر انصاف شبانہ محمود کا کہنا تھا کہ وہ اس عمل کو جنوب مغربی انگلینڈ میں مزید دو علاقوں تک توسیع دیں گی کیونکہ سزا کے آزادانہ جائزے میں اسے جاری رکھنے کی سفارش کی گئی تھی۔

شبانہ محمود جنسی مجرموں کے لیے رضاکارانہ طور پر کیمیائی کیسٹریشن کے ملک بھر میں عمل در آمد پر بھی غور کر رہی ہیں اور یہ کہ کیا اسے لازمی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس فیصلے کے لیے کوئی ٹائم لائن مقرر نہیں کی گئی ہے۔

فرانزک سائیکیٹری پروفیسر ڈان گربن کا کہنا ہے کہ انھیں نہیں لگتا کہ حکومت اس علاج کو لازمی قرار دے گی کیونکہ ’کسی کا یہ ٹریٹمنٹ کروانا غیر اخلاقی ہو گا اور مجھے معلوم ہے کہ زیادہ تر ڈاکٹر اس کے خلاف مزاحمت کریں گے۔‘

کیمیائی کیسٹریشن دواؤں اور نفسیاتی عوامل کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یہ ٹریٹمنٹ ایسے جنسی مجرموں کو دیا جاتا ہے جو جنسی تعلقات کے بارے میں جبری اور جارحانہ خیالات رکھتے ہیں، یا ان کی پریشان کن جنسی مصروفیات ہوتی ہیں۔

یہ طریقہ کچھ یورپی ممالک میں استعمال کیا گیا ہے۔ جرمنی اور ڈنمارک میں، کیمیائی دباؤ کا استعمال صرف رضاکارانہ بنیاد پر کیا گیا جبکہ پولینڈ نے کچھ جنسی مجرموں کے لیے لازمی کیمیائی رکاوٹ کا طریقہ متعارف کروایا۔

انگلینڈ اور ویلز میں تعارفی منصوبے کو جاری رکھنے کی تجویز سابق لارڈ چانسلر ڈیوڈ گؤک کی انڈیپینڈنٹ پینشن ریویو کی جانب سے پیش کی جانے والی 48 سفارشات میں سے ایک تھی، جس کا مقصد جیلوں میں گنجائش سے زیادہ قیدیوں کے بحران کی وجوہات کا جائزہ لینا اور حراستی سزاؤں کے متبادل سزاؤں پر غور کرنا تھا۔

شبانہ محمود نے جمعرات کو روز ہاؤس آف کامنز کو بتایا کہ وہ اس معاملے میں پیش رفت کر کے پائلٹ پروگرام کو وسعت دے کر ایسے شواہد جمع کریں گی کہ ’ہم اپنے پاس موجود ہر وہ طریقہ استعمال کر رہے ہیں جو جرائم کے دہرائے جانے کے امکان کو کم کر سکتا ہے۔‘

حکومت نے اس بات کی تصدیق نہیں کی ہے کہ کون سے علاقے یا جیلیں وسیع تر پائلٹ سکیم کا حصہ ہوں گی۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ ضروری ہے کہ اس نقطۂ نظر کو نفسیاتی مداخلت کے ساتھ لیا جائے جو جرائم کی دیگر وجوہات کو بھی دیکھے جن میں طاقت اور کنٹرول کرنا بھی شامل ہیں۔‘

'کچھ لوگوں کے لیے جرائم کی وجہ طاقت ہے لیکن ہمارے خیال میں کچھ مجرموں کے لیے، کیمیائی دباؤ اور نفسیاتی مداخلت کا امتزاج بڑے اور مثبت اثرات مرتب کر سکتا ہے۔'

گؤک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مارچ 2025کے آخر تک فوری طور پر حراست میں سزا کاٹنے والے بالغوں میں سے 21فیصد بالغ افراد جنسی مجرم تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ہر جنسی مجرم کے لیے سزا نہیں ہے، یہ ایک ایسی چیز ہے جسے ہم سزا کے بجائے دوبارہ جرم کے خطرے کو کم کرنے کے لیے ایک علاج کے طور پر دیکھیں گے۔‘

پروفیسر گربن کا کہنا ہے کہ ہارمونل ادویات کے ’بہت سنگین ضمنی اثرات‘ ہوتے ہیں اور ’کسی کو ان ادویات پر رضامند ہونے کے لیے اپنی جنسی خواہشات کو قابو میں رکھنا ہو گا۔‘

