سیلاب نے چھتیں چھین لیں تو رشتہ داروں نے زمینیں دیں

اردو نیوز  |  Sep 16, 2025

یہ 15 اگست کی صبح کا وقت تھا جب بونیر کے ایک خوبصورت گاؤں بشونئی کے رہنے والے شدید بارشوں اور سیلابی ریلوں سے بچاؤ کے لیے اسباب فراہم کر رہے تھے تاہم اسی دوران ایک تیز ریلا آیا جس نے بشونئی کو اجاڑ دیا۔

پانی گزر جانے کے بعد جب بشونئی کے رہنے والوں نے اپنے رشتہ داروں کی تلاش شروع کی تو معلوم ہوا کہ 86 افراد سیلابی ریلے کے ساتھ ہی چلے گئے۔ پانی نے بشونئی میں جو آگ لگائی اس کی راکھ آج تک کھنڈرات کی شکل میں کہیں کہیں نظر آتی ہے۔ تباہی سے پہلے یہاں 200 مکانات موجود تھے لیکن اب آدھے سے زیادہ گاؤں کا نشان بھی نہیں رہا۔

رہنے کی جگہ پھر سے بنانا تو ایک طرف، پانی نے کئی مکانات کی زمین ہی غرقاب کر دی۔ جن کے مکان بہہ گئے تھے وہ دوبارہ سے گھر بنانے میں کوشاں ہیں لیکن جن کی زمینیں ہی بہہ گئی تھیں وہ کیا کرتے۔ اس المیے نے بشونئی میں ایثار کی وہ مثال قائم کی ہے جس کا بدل مشکل سے ملتا ہے۔ اپنے پیاروں کو سہارا دینے کے لیے گاؤں کے کچھ لوگوں نے اپنی زمینیں بے گھروں کے  نام کر دی ہیں تاکہ وہ پھر سے گھر بنا سکیں۔

اس کام کا بِیڑہ اٹھانے والوں میں ایک صاحبزادہ ہمایوں رشید ہیں جنہوں نے اپنے دو پھوپھی زاد بھائیوں کو زمین دی۔ اردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ اپنے کسی رشتہ دار کو زمین دینے کا آغاز گاؤں میں سب سے پہلے انہوں نے شروع کیا۔

صاحبزادہ ہمایوں رشید نے بتایا کہ وہ یہ مثال قائم کرکے لوگوں کو ترغیب دینا چاہتے ہیں تاکہ اور وہ بھی آگے آئیں اور سیلاب متاثرین کی مدد کریں۔

’میری پھوپھو ہمیں بہت عزیز تھیں۔ اس قیامت خیز سیلاب میں ان کی جان چلی گئی۔ جب میں ان کا گھر دیکھنے گیا تو وہاں تباہی کے سوا کچھ نظر نہیں آیا اور اب وہاں گھر بنانا ممکن ہی نہیں رہا۔ یہ بات میرے ذہن میں آئی کہ اگرچہ میں بہت کچھ تو نہیں کر سکتا لیکن میں یہ کر سکتا ہوں کہ ان کے بچوں کو مکان کے لیے زمین فراہم کر سکوں۔‘

پروفیسر ڈاکٹر نواز یوسفزئی بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے اپنے عزیز و اقارب کو زمینیں پیش کی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے علاقے پر قیامت گزر چکی ہے تو ہم مدد کیوں نہیں کریں گے۔ یہ نہ صرف انسانیت کا تقاضا ہے بلکہ ہمارے پختون روایات کا بھی تقاضہ ہے کہ اس مصیبت کی گھڑی میں اپنوں کا ساتھ دیا جائے۔‘

پروفیسر ڈاکٹر نواز یوسفزئی نے اپنے بھانجوں کی گھر بنانے کے لیے زمین دی ہے۔ بشونئی کے وہ مکین جو ندی کے آس پاس آباد تھے ان کے لیے اپنے گھروں کی دوبارہ تعمیر اب ممکن نہیں رہی۔ اشفاق احمد کا گھر بھی اسی ندی کے قریب واقع تھا، جہاں سیلابی ریلے نے کئی مکانات کو ملیا میٹ کر دیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ندی کے کنارے میرے گھر کا تو اب کوئی نام و نشان بھی باقی نہیں رہا۔ وہ ندی جو اس ہولناک واقعے سے پہلے صرف 15 سے 20 فٹ چوڑی تھی، اب تقریباً 400 فٹ تک پھیل چکی ہے۔ ایسے حالات میں وہاں دوبارہ گھر بنانا خطرے سے خالی نہیں۔‘

