Getty Imagesگذشتہ ہفتے اپوزیشن جماعت شیو سینا کے سربراہ اُدھاو ٹھاکرے اور ایم این ایس کے سربراہ راج ٹھاکرے مہاراشٹرا میں سکولوں میں ہندی پڑھانے کے خلاف ایک مشترکہ ریلی نکالی تھی
گذشتہ کئی ہفتوں سے انڈیا کی سب سے امیر ریاست مہاراشٹرا میں زبان اور نسلی شناخت پر ایک تنازع چل رہا ہے۔
یہ تنازع رواں برس اپریل میں شروع ہوا تھا جب مہاراشٹرا حکومت نے سرکاری سکولوں میں انگریزی اور مراٹھی کے علاوہ ہندی کو بطور تیسری زبان پڑھانے کو لازمی قرار دیا تھا۔
مہاراشٹرا کی حکومت کا کہنا ہے کہ ان کا یہ فیصلہ مرکز کی پالیسی سے مطابقت رکھتا ہے جس کے مطابق سکولوں میں بچوں کو تین زبانیں پڑھانا لازمی ہے۔
انڈیا میں نیشنل ایجوکیشن پالیسی (این ای پی) کو سنہ 1968 میں متعارف کروایا گیا تھا جس کا مقصد ملک میں تعلیم کو ریگولیٹ کرنا تھا اور حکومت اس میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں لاتی رہتی ہے۔
بی بی سی اردو کے فیچر اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں۔
اس کی تازہ ترین شکل انڈین وزیرِ اعظم نریندر مودی نے پانچ برس قبل متعارف کروائی تھی اور یہ پالیسی اس سے پہلے بھی تنازعات کی زد میں آتی رہی ہے۔
مہارشٹرا کی حکومت کے سکولوں میں ہندی پڑھانے کے فیصلے پر سول سوسائٹی گروپس، زبان کے فروغ کے لیے کام کرنے والے کارکنان اور حزبِ اختلاف کے رہنما شدید تنقید کر رہے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ ریاستی حکومت انڈیا کی شمالی اور وسطی ریاستوں میں بولی جانے والی زبان کو مہاراشٹرا کے لوگوں پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
انڈیا میں زبان ایک حساس نوعیت کا معاملہ ہے کیونکہ وہاں بہت ساری ریاستیں وہاں بولی جانے والی زبانوں کی بنیاد پر ہی قائم کی گئی ہیں۔ مقامی زبان کو ان علاقوں میں اکثر اپنی شناخت اور فخر سمجھا جاتا ہے اور ایسے میں کوئی بھی تبدیلی وہاں ایک خطرے کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔
مثال کے طور پر گذشتہ برس انڈیا کی سلیکون ویلی کہلانے والے شہر بنگلور میں کنڑ زبان کے فروغ کے لیے کام کرنے والے کارکنان نے احتجاجی مظاہرے کیے تھے اور مطالبہ کیا تھا کہ شہر میں لگائے جانے والے بِل بورڈ صرف انگریزی میں نہیں بلکہ مقامی زبان میں بھی ہونے چاہییں۔
لیکن لوگوں میں بےچینی اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب معاملہ ہندی کا آتا ہے۔ گذشتہ کئی برسوں سے انڈیا میں مرکزی حکومتیں ہندی کو فروغ دینے کی کوششیں کر رہی ہے جس سے ہندی بولنے والی ریاستوں میں یہ ڈر پیدا ہوا ہے کہ ان کا مقامی کلچر مانند پڑ جائے گا۔
ان تحفظات کو ہوا اس وجہ سے بھی ملی کہ پسماندہ ریاستیں جہاں ہندی بولی جاتی ہے وہاں سے بڑی تعداد میں لوگ دیگر ریاستوں میں ہجرت کر رہے ہیں۔ ہجرت کرنے والوں میں بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے جو ملازمتوں کی تلاش میں دیگر ریاستوں میں منتقل ہو رہے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کار ابھے دیشپانڈے کہتے ہیں کہ لوگوں میں یہ پریشانی اس وقت بڑھی جب سنہ 2014 میں قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت آئی۔