تاہم انھوں نے کہا کہ آپ اسے پیرول لائسنس کی شرط بنا سکتے ہیں، جیسے کیلیفورنیا میں دوسری بار جنسی جرمکرنے والوں کے لیے لازمی ہے جہاں متاثرہ فرد کی عمر 13 سال سے کم ہو۔

Getty Imagesیہ دوا نفسیاتی مدد کے ساتھ لی جاتی ہیں جو جنسی حملوں کی دیگر وجوہات جیسے طاقت اور کنٹرول کی خواہش کا علاج کرتی ہیںپاکستان: ریپ کے مجرم کے لیے ’کیسٹریشن‘ کی سزا نئے قانون سے نکال دی گئیجنسی صلاحیت ختم کرنے کی سزا ریپ کے واقعات میں کمی لا سکتی ہے؟پاکستان میں ریپ کا شکار افراد سامنے کیوں نہیں آ پاتے؟کیا جھوٹ بولنے سے سیکس ریپ میں تبدیل ہو جاتا ہے؟کیا کیمیائی کیسٹریشن مؤثر ہے؟

سزائے موت اور عمر قید جیسی سزاؤں کے متبادل کے طور پر 1944 میں پہلی بار کیمیکل کیسٹریشن کی سزا متعارف کرائی گئی تھی جو بعد میں دنیا کے کئی ممالک میں رائج ہو گئی۔ یہ سزا عادی مجرمان کے لیے تجویز کی گئی تھی۔

یہ سزا یورولوجی کے شعبے میں مہارت رکھنے والے ڈاکٹر کی زیر نگرانی دی جاتی ہے جبکہ نفسیاتی تھراپی کا عمل ماہر نفسیات کی نگرانی میں ہوتا ہے۔

اس وقت امریکہ کی چند ریاستوں کے علاوہ کیمیکل کیسٹریشن کی سزا انڈونیشیا، پولینڈ اور روس سمیت دیگر کچھ ممالک میں بھی رائج ہے۔

کیمیکل کیسٹریشن دو ادویات کے ذریعے فراہم کی جاتی ہے۔ یہ سلیکٹو سیروٹونن ری اپٹیک انہیبیٹرز (ایس ایس آر آئی) جارحانہ جنسی خیالات کو محدود کرتے ہیں جبکہ اینٹی اینڈروجن ٹیسٹوسٹیرون کی پیداوار کو کم کرتے ہیں اور لیبیڈو کو محدود کرتے ہیں۔

یہ دوا نفسیاتی مدد کے ساتھ لی جاتی ہیں جو جنسی حملوں کی دیگر وجوہات جیسے طاقت اور کنٹرول کی خواہش کا علاج کرتی ہے۔

بعض طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس عمل کے لیے کیسٹریشن کی اصطلاح درست نہیں ہے۔ ان کے خیال میں کیسٹریشن تو ایک ایسا عمل ہوتا ہے جس کے بعد جنسی صلاحیت دوبارہ فعال نہیں ہو سکتی۔ تاہم اگر اس وقت ہارمون کو ڈپریس کرنے والے رائج طریقۂ علاج کی بات کی جائے تو پھر 20 سال کی عمر والے فرد پر تو ایسے انجیکشن کے زیادہ اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔

گؤک کے جائزے میں کہا گیا ہے کہ یہ سکیم سب سے پہلے سنہ 2007میں ایچ ایم پی واٹٹن میں شروع کی گئی تھی اور بعد میں 2016میں مزید چھ جیلوں میں نافذ کی گئی تھی۔ سنہ 2022کے ایک پائلٹ نے اس پروگرام کو جنوب مغربی انگلینڈ کی پانچ جیلوں تک توسیع دی۔

کیمیائی کیسٹریشن کے اثرات پر تحقیق اگرچہ محدود ہے تاہم اس نے دوبارہ حملے کی شرح میں کافی کمی ظاہر کی ہے۔ ایک مطالعے میں دس مجرموں کا جائزہ لیا گیا جن میں سے کسی نے بھی علاج کے بعد دوبارہ جرم نہیں کیا۔

ایک اور مطالعے میں جنسی مجرموں کے دو گروہ بنائے گئے جن میں سے ایک کی کیمیکل کیسٹریشن کی گئی جبکہ دوسرے گروہ کے ساتھ ایسا نہیں کیا گیا۔

