آڈیٹر جنرل نے خیبر پختونخوا میں مالی سال 2023-24 کے دوران 236 ارب 10 کروڑ 67 لاکھ 18 ہزار روپے کی بے قاعدگیوں نشاندہی کی ہے۔
آڈیٹر جنرل پاکستان کی جانب سے صوبائی حکومت کے اخراجات کی مالی سال 2023-24 کی آڈٹ رپورٹ تیار کرلی گئی ہے۔ جس میں محکموں کی جانب سے مالی بے ضابطگیوں، غیرقانونی اخراجات اور بدعنوانی کے متعدد واقعات سامنے آئے ہیں جن کا ذکر حالیہ آڈٹ رپورٹ میں کیا گیا ہے۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ اعتراضات تعمیراتی ٹھیکوں پر لگائے گئے ہیں، غیرشفاف ٹھیکے دینے کے عمل پر 147 ارب 18 کروڑ روپے کے نقصانات کی نشاندہی کی گئی ہے۔ 50 اعتراضات میں حکومتی وصولیوں کی غیر وصولی اور خزانے میں جمع نہ کرانے کی مد میں سرکاری خزانے کو 41 ارب 32 کروڑ روپےسے زائد کی بے قاعدگیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے،3 اعتراضات غیرمنظم بجٹنگ اور فنڈز کی غیر مناسب اجراء کے باعث لگائے گئے جس سے 14ارب 64 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان ہوا، 40 دیگر اعتراضات میں سرکاری خزانے کو 11ارب 64 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان پہنچا۔ 7 اعتراضات انتظامی ناکامیوں اور خدمات کی عدم فراہمی پر اٹھائے گئے جن میں 9ارب 26کروڑ 78 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔

آڈٹ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ 15 اعتراضات میں غیر قانونی خریداری، اثاثوں کی گمشدگی اور ان کی غیر مجاز برقراری پر 2 ارب 94 کروڑ 53 لاکھ روپے سے زائد کا نقصان ہوا اسی طرح 23 اعتراضات غیر قانونی، غیر مجاز اور غیرمنصفانہ اخراجات سے 4 ارب 32 کروڑ ، 36 اعتراضات تعمیراتی کاموں میں زیادہ ادائیگی پر لگائے گئے جن سے سرکاری خزانے کو 2 ارب 83 کروڑ، 22 اعتراضات میں فرضی اخراجات، مشکوک ادائیگیوں اور ممکنہ بدعنوانی پر 98کروڑ 28 لاکھ روپے جبکہ ملازمین کو تنخواہ اور الاؤنسز کی زیادہ ادائیگی اور غیر قانونی تقرریوں پر 17 اعتراضات لگائے گئے جس میں 95 کروڑ سے زائد کی بے قاعدگیاں ہوئی ہیں۔
آڈٹ رپورٹ میں ان سنگین مالی بے ضابطگیوں کے خلاف فوری کارروائی کی سفارشات بھی کی گئی ہیں۔ تجویز دی گئی ہے کہ فرضی اخراجات، غیر قانونی ادائیگیوں اور ٹھیکوں میں بدعنوانی کے مرتکب افراد کے خلاف انکوائری کی جائے، رقم واپس لی جائے اور ان کے خلاف انضباطی کارروائی عمل میں لائی جائے، نیز غیر قانونی طور پر برقرار رکھی گئی گاڑیوں اور دیگر اثاثے ضبط کرکے مجاز افسران کو دیئے جائیں۔