بی جے پی ان ریاستوں میں زیادہ مضبوط ہے جہاں اکثریت ہندی زبان بولتی ہے اور اس کے بڑے رہنماؤں کا تعلق بھی ان ہی ریاستوں سے ہے۔ ان کی جانب سے اکثر ہندی کو ترجیح دینے سے متعلق بیانات پر پہلے بھی تنازعات کھڑے ہوتے رہے ہیں۔
مہاراشٹرا میں جب کشیدگی بڑھی تو بی جے پی کی اتحادی حکومت نے اپنے فیصلے کو معطل کر کے تیسری زبان پڑھانے کی پالیسی پر نظرِثانی کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دے دی، تاہم اس کے باوجود بھی یہ تنازع ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
یہ تنازع ایک ایسے وقت میں کھڑا ہوا ہے جب ممبئی سمیت پوری ریاست میں مقامی حکومتوں کے انتخابات ہونے ہیں۔ اس معاملے کو لے کر حکومتی جماعتوں اور اپوزیشن پارٹیوں میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے اور فریقین ایک دوسرے پر سیاسی کھیل کھیلنے کے الزامات لگا رہے ہیں۔
25 سالہ ٹینس کھلاڑی کا قتل، والد گرفتار: ’رادھیکا کچن میں گِری ہوئی تھی اور پستول ڈرائنگ روم میں پڑی تھی‘ٹوائلٹ میں خون کے دھبے اور طالبات کو برہنہ کر کے جانچ، انڈیا میں سکول پرنسپل سمیت دو افراد گرفتار’اب تین محاذوں سے خطرہ ہے‘: چین، پاکستان اور بنگلہ دیش کا ابھرتا ہوا اتحاد اور جنرل انیل چوہان کی تشویشٹائلٹ پیپر کا ’بم‘: انڈین ایئرلائنز کا طیارہ جسے پاکستان نے چھڑوایا اور مسافروں نے اغوا کاروں سے آٹوگراف لیے
ایسی اطلاعات بھی موجود ہیں کہ مہاراشٹرا میں مراٹھی نہ بولنے والے افراد پر تشدد بھی کیا گیا ہے۔
رواں برس اپریل میں ضلعی تھانے میں ’ایکسکیوز مِی‘ کہنے پر دو خواتین پر مبینہ طور پر تشدد بھی کیا گیا تھا اور تشدد کرنے والے شخص نے انھیں مراٹھی زبان بولنے کے لیے مجبور کیا تھا۔
اسی مہینے ممبئی میں مہاراشٹرا نونرمان سینا (ایم این ایس) کے کارکنان نے ایک سکیورٹی گارڈ کو تشدد کو نشانہ بنایا تھا کیونکہ وہ مراٹھی نہیں بول سکتا تھا۔
مئی میں ایک جوڑے نے ایک ڈیلیوری بوائے کو صرف اس لیے پیسے نہیں دیے تھے کیونکہ اس نے مراٹھی بولنے سے انکار کر دیا تھا۔ گذشتہ مہینے بھِی ایک پریشان کُن ویڈیو منظرِعام پر آئی تھی جس میں ایم این ایس کے کارکنان ایک دُکاندار کو تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے کیونکہ وہ مراٹھی نہیں بول سکتا تھا۔
یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر بھی وائرل ہوئی تھی اور اس پر شدید تنقید بھی ہوئی تھی۔
زبان کے معاملے پر جہاں مہاراشٹرا میں سماجی تقسیم بڑھی ہے وہیں اس مسئلے پر دو دہائیوں قبل علیحدہ ہونے والے دو حریف بھی ساتھ آ کھڑے ہوئے ہیں۔
گذشتہ ہفتے اپوزیشن جماعت شیو سینا کے سربراہ اُدھاو ٹھاکرے اور ایم این ایس کے سربراہ راج ٹھاکرے نے مہاراشٹرا میں سکولوں میں ہندی پڑھانے کے خلاف ایک مشترکہ ریلی نکالی تھی۔
اُدھاو شیو سینا کے بانی بال ٹھاکرے کے بیٹے جبکہ راج ان کے بھتیجے ہیں۔ قوم پرست جماعت شیو سینا نے 1960 کی دھائی میں اپنی مقامی سیاست کے ذریعے بہت مقبولیت حاصل کی تھی۔
دونوں کزنز کے درمیان صلح کتنی دور جائے گی یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ ’مراٹھی فخر کی حفاظت‘ کرنے کے لیے دونوں کزنز کے اختلافات کو بھلا دینے کی وجہ سے دونوں پارٹیوں کو مقامی حکومت کے انتخابات میں فائدہ ہو سکتا ہے۔
