ان لوگوں کی کہانی جو ’بریک اپ‘ اور رومانوی تعلقات کے لیے مصنوعی ذہانت کی رہنمائی حاصل کرتے ہیں

بی بی سی اردو  |  Oct 12, 2025

Getty Images

رواں برس کے آغاز پر ریچل ایک ایسے شخص کے ساتھ تناؤ ختم کرنا چاہتی تھیں جن کے ساتھ ماضی میں ان کا رومانوی تعلق رہا تھا اور اب وہ ان سے دوستوں کے ایک گروپ میں دوبارہ مل رہی تھیں۔

برطانیہ میں شیفلیڈ کی رہائشی ریچل، جو اپنا اصل نام ظاہر نہیں کرنا چاہتیں، کا کہنا ہے کہ ’میں نے چیٹ جی پی ٹی کا استعمال ملازمت ڈھونڈنے کے لیے کیا تھا مگر پھر میں نے سنا کہ کوئی اس کا استعمال (رومانوی تعلقات سے متعلق مشوروں) کے لیے کر رہا ہے۔‘

ان کے مطابق ’میں خاصی پریشانی میں تھی اور رہنمائی کی خواہاں تھی اور میں یہ نہیں چاہتی تھی کہ اس معاملے میں دوستوں سے بات کروں۔‘

انھوں نے چیٹ جی پی ٹی سے مشورہ مانگ لیا۔ ’میں نے سوال پوچھا کہ میں بغیر اپنی کمزوری دکھائے اس طرح کی گفتگو سے کیسے نمٹ سکتی ہوں۔‘

مگر چیٹ جی پی ٹی کا کیا جواب آیا؟

’چیٹ جی پی ٹی ہمیشہ اس طرح کے معاملات میں مدد کرتا ہے مگر یہ معاملہ حیران کر دینے والا ہے کیونکہ یہ نجی نوعیت کا سوال ہے۔ آپ کو اپنے جذبات پر قابو رکھنا چاہیے، اس کے لیے یہ کچھ مشورے ہیں۔‘

ریچل کو لگا کہ چیٹ جی پی ٹی ان کی مدد کر رہا ہے اور انھیں بتا رہا ہے کہ غلطی ان کی نہیں، اس دوسرے شخص کی تھی۔

ان کے مطابق مجموعی طور یہ تجربہ بہت مددگار رہا۔ تاہم اے آئی کی زبان زیادہ ’تھیراپی سپیچ‘ کی طرح تھی اور اس نے ریچل کو حدود قائم کرنے کا کہا۔

تاہم ریچل نے ان سارے مشوروں پر من و عن عمل نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اسے اپنے طرز پر ہی سمجھا۔

ریچل واحد شحصیت نہیں ہیں جنھوں نے رومانوی تعلقات سے متعلق مشورے کے لیے مصنوعی ذہانت کا رُخ کیا ہو۔

آن لائن ڈیٹنگ فرم میچ کی تحقیق کے مطابق امریکہ میں تقریباً نصف جنریشن زی، جو سنہ 1997 سے 2012 کے درمیان پیدا ہوئے، نے کہا ہے کہ انھوں نے ڈیٹنگ ایڈوائس کے لیے چیٹ جی پی ٹی جیسے لارج لینگوئج ماڈلز (مصنوعی ذہانت) کا استعمال کیا ہے۔ یہ کسی بھی جنریشن کے مقابلے میں اس مقصد کے لیے مصنوعی ذہانت کا سب سے زیادہ استعمال ہے۔

ایسے لوگ بھی ہیں جو اے آئی کا استعمال کر رہے ہیں تاکہ ’بریک اپ‘ یا علیحدگی اختیار کرنے سے متعلق پیغامات کو تیار کرنے میں مدد لی جا سکے، ڈیٹنگ کے دوران کسی کی بات کا مطلب واضح ہو سکے یا تعلقات میں مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے۔

ماہر نفسیات اور رومانوی تعلقات کی ماہر ڈاکٹر للیتا سوگلانی کہتی ہیں کہ اے آئی ایک مفید ٹول ہو سکتا ہے، خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو تعلقات میں بات چیت کے معاملے میں جذبات سے بھرپور ہوں یا غیر یقینی کیفیت سے گزر رہے ہوں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’اس سے انھیں تحریر تیار کرنے، مبہم پیغام پر کام کرنے یا دوسری رائے حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ یوں مصنوعی ذہانت فوری ردعمل دینے کے بجائے کچھ وقفہ لینے کا مشورہ دے سکتی ہے۔‘