کیمیکل کیسٹریشن والے گروپ میں دوبارہ حملے کی شرح 60 فیصد کم تھی۔

پروفیسر گربن کا کہنا ہے کہ ’یہ کام مریضوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹروں کا ہے نہ کہ انصاف کے اداروں کے لیے کام کرنے والے ڈاکٹرز کا لیکن اس کا ایک ضمنی اثر یہ ہے کہ جرم کے دوبارہ ہونے کا امکان کم ہو گا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ جنسی حملے اور دوبارہ جنسی حملوں کا ایک اہم عنصر سیکس کی خواہش ہے۔‘

پروفیسر گربن کا کہنا ہے کہ ہارمونل ادویات لینے والے افراد میں دوبارہ حملہ کرنے کی شرح ’بہت کم‘ ہے کیونکہ یہ جنسی خواہشات کو کم کرنے میں مؤثر ہے۔

تاہم انھوں نے کہا کہ دوبارہ جرائم ہونے سے متعلق مطالعات میں اس کے مؤثر ہونے کا مظاہرہ کرنا مشکل ہے کیونکہ یہ دیکھنے میں سالوں لگ جاتے ہیں کہ آیا اس کا طویل مدتی اثر پڑ رہا ہے۔

اور کوئی بھی ایسے ہائی رسک جنسی مجرم کو کھلا چھوڑنے پر راضی نہیں ہو گا جو دوا نہیں لیتا تاکہ اس کا دوا لینے والے کسی فرد سے موازنہ کیا جا سکے۔

Getty Imagesامریکہ کی چند ریاستوں کے علاوہ کیمیکل کیسٹریشن کی سزا انڈونیشیا، پولینڈ اور روس سمیت دیگر کچھ ممالک میں بھی رائج ہےپاکستان میں کیمیکل کیسٹریشن کی سزا نفاذ کے بعد ختم

پاکستان میں بھی سنہ 2020 میں عمران خان کے دورِ حکومت میں ریپ کے مجرموں کے لیے کیمیکل کیسٹریشن کی سزا کا اطلاق ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے کیا گیا تھا۔

تاہم بعد ازاں کیمیکل کیسٹریشن (نامرد بنانے کا عمل) کی سزا کو ریپ کی سزاؤں کے بارے میں پاکستانی پارلیمان میں ہونے والی قانون سازی کے دوران ایک ترمیم کے ذریعے نکال دیا گیا کیونکہ اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اس سزا کو غیر اسلامی قرار دیا تھا۔

واضح رہے کہ ریپ کیسز کے مجرمان کے لیے کیسٹریشن کی سزا کی تجویز اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے دی تھی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ان کے نزدیک ریپ کے مجرمان کے لیے سرجری یا کیمیائی طریقے سے کیسٹریشن کی سزا سے ایسے جرائم میں کمی لائی جا سکتی ہے اور یہ کہ وہ چاہتے ہیں کہ ایسے مجرمان کو عام پھانسی کی سزا دی جائے لیکن مغربی دنیا ایسی سزا کو تسلیم نہیں کرے گی۔

بی بی سی کو دستیاب پرانے حکومتی بل کے مطابق کیسٹریشن کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی تھی کہ یہ ایک ایسا عمل ہے جس کے تحت کسی بھی شخص کو ایک مخصوص مدت تک جنسی طور پر ناکارہ بنا دے گا۔

بل میں لکھا گیا تھا کہ اس سزا اور اس کی مدت کا تعین عدالت کرے گی جب کہ سزا ہونے کی صورت میں ایک خصوصی میڈیکل بورڈ یہ عمل انجام دے گا۔

اس بل کے مطابق یہ سزا ریپ کے عادی مجرمان یعنی ایسے مجرم جو ایک سے زیادہ مرتبہ سزا یافتہ ہوں کے ساتھ ساتھ خصوصی حالات میں پہلی بار سزا پانے والے مجرم کو بھی دی جا سکتی تھی جس کا تعین عدالت ہی کر سکتی تھی۔

کشمیر: بچوں سے زیادتی کے مجرم کو جنسی صلاحیت سے محروم کرنے کی تجویزجنسی صلاحیت ختم کرنے کی سزا ریپ کے واقعات میں کمی لا سکتی ہے؟پاکستان میں ریپ کا شکار افراد سامنے کیوں نہیں آ پاتے؟کیا جھوٹ بولنے سے سیکس ریپ میں تبدیل ہو جاتا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More