Getty Imagesدلائی لامہ: بدھ مت کے موجودہ روحانی پیشوا رواں ہفتے (6 جولائی) کو 90 برس کے ہو جائیں گے
بدھ مذہب کے روحانی پیشوا دلائی لاما نے تصدیق کی ہے کہ اُن کی وفات کے بعد اُن ہی کی جانب سے مقرر کردہ جانشین اُن کی جگہ لے گا۔
یاد رہے کہ اس اتوار (6 جولائی) کو دلائی لامہ نوے برس کے ہو جائیں گے۔۔ تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ نے مزید کہا کہ صرف ’گدن پھودرنگ ٹرسٹ‘ کو ہی اُن کا جانشنین مقرر کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ اس ٹرسٹ کی بنیاد خود دلائی لامہ نے ہی رکھی تھی۔
دلائی لاما نے یہ اعلان انڈین شہر دھرم شالہ سے کیا جہاں وہ چین سے جلاوطنی کے بعد سے مقیم ہیں۔ دلائی لامہ کی جانب سے جانشینی کے اعلان کا ایک طویل مدت سے انتظار کیا جا رہا تھا۔
تاہم اب چین کی جانب سے اپنی مرضی کا امیدوار مسلط کرنے کی کوشش کے خدشے کے تناظر میں اُن کا یہ اہم بیان سامنے آ گیا ہے (جس میں انھوں نے اپنا جانشین خود مقرر کرنے کا اعلان کیا ہے)۔
تاہم دلائی لامہ کے اس اعلان کے بعد چین نے کہا ہے کہ نئے دلائی لاما کی تقرری چین کے اندر ہی سے ہو گی اور اس کے لیے مرکزی حکومت کی منظوری کی ضرورت ہو گی۔
یاد رہے کہ کمیونسٹ چین نے سنہ 1951 میں تبت پر قبضہ کیا تھا جس کے بعد سے چین میں موجودہ دلائی لاما کو علیحدگی پسند سمجھتا جاتا رہا ہے۔
دلائی لامہ کون ہیں؟Getty Imagesموجودہ دلائی لامہ محض دو برس کے تھے جب اُن کا انتخاب بطور روحانی پیشوا کیا گیا
دلائی لامہ تبت کے روحانی پیشوا ہیں، وہ تبتی بدھ مت کا سب سے مشہور چہرہ اور تبت کے پیٹرن سینٹ کا مظہر ہیں۔ انھیں اولوکیتیشور یا چنریزگ کے نام سے جانا جاتا ہے
ہندوؤں اور جین مذاہب کے ماننے والوں کی طرح بدھ مذہب کے ماننے والوں کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ موت کے بعد ہر انسان دوبارہ جنم لیتا ہے۔
تبت کی روایت میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ روحانی طور پر اعلیٰ درجے تک پہنچنے والے افراد یہ فیصلہ بھی کر سکتے ہیں کہ اُن کا دوبارہ جنم کب اور کہاں ہو گا۔
موجودہ دلائی لاما 6 جولائی 1935 کو شمال مشرقی تبت میں ایک غریب کسان خاندان میں پیدا ہوئے۔ دو سال کی عمر میں انھیں 13ویں دلائی لاما قرار دیا گیا۔
ڈاکٹر تھپٹن جنپا سابق بھکشو ہیں جنھوں نے تبت کے بدھ مت میں اعلیٰ ترین مذہبی ڈگری حاصل کی اور 1985 سے دلائی لاما کے سرکاری مترجم ہیں۔
ڈاکٹر تھپٹن جنپا کا کہنا ہے کہ ’تبت کے رہائشیوں کا عقیدہ ہے کہ دلائی لاما کی پہلی روح ہی بار بار دوبارہ جنم لیتی ہے۔‘ (یعنی روح ایک ہی جو بار بار نئے جسم میں داخل کر دی جاتی ہے۔)
ان کا کہنا ہے کہ اگرچہ روایتی عقیدہ یہ ہے کہ تمام دلائی لاما ایک ہی روح کا تسلسل ہیں تاہم موجودہ دلائی لاما اس کو من و عن تسلیم نہیں کرتے۔