پراشانت ڈکشٹ ایک سابق صحافی ہیں جو کہ گذشتہ دو دہائیوں سے مہاراشٹرا کی سیاست کو کور کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مراٹھی زبان اور کلچر کا مسئلہ لوگوں کے دلوں کے بہت قریب ہے۔‘
’یہ ایک جذباتی معاملہ ہے، خاص طور پر ممبئی کے لوگوں کے لیے اور 1960 کی دہائی سے یہ سب ایسے ہی چلا آ رہا ہے۔‘
1960 اور 1970 کی دہائیوں میں شیو سینا نے بال ٹھاکرے کی قیادت میں جنوبی ریاستوں سے ممبئی منتقل ہونے والے انڈین شہریوں کے خلاف ایک انتہائی جارحانہ مہم چلائی تھی۔ ان شہریوں پر الزام عائد کیا جاتا تھا کہ وہ مقامی باشندوں کی ملازمتوں کا حق مار رہے ہیں۔
اس کے بعد کئی دہائیوں تک ملازمتوں کی تلاش میں دیگر ریاستوں سے مہاراشٹرا آنے والے لوگوں کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ شیو سینا کا الزام تھا کہ اُتر پردیش اور بہار سے آنے والے لوگ مہاراشٹرا کے عوام کو ملازمتوں سے محروم کر رہے ہیں۔
یہ کشیدگی کئی دہائیوں تک جاری رہی ہے۔ انڈیا میں کی گئی آخری مردم شماری کے اعداد و شمار دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ سنہ 2001 اور 2011 کے درمیان ممبئی میں ہندی بولنے والی آبادی میں 40 فیصد کا اضافہ ہوا تھا۔
مراٹھی زبان کی بنیاد پر ہونے والی احتجاجی سیاست سے ماضی میں ووٹروں نے اتفاق کیا تھا اور کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ اس سے اب بھی مقامی حکومتوں کے انتخابات میں اُدھاو ٹھاکرے اور راج ٹھاکرے کو فائدہ پہنچے گا۔
تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو سیاست کے اس طریقے کی مخالفت کرتے ہیں۔
اخبار انڈین ایکسپریس میں ’ممبئی کے چہرے پر طمانچہ‘ کے عنوان سے ایک اداریہ چھاپا گیا ہے جس میں زبانی شناخت پر ہونے والی سیاست کو ’انتہائی پریشان کُن‘ قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اس سے تشدد میں اضافہ ہوگا۔
اس اداریے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسی سیاست کی ’انڈیا کی سب سے بڑی انڈسٹریل سٹیٹ میں کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔‘
پرشانت ڈکشٹ اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ زبان کی بنیاد پر جارحانہ سیاست کے لیے حاصل کی گئی حمایت زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گی۔
’لوگ چاہتے ہیں کہ سیاسی رہنما اپنے وعدے پورے کریں، ترقی پر توجہ مرکوز رکھیں، ملازمتیں پیدا کریں، پالیسیوں کو بہتر بنائیں تاکہ ہر کسی کی زندگی بہتر ہو سکے۔‘
جب واسکو دے گاما نے کیرالہ میں مکّہ جانے والے خواتین اور بچوں سے بھرے بحری جہاز کو نذر آتش کیاسراج الدولہ کے قتل کا معمہ اور ’نمک حرام ڈیوڑھی‘: 250 سال سے ’غداری کا طعنہ‘ سننے والے میر جعفر کے ورثا کی کہانیسیف علی خان کی 15 ہزار کروڑ کی جائیداد اور ’اینیمی پراپرٹی ایکٹ‘ کا تنازع: عدالت کا ایک سال کے اندر فیصلے کا حکمہماچل پردیش میں سیلاب کے بعد بی جے پی رہنما کی کنگنا رناوت پر تنقید: ’کیا انھیں اپنے ووٹروں کی فکر نہیں؟‘دلائی لاما کی 90ویں سالگرہ: بدھ مت کے روحانی پیشوا جو چین کے خلاف خود اپنے جانشین کا اعلان کرنا چاہتے ہیں