جعلی سموں کا کاروبار: کیا بائیومیٹرک تصدیق کا نظام ناکام ہو چکا ہے؟

اردو نیوز  |  Jul 17, 2025

راولپنڈی کی رہائشی سُندس جبین مرزا ایک ٹیلی کام کمپنی کی فرنچائز پر نئی سم حاصل کرنے گئیں تو انہیں یہ جان کر شدید حیرت ہوئی کہ اُن کے قومی شناختی کارڈ پر پہلے ہی پانچ موبائل سمیں رجسٹرڈ ہیں اور وہ مزید کوئی سم حاصل نہیں کر سکتیں۔دلچسپ اور تشویش ناک امر یہ تھا کہ سُندس مرزا کو ان میں سے کسی سم کے بارے میں سرے سے کوئی علم ہی نہیں تھا۔

انہوں نے جب ٹیلی نار پاکستان سے رجسٹریشن کی تفصیلات حاصل کرنے کی کوشش کی تو ابتدائی طور پر کمپنی کی جانب سے تعاون میں ہچکچاہٹ دکھائی گئی۔بعد ازاں حاصل شدہ معلومات سے یہ انکشاف ہوا کہ ایک ہی دن میں محض 7 منٹ کے وقفے سے اُن کے نام پر دو سمیں رجسٹر ہوئی تھیں۔سُندس مرزا کے قومی شناختی کارڈ پر رجسٹرڈ پانچ میں سے تین سمیں ٹیلی نار کمپنی کی تھیں۔دستیاب ریکارڈ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اِن میں سے پہلی سم 26 جون 2023 کو شام 6 بج کر 24 منٹ پر جاری کی گئی، جبکہ دوسری سم اسی دن شام 6 بج کر 31 منٹ پر نکلوائی گئی۔صرف سات منٹ کے وقفے سے جاری ہونے والی یہ دونوں سمیں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے اس اصول کی واضح خلاف ورزی ہیں، جس کے تحت ایک ہی شناختی کارڈ پر دوسری نئی سم کے اجرا کے لیے کم سے کم سات دن کا وقفہ ضروری ہے۔سُندس مرزا کا کہنا ہے کہ وہ ان تمام سموں کے حوالے سے لاعلم ہیں اور اس حوالے سے نہ صرف قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی گئی ہے بلکہ ممکنہ طور پر جعلی بائیومیٹرک تصدیق کی گئی ہے۔اسی طرح کی متعدد شکایات اور دھوکہ دہی کے واقعات کی روک تھام کے لیے پی ٹی اے، نادرا اور نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی نے حالیہ مہینوں کے دوران مختلف کارروائیاں کی ہیں۔گذشتہ دنوں ملتان، کوٹ مومن (سرگودھا) اور حاصل پور میں ایسی ہی کارروائیاں کی گئی ہیں۔

جعلی سموں کی روک تھام کے لیے پی ٹی اے اور نادرا نے مختلف کارروائیاں کی ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)پی ٹی اے کے مطابق ملتان میں چھاپے کے دوران ایک غیر قانونی سیٹ اَپ سے مختلف موبائل کمپنیوں کی فعال سمیں، بائیومیٹرک ڈیوائسز اور دیگر تکنیکی آلات برآمد کیے گئے جبکہ ملزم موقعے سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ان سموں کے فورینزک تجزیے سے کوٹ مومن میں واقع زونگ فرنچائز کا سُراغ ملا، جس کے بعد فرنچائز کے مالک اور اس کے دو ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا۔تفتیش کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ حاصل پور میں ایک شخص جعلی فنگر پرنٹس کے ذریعے غیر قانونی سمیں جاری کر رہا تھا اور فعال سمیں جمع کر کے فروخت کرتا تھا۔مزید تفتیش کے بعد مرکزی ملزم کو گرفتار کر لیا گیا، جو ملتان، وہاڑی اور حاصل پور میں یو فون فرنچائزز کا مالک اور لاہور میں جاز فرنچائز چلا چکا ہے۔پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ حالیہ کارروائی کے دوران مجموعی طور پر 15 ہزار 996 جعلی سمیں برآمد کی گئیں، جن میں سے 12 ہزار 636 یو فون، 1370 جاز، 1100 زونگ جبکہ ٹیلی نار کی 890 سمیں شامل تھیں۔علاوہ ازیں تفتیشی ٹیم نے زونگ کی 18 بائیومیٹرک تصدیقی ڈیوائسز، ایک 128 پورٹ گیٹ وے، چھ 64 پورٹ گیٹ ویز اور چار 32 پورٹ گیٹ ویز بھی قبضے میں لیے ہیں۔