ان کے ماموں پروفیسر ڈاکٹر نواز یوسفزئی نے بھی انہیں زمین فراہم کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نیا گھر تعمیر ہونے میں ابھی وقت لگے گا اس لیے وہ فی الحال ماموں کے گھر مقیم ہیں۔

’پانی جس راستے سے آیا، وہاں ہمارا محلہ اور گھر موجود تھے، لیکن اب وہاں گھروں کے کوئی آثار باقی نہیں۔ وہاں صرف بڑے بڑے پتھر رہ گئے ہیں، اور زندگی گزارنے کا تصور بھی ممکن نہیں رہا۔ اس سیلاب میں میرے بھائی، چاچا سمیت ہمارے خاندان کے 17 افراد جان سے گئے۔‘

اشفاق احمد بشونئی کے اُس سکول ٹیچر کے بھائی ہیں جنہوں نے سیلاب میں اپنے علاقے کے لوگوں کو ریسکیو کیا لیکن خود سیلاب کے ریلے کی نذر ہوگئے۔ آج بھی اس خاندان کے نوجوان اپنے علاقے کے لوگوں کی خدمت میں سرگرم ہیں۔

گاؤں میں سب سے پہلے صاحبزادہ ہمایوں رشید اپنے کزنز کو زمینیں دیں۔ بشونئی ہی کے عبدالحفیظ جب اجڑے مکان کی جانب جاتے ہیں تو وہاں ان کو صرف پتھروں کا ڈھیر نظر آتا ہے اور وہیں کھڑے ہو کر آنسو بہا کر اپنے غم کا بوجھ ہلکا کر دیتے ہیں۔

زندگی دوبارہ سے معمول پر لانے کے لیے ان کے ماموں نے انہیں 30 مرلے کی زمین دی ہے۔ ’ماموں کا شکریہ جنہوں نے ہمیں زمین دی اور اپنے گھر میں جگہ دی کیونکہ جس گھر میں ہم دن رات گزار رہے تھے اب تو وہ آباد بھی نہیں ہو سکتا۔ دوبارہ سے مکان کی تعمیر ایک چیلنج سے کم نہیں۔ نہ ماں ساتھ ہے اور نہ اہلیہ۔ میں جب اپنے مکان کی جانب جاتا ہوں تو وہاں کھڑے ہو کر خوب آنسو بہاتا ہوں اور جب دل ہلکا ہو جائے تو آگے بڑھ جاتا ہوں۔‘

اس تباہ کن سیلابی ریلے میں ان کی والدہ، اہلیہ اور ایک بچے سمیت خاندان کے چھ افراد جان سے گئے۔انہوں نے کہا کہ سیلاب میں بہنے سے اب ان کے پاس زرعی زمین بھی نہیں رہی۔

’پہلے تو ہم خوش و خرم زندگی گزار رہے تھے، گھر چل رہا تھا۔ بچے تعلیم حاصل کر رہے تھے، زرعی زمین کا آمدن بھی آ رہا تھا۔۔۔ اب سیلاب کے بعد میری صورتحال جیسے کسی مسافر کی ہے۔‘

بشونئی میں 200 مکانات موجود تھے لیکن اب آدھے سے زیادہ گاؤں کا نشان بھی نہیں رہا۔ (فوٹو: اے ایف پی)بشونئی میں سیلاب زدگان کی مدد کے لیے ایک 17 رکنی کمیٹی قائم کی گئی ہے جو متاثرہ افراد کی مدد اور نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے متحرک ہے۔ کمیٹی کے رکن عاشق علی کے مطابق حکومت کی جانب سے مکانات کی تعمیر کے لیے دس لاکھ روپے فراہم کیے گئے ہیں لیکن وہ دو کمرے بنانے کے لیے بھی کافی نہیں اور یہاں کے خاندان زیادہ افراد پر مشتمل ہیں۔ اس کے علاوہ گاؤں میں کریانے اور ٹیلرنگ کی متعدد دکانیں بھی تباہ ہو چکی ہیں جس سے لوگوں کے روزگار کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

ان کے مطابق تعمیرِ نو اور روزگار کی بحالی کے لیے حکومتی اقدامات نہ صرف ناکافی ہیں بلکہ ان مین تیزی لانے کی بھی ضرورت ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More