ڈاکٹر جنپا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے دلائی لامہ کو چند مواقع پر یہ کہتے سُنا ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ تمام 14 (دلائی لامہ) ایک ہی شخص ہیں۔ لیکن اس نسب میں موجود ہر فرد کا دلائی لامہ کے نسب سے ایک خاص تعلق ضرور دکھائی دیتا ہے۔‘
اگرچہ بدھ مت کی تاریخ 2,500 برس سے زائد قدیم ہے تاہم دلائی لاما سے متعلق موجودہ عقائد نسبتاً حالیہ دور کی پیداوار ہیں۔
یونیورسٹی آف ایبرڈین کے سکاٹش سینٹر فار ہمالین ریسرچ کے ڈائریکٹر پروفیسر مارٹن اے ملز نے کہا کہ ’اگرچہ پہلے دلائی لامہ کو (بعد میں) 1391 میں پیدا ہونے والے گیڈنڈرپ نامی شخص کے طور پر پہچانا گیا تھا لیکن بدھ مذہب کے رہبر کا بار بار جنم لینے کا خیال اس سے بھی کم از کم تین سو سال پرانا ہے جس کے تحت وہ اپنے پیشرو کی جائیداد اور طلبا کو وراثت میں حاصل کرتا ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’یہ تصور کم از کم 300 سال پہلے کا ہے۔‘
دلائی لامہ کا انتخاب کیسے ہوتا ہے؟Christopher Michelدلائی لامہ کے ساتھ موجود سابق بھکشو ڈاکٹر تھپٹن جنپا
ڈاکٹر جنپا کہتے ہیں کہ ’دلائی لاما کے انتخاب کا عمل بہت سخت، پیچیدہ اور طویل ہوتا ہے۔‘
ان کے مطابق کبھی کبھی اس شناخت میں برسوں بھی لگ سکتے ہیں جس طرح موجودہ 14ویں اوتار کی تلاش میں لگ بھگ چار سال کا عرصہ لگا تھا۔
اعلیٰ رتبے پر فائز بھکشو اُس بچے کی تلاش شروع کرتے ہیں جو پچھلے دلائی لاما کی موت کے وقت کے آس پاس پیدا ہوا ہو اور اس دوران اُن کو مختلف اشارے ملتے ہیں۔
کبھی کسی بھکشو کو خواب میں اس بچے کی شناخت کا اشارہ ملتا ہے تو کبھی پچھلے دلائی لاما کی چتا کی راکھ سے اٹھنے والے دھویں سے بھی اُن کے دوبارہ جنم کی جگہ کا اشارہ مل جاتا ہے۔
جب بچے کی پیدائش کے مقام کو پہچان لیا جاتا ہے تو اس کے بعد اس بچے کے سامنے کئی چیزیں رکھی جاتی ہیں۔ اگر وہ پچھلے دلائی لاما کی اشیا پہچان لیتا ہے تو یہ علامت سمجھی جاتی ہے کہ یہی اوتار کا دوبارہ جنم ہے۔
جب معتبر بھکشو مطمئن ہو جائیں تو بچے کا انتخاب کر کے اسے برسوں تک مذہبی تربیت اور تعلیم دی جاتی ہے۔
آج تک صرف دو دلائی لاما تبت سے باہر پیدا ہوئے ہیں جن میں سے ایک منگولیا میں اور دوسرے شمال مشرقی انڈیا میں۔
چین کا تسلطGetty Imagesتبتی بدھ مت کی دوسری سب سے اہم شخصیت پنچن لامہ جو 1995 میں دلائی لاما کے اعلان کے تین دن بعد غائب ہو گئے تھے
سنہ 1950 میں چین نے تبت پر اپنے دعوے کے حق میں ہزاروں چینی فوجیوں کو یہاں بھیجا۔ سنہ 1959 میں تبت میں چین مخالف بغاوت کی ناکامی کے بعد موجودہ دلائی لاما نے وہاں سے فرار ہو کر انڈیا کا رُخ کیا اور وہاں جلاوطنی کے دوران حکومت قائم کی۔
اگرچہ وہ اس جلاوطن حکومت کی قیادت سے دستبردار ہو چکے ہیں لیکن انھیں بیجنگ کی حکمرانی کے خلاف مزاحمت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
دلائی لاما پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وہ تبت سے باہر دوبارہ جنم لیں گے جو چینی کنٹرول کے تناظر میں ایک عملی قدم سمجھا جاتا ہے۔