ماہرین کے مطابق ’بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام خواتین کے جعلی فنگر پرنٹس حاصل کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے‘ (فائل فوٹو: اے سیف پی)پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ اس غیر قانونی نیٹ ورک سے وابستہ تمام عناصر کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔ادارے نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ کسی بھی مشتبہ سم رجسٹریشن یا بائیومیٹرک فراڈ کی فوری اطلاع ہیلپ لائن پر دیں یا اپنی شکایات کا آن لائن اندراج کروائیں۔پی ٹی اے کی جانب سے غیر قانونی سموں کے خلاف کارروائیاں تو جاری ہیں، تاہم ایسی شکایات عام ہو چکی ہیں کہ شہریوں کے قومی شناختی کارڈز پر جعلی فنگر پرنٹس کے ذریعے سمیں جاری کی جا رہی ہیں۔راولپنڈی کی رہائشی سُندس جبین مرزا کے مطابق ان کے نام پر بغیر اجازت موبائل سمیں رجسٹرڈ کی گئیں، جنہیں بند کروانے کے لیے انہیں طویل جدوجہد کرنا پڑی۔انہوں نے بتایا کہ متعلقہ فرنچائزز نے تعاون سے گریز کیا اور سرکاری ادارے ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈال کر ٹال مٹول کرتے رہے۔ کئی دنوں کے بعد ان کی شکایت پر غیر قانونی طور پر جاری کی گئی سموں کو بند کیا گیا۔اس واقعے نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ جعلی فنگر پرنٹس حاصل کیسے کیے جاتے ہیں اور جعلی سمیں جاری کرنے کا طریقۂ کار کیا ہے؟اردو نیوز نے اس حوالے سے سائبر سکیورٹی کے ماہر اور مختلف حکومتی اداروں کے ساتھ کام کرنے والے محمد اسد الرحمان سے رابطہ کیا۔

ایک ہی شناختی کارڈ پر دوسری نئی سم کے اجرا کے لیے کم سے کم سات دن کا وقفہ ضروری ہے (فائل فوٹو: پِکسابے)انہوں نے بتایا کہ ’جعلی سموں کا اجرا کوئی نیا مسئلہ نہیں، بلکہ گذشتہ کئی برسوں سے ایسے کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں، تاہم اداروں کی جامع حکمت عملی اور واضح ہدایات نہ ہونے کی وجہ سے مؤثر روک تھام ممکن نہیں ہو سکی۔‘’جعلی فنگر پرنٹس حاصل کرنے کے کئی ذرائع ہیں۔ ایک عام طریقہ یہ ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام یا دیگر امدادی سکیموں کے تحت خاص طور پر خواتین کے فنگر پرنٹس کو مختلف حیلوں سے حاصل کر کے اُن کا غلط استعمال کیا جاتا ہے۔‘انہوں نے ایک اور پہلو کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا کہ ’مختلف شہروں میں سڑک کنارے یا مارکیٹوں میں سم فروخت کرنے والے نمائندے بھی اس عمل میں ملوث ہوتے ہیں۔‘’یہ نمائندے بائیومیٹرک تصدیق کے دوران صارفین کے فنگر پرنٹس کو محفوظ کر لیتے ہیں اور بعد میں اُن کے نام پر سمیں جاری کی جاتی ہیں۔‘اسد الرحمان کے مطابق یہ نمائندے بعض اوقات دھوکہ یہ غلط بیانی کرتے ہیں کہ ’آپ کی بائیومیٹرک تصدیق نہیں ہو رہی‘ جبکہ حقیقت میں وہ فنگر پرنٹس محفوظ کر چکے ہوتے ہیں۔

پی ٹی اے کا کہنا ہے کہ ’کسی بھی مشتبہ سم رجسٹریشن یا بائیومیٹرک فراڈ کی ہیلپ لائن پر فوری اطلاع دیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)’اب تو کئی جعلی فرنچائزز بھی کھل چکی ہیں جو بظاہر موبائل کمپنیز کی نمائندگی کرتی ہیں لیکن ان کا اصل مقصد جعلی سموں کا دھندہ ہوتا ہے۔‘اسد الرحمان نے حالیہ خطرناک رجحان کی نشان دہی کرتے ہوئے کہا کہ ’آج کل ’سیلیکون تھمب‘ کا استعمال عام ہو رہا ہے، جو مصنوعی فنگر پرنٹس ہوتے ہیں اور بائیومیٹرک تصدیق کے سسٹم کو دھوکہ دینے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’یہ طریقہ صرف سموں کے غیر قانونی اجرا میں ہی نہیں، بلکہ بینک اکاؤنٹس کھلوانے اور مالیاتی فراڈ جیسے سنگین جرائم میں بھی استعمال ہو رہا ہے۔‘سائبر سکیورٹی ماہرین نے جعلی سموں کی روک تھام کے لیے واضح پالیسی مرتب کرنے اور مؤثر عملی اقدامات کرنے پر زور دیا ہے۔

 

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More