ڈاکٹر للیتا سوگلانی کہتی ہیں کہ ’کئی حوالوں سے مصنوعی ذہانت اپنے آپ سے سوال کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ یہ اس وقت تک تو مددگار ہے جب تک آپ اسے ایک ٹول کے طور پر استعمال کریں مگر یہ کسی انسانی تعلق کا متبادل نہیں ہے۔‘

تاہم وہ کئی خدشات سے متعلق بات کرتی ہیں۔

ان کے مطابق ’ایل ایل ایمز (لارج لینگوئج ماڈل) کو مددگار اور آپ سے متفق ہونے کی تربیت دی جاتی ہے اور آپ جو کچھ شیئر کر رہے ہیں وہ اسے دوبارہ دہراتے ہیں۔ لہٰذا وہ پہلے سے موجود مفروضوں کو دہرا سکتے ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’بریک اپ‘ یعنی علیحدگی سے متعلق ٹیکسٹ لکھنے کے لیے اے آئی کا استعمال صورتحال کی تکلیف سے بچنے کا ایک طریقہ ہو سکتا ہے۔

یہ سماجی بے چینی کا سبب بھی ہو سکتا ہے کیونکہ کوئی فرد اس کے ساتھ تو نہیں بیٹھا ہوتا کہ وہ حقیقی دنیا کی طرح ہو۔

اے آئی کا استعمال آپ کی اپنی ذاتی شخصیت کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔

ڈاکٹر سوگلانی کہتی ہیں کہ ’جب کوئی شخص ایل ایل ایم کا استعمال کرتا ہے تو اس کے خیالات دراصل ابہام کا شکار ہوتے ہیں۔ ایسے میں یہ افراد اپنے جذبات اور تعلقات کا اختیار کسی اور کے ہاتھ میں دے سکتے ہیں۔‘

وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ ’اے آئی پیغامات جذبات سے عاری ہو سکتے ہیں اور گفتگو کے احساس کو محض ایک مشینی احساس میں بدل سکتے ہیں۔ یہ صورتحال بے چینی کا سبب بن سکتی ہے۔‘

چیلنجز کے باوجود اب مصنوعی ذہانت کی خدمات لینے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

اے آئی سے تیار کردہ ایم ای آئی (مائی) ایک مفت سروس ہے۔ اوپن اے آئی کا استعمال کرتے ہوئے یہ تربیت یافتہ ٹول تعلقات سے متعلق مسائل پر پوچھے گئے سوالات کا جواب دیتا ہے۔

نیویارک میں مقیم اس سروس کے بانی ایس لی کا کہنا ہے کہ ’اس کا مقصد لوگوں کو فوری طور پر رشتوں سے متعلق معلومات مدد حاصل کرنے کے قابل بنانا ہے کیونکہ ہر کوئی شرمندگی کے خوف سے دوستوں یا خاندان سے بات نہیں کر سکتا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اے آئی ٹول پر اٹھائے گئے آدھے سے زیادہ مسائل جنسی تعلقات سے متعلق ہیں، ایک ایسا موضوع جس پر بہت سے لوگ دوستوں یا معالج کے ساتھ بات نہیں کرنا چاہتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں ’لوگ صرف مصنوعی ذہانت کا استعمال کر رہے ہیں کیونکہ اس کے علاوہ دستیاب خدمات میں ایسی سہولیت یا رازداری کی کمی ہے۔‘

اس کا ایک اور عام استعمال یہ ہے کہ کسی پیغام کو تحریر کرتے ہوئے مناسب الفاظ سے کیسے بدلا جائے یا کسی رشتے میں کسی مسئلے کو کیسے حل کیا جائے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے لوگوں کو اس مسئلے کے ادراک کے لیے اے آئی کی ضرورت ہے۔‘

تعلقات کے مشورے دیتے وقت اپنی حفاظت جیسے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ ایک انسانی مشیر کو معلوم ہوگا کہ کب کیا کرنا ہے اور کیسے مشورہ طلب کرنے والے کو ممکنہ طور پر نقصان دہ صورتحال سے بچانا ہے۔