چین دلائی لامہ کو ’سیاسی جلاوطن‘ قرار دیتا ہے جو ’مذہب کی آڑ میں چین مخالف علیحدگی پسند سرگرمیوں‘ میں ملوث ہیں۔
سنہ 2007 میں بیجنگ نے ایک حکم نامہ جاری کیا تھا جس کا مقصد اگلے دلائی لاما کے انتخاب پر کنٹرول حاصل کیا جانا تھا۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں طویل عرصے سے چینی مداخلت کے اس عمل پر تشویش ظاہر کرتی آئی ہیں۔ اسی حوالے سے ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ڈائریکٹر سارہ بروکس نے کہا ہے کہ ’چین کو تبت کی مذہبی روایت میں فوری طور پرسیاسی مداخلت بند کرنی چاہیے اور مذہبی جانشینی کو کنٹرول اور دباؤ کا ہتھیار بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔‘
تبت پر دباؤGetty Images لہاسا میں پوٹالا محل چین کے کنٹرول میں ہے جہاں دلائی لامہ کے اقتدار کی روایتی نشست ہوتی ہے
تبت کے عام شہریوں کو غیر ملکی میڈیا سے بات کرنے یا دلائی لاما کی تصویر رکھنے پر قید کی سزا کاٹنی پڑ سکتی ہے۔
انڈیا میں مقیم تبتی شہری کی مدد سے بی بی سی نے تبت میں دو بھکشوؤں اور ایک بدھ پیروکار سے رابطہ کیا جنھوں نے بتایا کہ حکام دلائی لاما کی سالگرہ کے جشن کو روکنے کے اقدامات کر رہے ہیں۔
تبت کے علاقے آمڈو کے ایک شخص نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر بتایا کہ ’ہمارے گاؤں میں دو ایسے اجلاس ہوئے ہیں جن میں دلائی لاما کی توہین کی گئی اور سب پیروکاروں کو سخت نتائج کی دھمکیاں دی گئیں۔‘
چھ سال کی عمر میں لاپتہ ہونے والے ’پنچن لاما‘ کا معمہ جس پر چینی حکومت 30 سال سے خاموش ہےخانقاہ سے نائٹ کلب تک: ہسپانوی بچے کی کہانیجسے ایک بودھ لاما کا دوسرا جنم قرار دیا گیاپچھلے لامہ کی وفات کے وقت پیدا ہونے والا لڑکا، چتا کے دھوئیں اور مقدس جھیل کے اشارے: اگلے دلائی لامہ کی شناخت کیسے ہو گی؟’سی آئی اے سے تربیت یافتہ‘ تبت کے کمانڈو جنھیں انڈیا نے 1971 میں پاکستان کے خلاف استعمال کیا
انھوں نے بتایا کہ دلائی لامہ کی سالگرہ سے قبل اُن کے علاقے میں چینی پولیس اور فوج کے اہلکاروں کی تعیناتی کی گئی ہے۔ ’ہم نے محسوس کیا کہ خانقاہ کے اندر اور آس پاس بڑی تعداد میں فوجی موجود ہیں۔‘
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ چینی سینسرشپ کے باعث نوجوانوں سمیت بعض افراد دلائی لاما سے دوری محسوس کرتے ہیں۔
’بہت سے نوجوانوں نے انھیں کبھی دیکھا نہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان کا نام صرف (چینی) حکومتی پراپیگنڈہ میں ہی وہ سنتے ہیں۔‘
اگرچہ تبت میں زیادہ تر خانقاہیں چینی نگرانی کے زیر اثر ہیں تاہم کچھ لوگ اب بھی کُھلے عام مذہبی لباس پہن کر خانقاہی زندگی اختیار کرتے ہیں۔
’معاشی فائدوں کی قیمت ثقافتی تباہی سے‘
صوبہ سیچوان کے علاقے چینگدو کے 46 سالہ ایک بھکشو تسرنگ (فرضی نام) نے بتایا کہ ’میں اپنے والدین کی خواہش پر بچپن میں ہی بھکشو بن گیا تھا۔‘
