’یہ کسی کتے سے بھی زیادہ فرمانبردار ہے۔۔۔ کاش ایسے ہی اور بے وقوف آ جائیں۔‘
یہ بات ایک نئے ویڈیو گیم میں ایک خاتون شیخی بگھارتے ہوئے کہتی ہیں، جس نے چین میں صنفی تعصب پر ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
لائیو ایکشن گیم ’ریونج آن گولڈ ڈِگرز‘ میں مرد کھلاڑی ایسے کردار کردار ادا کرتے ہیں جو چالاک عورتوں کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور وہ ان کے پیسے کے پیچھے ہوتی ہیں اور مرد کا ردِعمل کہانی کا رخ طے کرتا ہے۔
یہ گیم جون میں ریلیز ہوتے ہی چند گھنٹوں میں گیمنگ پلیٹ فارم سٹیم کی سیلز لسٹ میں سرفہرست آ گئی لیکن اس کے فوراً بعد اس سے متعلق تنازع بھی کھڑا ہو گیا۔ کچھ لوگوں نے اسے خواتین کے خلاف توہین آمیز دقیانوسی تصورات کو مضبوط کرنے والا قرار دیا جبکہ اس کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ گیم لوگوں کو جذباتی فراڈ سے خبردار کرتی ہے۔
تنقید اس قدر شدید تھی کہ اگلے ہی دن گیم کے تخلیق کاروں نے چپ چاپ اس کا نام بدل کر ’ایموشنل اینٹی فراڈ سٹیمولیٹر‘ یعنی فراڈ کے خلاف جذباتی محرک رکھ دیا۔
مگر یہ تبدیلی بھی نقصان کی تلافی نہ کر سکی۔ گیم کے مرکزی ہدایتکار اور ہانگ کانگ کے فلم ساز مارک ہو کو اب کئی چینی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بین کر دیا گیا ہے۔
گیم بنانے والوں کا اصرار ہے کہ ان کا مقصد خواتین کو نشانہ بنانا نہیں تھا، بلکہ وہ ’جدید رشتوں میں جذباتی حدود اور ابہام پر کھلی گفتگو کو فروغ دینا چاہتے تھے۔‘
شو یی کن ایک فنکار ہیں، انھوں نے یہ گیم کھیلی ہے اور اسے توہین آمیز پایا۔ وہ گیم تیار کرنے والوں کی مندرجہ بالا دلیل کو رد کرتی ہیں۔ وہ اس گیم کو ’ایک عام کاروباری ماڈل‘ کہتی ہیں جو ’ایسا مواد تخلیق کر کے منافع کماتا ہے جو مباحثے اور تفرقے کو جنم دے۔‘
ایسی تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ ’گولڈ ڈگر‘ جیسا لفظ خود صنفی تعصب کا عکاس ہے۔
مز شو کہتی ہیں کہ ’یہ لیبل اکثر عورتوں پر ہی لگایا جاتا ہے۔۔۔ جنسی امتیاز پر مبنی مذاق اور توہین آمیز الفاظ ہماری روزمرہ زبان کا حصہ بن چکے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’گر آپ کا بوائے فرینڈ امیر ہے، تو آپ کو گولڈ ڈگر کہا جاتا ہے۔ اگر آپ خود کو اچھا دکھانے کی کوشش کرتی ہیں، تب بھی آپ کو گولڈ ڈگر کہا جاتا ہے۔۔۔ کبھی تو صرف کسی کے ڈرنکس کی پیشکش قبول کرنے پر بھی آپ کو یہ نام دے دیا جاتا ہے۔‘
تاہم کچھ کھلاڑیوں کو اس گیم کی تنقید مبالغہ آرائی لگتی ہے۔
بی بی سی سے بات کرنے کے لیے زوانگ مینگشینگ کا فرضی نام استعمال کرنے والے 31 سالہ شخص نے کہا کہ ’یہ گیم یہ نہیں کہہ رہی ہے کہ ساری عورتیں گولڈ ڈگر ہیں۔۔۔ مجھے یہ نہیں لگا کہ یہ کسی ایک صنف کو نشانہ بنا رہی ہے۔‘
ان کے مطابق ’عورتیں اور مرد دونوں ہی گولڈ ڈگر ہو سکتے ہیں۔‘
لیکن اس کے باوجود گیم میں جتنی بھی ’گولڈ ڈگر‘ کردار ہیں، وہ سب عورتیں ہیں۔ چاہے وہ والی آن لائن انفلوئنسر ہوں یا کوئی حوصلہ مند کاروباری خاتون، سب کو یہ دکھایا گیا ہے کہ وہ مردوں سے پیسہ اور تحفے وصول کرنے کے لیے سازشیں کر رہی ہیں۔
گیم میں شامل ایک عورت کہتی ہیں کہ ’اگر تم جاننا چاہتی ہو کہ مرد تم سے محبت کرتا ہے یا نہیں؟ تو یہ دیکھو کہ وہ تم پر کتنا خرچ کرتا ہے۔‘
ٹیکن پر پاکستانی کھلاڑیوں کا راج جس پر گیم بنانے والے بھی حیران ہیں: ’نہیں معلوم پاکستانی کھلاڑی اس مقام تک کیسے پہنچے‘آن لائن گیمنگ میں 25 لاکھ روپے ہارنے کے بعد نوجوان کا اپنے ہی والد کو قتل کرنے کا جرم بے نقابروبوٹس سے بھری فیکٹریاں، غیرمعمولی سرمایہ کاری اور ’محنتی انجینیئرز‘: چین مصنوعی ذہانت کی ریس جیتنے کے لیے کیا کر رہا ہے؟یوٹیوب پر ویوز اور آمدن سے متعلق وہ راز جو ایک کمپیوٹر نے اُگل دیے