کیا رشتہ والی ایپ انسانوں جیسے ہی ’گارڈریل‘ (محافظ) فراہم کرے گی؟

ایس لی حفاظت سے متعلق پائی جانے والی تشویش کو تسلیم کرتے ہیں۔ ’مجھے لگتا ہے کہ اے آئی کے ساتھ داؤ زیادہ ہے کیونکہ یہ ذاتی سطح پر ہمارے ساتھ اس طرح جڑ سکتا ہے جس طرح کوئی دوسری ٹیکنالوجی نہیں ہے۔‘

لیکن ان کا کہنا ہے کہ اس ایپ کے لیے اے آئی میں ’گارڈریل‘ تیار کیے گئے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم پیشہ ور افراد اور تنظیموں کو ہمارے ساتھ شراکت کرنے اور ہماری اے آئی مصنوعات کے استعمال میں فعال کردار ادا کرنے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔‘

چیٹ جی پی ٹی کے تخلیق کار اوپن اے آئی کا کہنا ہے کہ اس کے تازہ ترین ماڈل نے جذباتی انحصار اور خوشامد کی غیر صحت مند سطح سے بچنے جیسے شعبوں میں بہتری دکھائی ہے۔

سابق بوائے فرینڈ کا ’انتقام‘: ’بے بی ڈول آرچی‘ کا اکاؤنٹ جس پر برسوں ایک خاتون کی تصاویر سے فحش مواد بنایا اور وائرل کیا گیااے آئی تھیراپسٹ: ’جب آپ کو کوئی مدد دستیاب نہ ہو تو انسان تنکے کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتا ہے‘انسان نما شعور، ’سپر ہیومن‘ مشینیں اور روبوٹ: مصنوعی ذہانت سے جڑا خوف ’فکشن‘ یا حقیقت؟ڈیپ فیک پورن: ’جب طلبا میری طرف دیکھتے ہیں تو میں سوچتی ہوں کہ کہیں انھوں نے میری تصویر تو نہیں دیکھ لی‘

کمپنی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’لوگ بعض اوقات حساس لمحات کے دوران چیٹ جی پی ٹی کا رخ کرتے ہیں، لہٰذا ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ یہ ماہرین کی رہنمائی میں مناسب طریقے سے ایسے سوالات کا جواب دے۔‘ بیان کے مطابق ’اس میں مناسب مواقع پر لوگوں کو پیشہ ورانہ مدد دینا شامل ہے۔ ہم یقینی بنائیں گے کہ ہمارے ماڈلز حساس درخواستوں کا جواب کس طرح دیتے ہیں اور طویل سیشنز کے دوران وقفے کا کہتے ہیں۔‘

تشویش کا ایک اور پہلو رازداری کو یقینی بنانا ہے۔

اس طرح کی ایپس ممکنہ طور پر بہت حساس ڈیٹا اکٹھا کرسکتی ہیں، جو ہیکرز کے ذریعے لیک ہونے سے کسی کی ساکھ کے لیے تباہ کن ہوسکتی ہیں۔

ایس لی کا کہنا ہے کہ ’ہم صارف کی رازداری کو کس طرح یقینی بناتے ہیں اس کے بارے میں ہر لمحے اس کا خیال رکھتے ہیں اور ہم صرف ایسی معلومات ہی جمع کرتے ہیں جس کی بنیاد پر ہمیں بہترین خدمت فراہم کرنے کی ضرورت پڑتی ہے۔‘

اس پالیسی سے متعلق ان کا کہنا ہے کہ ایم ای اے ایسی معلومات نہیں طلب کرتی جو ای میل ایڈریس کے علاوہ کسی فرد کی شناخت ظاہر کر سکے۔‘

ایس لی کا یہ بھی کہنا ہے کہ بات چیت کو معیار برقرار رکھنے کے لیےعارضی طور پر محفوظ کیا جاتا ہے لیکن 30 دن کے بعد اسے ضائع کر دیا جاتا ہے۔

ان کے مطابق ’یہ معلومات فی الحال کسی بھی ڈیٹا بیس میں مستقل طور پر محفوظ نہیں ہیں۔‘