سات برس کی عمر میں بھکشو بننے والے تسرنگ نے بتایا کہ نئے ضوابط کے تحت اب 18 برس کی عمر سے پہلے کوئی بھکشو نہیں بن سکتا جس کی وجہ سے خانقاہوں میں نئے بھکشوؤں کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’خانقاہ میں بہت ہی کم نئے بچے آ رہے ہیں۔ اس سال صرف تین نئے بھکشو آئے ہیں جبکہ دوسرے گاؤں اور قصبوں سے بھی پہلے کی نسبت بہت کم بچے تعلیم اور عبادت کے لیے آ رہے ہیں۔‘
تسرنگ نے کہا کہ اگرچہ چین کی حکومت نے معاشی فائدے تو دیے ہیں لیکن اس کی قیمت ثقافتی تباہی سے چکانی پڑی ہے۔
’جب میں بچہ تھا تو دو وقت کی روٹی مشکل تھی۔ بعض اوقات خراب ہوا کھانا بھی کھانا پڑتا تھا۔ تاہم بعد میں زندگی آسان ہو گئی، آمدورفت کا نظام بہتر ہوا اور تعلیم عام ہوئی۔‘
تاہم وہ مزید کہتے ہیں کہ اکثر لگتا ہے کہ تبت میں بولے جانے والی زبان کی حالت بھی بگڑتی جا رہی ہے۔
آمڈو نگابا سے تعلق رکھنے والے ایک اور بھکشو نے بتایا کہ ’میں یہاں بہت سی تبدیلیاں دیکھ رہا ہوں لیکن انھیں ترقی کہنا مشکل ہے۔ میری سمجھ کے مطابق تبتی زبان اور رسم الخط صرف بدھ مت کی مشقوں کی وجہ سے باقی ہیں۔‘
اگلے دلائی لامہGetty Imagesدلائی لامہ معروف عوامی شخصیت ہیں اور انھیں امن کے نوبل انعام سے نوازا جا چکا ہے
14ویں دلائی لاما نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ان کے 600 سال پرانے تاریخی ورثے (Institution) کو محفوظ رکھنا ضروری ہے۔
چینی مداخلت سے بچنے کے لیے انھوں نے اپنے پیروکاروں کو پہلے ہی واضح کر دیا ہے کہ چین کے مقرر کیے گئے جانشین کو تسلیم نہ کیا جائے۔
ڈاکٹر جنپا کے مطابق ’لوگ اپنی جان نہیں گنوانا چاہتے اس لیے بظاہر وہ خاموش تو رہیں گے تاہم وہ چینی حکومت کے مقرر کیے دلائی لاما کو تسلیم نہیں کریں گے۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’چین جسمانی طور پر لوگوں کو کنٹرول کر سکتا ہے لیکن تبتیوں کے دل و دماغ پر قابض نہیں ہو سکتا۔‘
بیجنگ مسلسل اس تاثر کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ اس نے ’غلاموں اور خادموں کو تھیو کریسی ( خدا کی حاکمیت کے تصور پر مبنی حکومت) سے آزاد کروا کے جدت کی طرف لے آیا ہے۔ تاہم دلائی لاما کے پیروکار یہ یقینی بنانے کی کوشش کرتے رہیں گے کہ تبتی بدھ مت کی قیادت چینی کنٹرول سے آزاد رہے۔‘
چھ سال کی عمر میں لاپتہ ہونے والے ’پنچن لاما‘ کا معمہ جس پر چینی حکومت 30 سال سے خاموش ہےپچھلے لامہ کی وفات کے وقت پیدا ہونے والا لڑکا، چتا کے دھوئیں اور مقدس جھیل کے اشارے: اگلے دلائی لامہ کی شناخت کیسے ہو گی؟خانقاہ سے نائٹ کلب تک: ہسپانوی بچے کی کہانیجسے ایک بودھ لاما کا دوسرا جنم قرار دیا گیا’سی آئی اے سے تربیت یافتہ‘ تبت کے کمانڈو جنھیں انڈیا نے 1971 میں پاکستان کے خلاف استعمال کیاقدیم تہذیبوں میں ’جہنم‘ کا تصور اور دنیا کے مذاہب میں عالم برزخ کو کیسے بیان کیا گیامشرقی ایشیا میں لوگ اپنا ابتدائی مذہب چھوڑ کر دوسرے مذاہب کیوں اپنا رہے ہیں؟