اس گیم نے مقامی میڈیا کو بھی منقسم کر دیا ہے۔ وسطی صوبہ ہوبئی سے شائع ہونے والے ایک اخبار نے لکھا کہ یہ گیم ’پوری ایک صنف کو دھوکے باز کہہ کر بدنام کر رہی ہے۔‘
لیکن بیجنگ یوتھ ڈیلی نے اس کی ’تخلیقی صلاحیت‘ کو سراہا اور نیشنل اینٹی فراڈ سینٹر کا حوالہ دیتے ہوئے جذباتی فراڈ کے مالی اثرات کا ذکر کیا۔ سینٹر کے کے مطابق سنہ 2023 میں تقریباً دو ارب یوآن (279 ملین ڈالر) کا نقصان ہوا۔
اپنے اداریے میں اس نے لکھا کہ ’ہمارے لیے جذباتی دھوکے کو فوراً روکنا ضروری ہے۔‘
تنازعات کے باوجود اس گیم کی فروخت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ اب چین کے پی سی پلیٹ فارم پر دس سرفہرست گیمز میں شامل ہے، یہاں تک کہ چین کی تاریخ کی سب سے کامیاب کہلائے جانے والی گیم ’بلیک متھ: ووکونگ‘ کو بھی یہ پیچھے چھوڑتی نظر آ رہی ہے۔
ایک 28 سالہ شخص نے کہا: ’مجھے سمجھ نہیں آتی لوگوں کو اس پر غصہ کیوں ہے۔ اگر آپ خود گولڈ ڈگر نہیں ہیں، تو اس گیم سے پریشان کیوں ہیں؟‘
انھوں نے مزید کہا: ’میرے خیال میں گیم بنانے والے بہت دلیر ہیں۔ یہ مسائل (جیسے جذباتی فراڈ) چین میں زیادہ زیرِ بحث نہیں آتے۔‘
Getty Imagesناقدین کا کہنا ہے کہ اس کھیل کی بنیاد صنفی تعصب پر ہے کیونکہ کھیل میں شامل تمام گولڈ ڈگر خواتین ہیں
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ گیم ایک حقیقی واقعے سے متاثر ہے۔ ایک چینی مرد، جو انٹرنیٹ پر فیٹ کیٹ کے نام سے جانے جاتے تھے انھوں نے گذشتہ سال بریک اپ کے بعد خودکشی کر لی۔
ان کی موت نے انٹرنیٹ پر ایک شدید بحث چھیڑ دی، جہاں ’گولڈ ڈگر‘ کی اصطلاح کو کھلے عام استعمال کیا گيا اور کچھ لوگوں نے ان کی سابقہ گرل فرینڈ پر الزام لگایا کہ انھوں نے جذباتی طور پر ان کا استحصال کیا جس کی وجہ سے انھوں نے اپنی جان لے لی۔ پولیس نے ان الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔
بی بی سی سے بات کرنے والی کچھ خواتین کو تشویش ہے کہ یہ ویڈیو گیم چین میں ان صنفی رویوں کو مزید پختہ کرتی ہے جن کے مطابق عورت کی جگہ صرف گھر میں ہے، جبکہ مرد کو کمانے والا سمجھا جاتا ہے۔
اسی لیے عورت کے لیے اچھی شادی کرنا، اکثر پیشہ ورانہ کامیابی سے زیادہ اہم سمجھا جاتی ہے۔
مردوں کی بالادستی والی چینی کمیونسٹ پارٹی بھی اسی سوچ کی تائید کرتی ہے۔ صدر شی جن پنگ بار بار عورتوں کو ’اچھی بیوی اور ماں‘ کا کردار اپنانے کی تلقین کر چکے ہیں۔
حکومت ان سرگرم کارکنوں کے خلاف بھی سخت کارروائی کر رہی ہے جو صنفی برابری کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ایک خاتون نے بتایا: ’مجھے لگتا ہے کہ ایسی گیم مردوں اور عورتوں کے درمیان دشمنی کو ہوا دیتی ہے۔‘
انھوں نے مزید کہا: ’یہ عورتوں کو ایک بار پھر کمتر صنف کے طور پر پیش کرتی ہے جنھیں اپنی روزی روٹی کے لیے مردوں کو خوش کرنا ہے۔‘
مینوسفیئر: مردانگی سے متعلق شدت پسند نظریات کی وہ دنیا جہاں بچوں کے ذہنوں میں خواتین سے ’نفرت کا زہر گھولا جا رہا ہے‘کیا ’بیوی کا زیادہ کمانا شوہر کو احساسِ کمتری میں مبتلا کرتا ہے؟کھیلوں کے وہ مقابلے جہاں خواتین مردوں کو پیچھے چھوڑ دیتی ہیںٹیکن پر پاکستانی کھلاڑیوں کا راج جس پر گیم بنانے والے بھی حیران ہیں: ’نہیں معلوم پاکستانی کھلاڑی اس مقام تک کیسے پہنچے‘آن لائن گیمنگ میں 25 لاکھ روپے ہارنے کے بعد نوجوان کا اپنے ہی والد کو قتل کرنے کا جرم بے نقاب’کبڈی نہ ہوتی تو میں شوہر کے گھر برتن صاف کر رہی ہوتی‘: انڈیا میں ایک کھیل نے لوگوں کی سوچ کیسے تبدیل کی؟