کچھ لوگ انسانی معالج کے ساتھ مل کر اے آئی کا استعمال کر رہے ہیں۔

لندن میں مقیم کورین کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے گھر میں کرائے دار سے اے آئی سے متعلق مثبت رائے سنی تو پھر انھوں نے ڈیٹنگ کے لیے مصنوعی ذہانت سے رہنمائی حاصل کرنے کا رستہ اختیار کیا۔ انھوں نے یہ بھی رہنمائی لی کہ کیسے کسی سے بہتر طور پر رستے جدا کیے جا سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ وہ اس سے اپنے سوالات کے جوابات اسی انداز میں دیں گی جیسے اس کام کے لیے سوشل میڈیا پر ایسے تعلقات کے ماہر جیلین توریکی یا ماہر نفسیات ڈاکٹر نیکول لیپیرا مشہور ہیں۔

جب انھوں نے سال کے آغاز میں دوبارہ ڈیٹنگ شروع کی تو انھوں نے دوبارہ اے آئی کی طرف رخ کر لیا اور ایک بار پھر اپنے پسندیدہ تعلقات کے ماہرین کے انداز میں مشورہ طلب کیا۔

انھوں نے کہا کہ ’جنوری کے آس پاس میں ایک لڑکے کے ساتھ وہ ڈیٹ پر گئی مگر مجھے وہ جسمانی طور پر زیادہ پرکشش نہیں لگا۔ مگر ہم اس نتیجے پر بہت اچھے سے پہنچ چکے تھے اور میں ان سے پوچھا کہ کیا یہ کسی اور ڈیٹ پر جانا سود مند ہوگا۔‘

’میں جانتی تھی کہ جیسا کہ میں نے ان کی کتابیں پڑھ رکھی تھیں کہ وہ ’ہاں‘ میں جواب دیں گے مگر میرے تناظر میں مشورہ حاصل کرنا بہت اچھا لگا۔

کورین بھی ایک تھراپسٹ کے پاس جاتی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ان دونوں کے مابین گفتگو زیادہ تر ان کے بچپن کے ارگرد گھومتی ہے جبکہ چیٹ جی پی ٹی سے ڈیٹنگ اور تعلقات کے بارے میں بھی سوال کر لیتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ اے آئی کے مشورے پر من و عن عمل نہیں کرتی ہیں۔

’میں سمجھ سکتی ہوں کہ لوگ تعلقات ختم کر رہے ہوتے ہیں اور وہ شاید اپنے ساتھی سے ایسی گفتگو بھی کرتے ہیں جو انھیں ابھی تک نہیں کرنی چاہیے تھی جبکہ چیٹ جی پی ٹی وہی کچھ دہراتی ہے جب آپ سننا چاہتے ہیں۔‘

’یہ تناؤ کے لمحات میں اچھا احساس دلاتا ہے اور جب کوئی دوست آس پاس نہیں ہوتا تو ایسے میں ایسا سب کرنے سے مجھے سکون ملتا ہے۔‘

ڈیپ فیک، اے آئی اور ’شخصی حقوق‘: وہ رجحان جس سے بالی وڈ کے بڑے نام بھی پریشان ہیںچین نے امریکہ پر سبقت حاصل کرنے کے لیے ’ایپل‘ جیسی بڑی امریکی کمپنیوں کو کیسے استعمال کیا؟ہوم ورک کے لیے چیٹ جی پی ٹی کی مدد لینے والے نوجوان کی خودکشی پر ’اوپن اے آئی‘ کے خلاف مقدمہ کیوں دائر ہوا؟پاکستان کی ’قومی مصنوعی ذہانت پالیسی‘ اور ’2030 تک 35 سے 40 لاکھ نوکریاں‘: ’انھیں خطرہ ہو گا جو اے آئی استعمال کرنا نہیں جانتے‘’خوفناک منظرنامے میں جاری کنٹرول کی جنگ‘: کیا مصنوعی ذہانت ’پوشیدہ ہتھیاروں‘ سے انسانوں کو ختم کر دے گی؟کیا یہ ایک حقیقی ماڈل لگتی ہیں؟ فیشن میگزین ’ووگ‘ میں اے آئی ماڈل کی تصویر شائع ہونے پر اتنا ہنگامہ کیوں مچا ہوا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More