’غیر کشمیری استاد سے گلے ملنے‘ پر کمسن کشمیری لڑکی کو سوشل میڈیا پر ہراسانی کا سامنا: ’اتنا ٹرول کیا گیا کہ خودکشی کا بھی سوچا‘

بی بی سی اردو  |  Oct 20, 2025

’چلیے میں مانتی ہوں مُجھ سے غلطی ہوئی، لیکن اُن لوگوں (سوشل میڈیا صارفین) نے کیا کیا؟ اگر اُن کے مطابق میری حرکت غیراسلامی ہے تو کون سا اسلام ایک نابالغ لڑکی کی عزّت اُچھالنے کی اجازت دیتا ہے؟‘

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے جنوبی ضلع اننت ناگ سے تعلق رکھنے والی ایک 17 سالہ لڑکی اپنی والدہ کے ہمراہ بنائی گئی ایک ویڈیو میں یہ الفاظ ادا کرتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔

17 سالہ لڑکی ویڈیو بنانے پر کیوں مجبور ہوئی؟

انڈیا کی معروف تدریسی کمپنی ’فزکس والا‘ نے چند سال قبل انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی کئی سینٹر قائم کیے جہاں انجنیئرنگ اور میڈیکل سائنس کے امتحانات کی کوچنگ ہوتی ہے۔

ایسے ہی ایک سینٹر کی افتتاحی تقریب گذشتہ ہفتے ضلع اننت ناگ میں منعقد کی گئی، جہاں سینکڑوں طالب علموں اور اُمیدواروں نے علمی اور فنی مظاہرے کیے۔

تقریب کے دوران ایک نابالغ لڑکی فرط جذبات میں سٹیج پر ہی اپنے ٹیچر وِپن شرما کے ساتھ گلے ملی۔ ان کا یہ ویڈیوکلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا اور بیشتر کشمیری حلقوں نے اس حرکت کو ’غیراخلاقی‘ اور ’ناشائستہ‘ قرار دے کر عوام کے مذہبی جذبات کے مجروح ہونے کا دعویٰ کیا۔

سوشل میڈیا کے تقریباً سب ہی پلیٹ فارمز پر مذکورہ لڑکی کا ویڈیوکلپ اپ لوڈ کرکے سینکڑوں انفلوائنسرز نے سخت الفاظ میں احتجاج کیا، جس کے بعد لڑکی اور ان کی ماں نے ایک وضاحتی ویڈیو اپ لوڈ کی ہے۔

’معافی مانگ لی مگر تضحیک کے خلاف عدالت جاوٴں گی‘

وضاحتی ویڈیو میں متاثرہ لڑکی نے بتایا: ’میرا تو سکون ہی اُجڑ گیا ہے۔ میں نے ویڈیو شیئر کرنے والوں کی کافی منّت سماجت کی کہ اسے ڈیلیٹ کریں لیکن وہ نہیں مانے۔ اگر ایک بھائی جیسے ٹیچر سے سٹیج پر گلے ملنا غلطی ہے تو میں نے معافی مانگ لی ہے لیکن میں چپ نہیں بیٹھوں گی، میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں گی۔‘

ان کا مزید کہنا ہے کہ مرد تو مرد خواتین نے بھی انھیں سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

’میں نے ایک لڑکی سے کہا تم خود ایک عورت ہو، ایک لڑکی کی عزّت اُچھالنا اچھی بات نہیں۔ لیکن اُس نے کہا کہ غلط حرکتوں کو عام کرنا ضروری ہے تاکہ یہ رویہ عام نہ بن جائے۔ ایک دن میں نے خودکشی کی کوشش بھی کی لیکن میرے والدین نے مجھے حوصلہ دیا اور کہا کہ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا جس کے لیے اپنی جان لے لوں۔‘

’میں بے باک لڑکی ہوں لیکن اس لمحے میرا سانس رُک گیا‘’کیا یہ میری غلطی ہے کہ مجھے فحش تصاویر اور پیغامات بھیجے جاتے ہیں‘خواتین آن لائن ہراسانی کے واقعات ایف آئی اے کو رپورٹ کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار کیوں؟آؤ تمھیں ہراساں کروں!

متاثرہ لڑکی نے پہلے ہی پولیس کے سائبر کرائم شعبے میں شکایت درج کروائی ہے، جس کے بعد درجنوں صارفین نے ان کا کلپ ڈیلیٹ کر دیا۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ وہ عدالت میں اُن سب کے خلاف ہتکِ عزّت کا دعویٰ کریں گی جنھوں نے انھیں ذہنی طور ہراساں اور سماج میں بدنام کیا ہے۔

وضاحتی ویڈیو میں ان کی ماں کہتی ہیں: ’میری بیٹی کی تعلیم اور صحت دونوں متاثر ہوئی ہیں، وہ تو خودکشی پر آمادہ تھی۔ ہم حکام سے کہتے ہیں کہ اسے بدنام کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے، ہم انصاف چاہتے ہیں۔‘

مذکورہ لڑکی چند سال سے آن لائن میڈیم سے فزکس والا کے ایپ پر تربیت حاصل کررہی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اننت ناگ کی تقریب میں جب انھوں نے اپنے ٹیچرز کو دیکھا تو وہ نہایت خوش ہوئیں۔

’مجھے افسوس ہے چند کمنٹس اور لائکس کے لیے میرا استحصال کیا گیا۔ اگر واقعی میں نے اسلامی اقدار کو پامال کیا تو ان لوگوں نے تو ایک معصوم لڑکی کو دنیا بھر میں بدنام کیا، ان لوگوں نے کون سے اسلامی اقدار کا تحفظ کیا ہے؟‘

https://twitter.com/IltijaMufti_/status/1979894320288378980

’لڑکی کی پرائیویسی پر حملے کے لیے قید کی سزا ہو گی‘

بچوں کی بہبود سے متعلق سرکاری ادارے ’چائلڈ ویلفیئر کمیٹی‘ نے ایک بیان میں سب ہی سوشل میڈیا صارفین کو ہدایت دی ہے کہ مذکورہ تنازعہ سے متعلق کوئی بھی کانٹنٹ یا لڑکی کا کلپ شئیر نہ کریں۔ لڑکی کا نام ظاہر کرنے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

بیان میں ’جوینائل جسٹس، کیئر اینڈ پروٹیکشن آف چلڈرن‘ قانون کا حوالہ دے کر کہا گیا ہے کہ ’فزکس والا اننت ناگ کی تقریب سے متعلق قابل اعتراض مواد شئیر کرنا غیر قانونی ہو گا کیونکہ اس سے ایک نابالغ لڑکی کی پرائیویسی متاثر ہو گی۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے گا۔‘

کمیٹی کے مطابق سوشل میڈیا پر کانٹنٹ بنانے کی غرض سے ویڈیوکلپ کا ناجائز استعمال کیا گیا ہے جس کی وجہ سے لڑکی کی پرائیویسی مجروح ہوئی ہے۔

فزکس والا: ایک ارب پتی کوچنگ سینٹر

انڈین ریاست اتر پردیش کے رہنے والے الکھ پانڈے نے 2016 میں یوٹیوب پر بچوں کو طبعیات (فزکس) پڑھانے کا مفت سلسلہ شروع کیا۔

چینل مشہور ہوگیا تو انھوں نے کیمیات (کیمسٹری) پڑھانا بھی شروع کیا۔

سنہ 2020 میں کوِڈ وبا کی وجہ سے آن لائن تعلیم کا رواج پروان چڑھا تو انھوں نے ’فزکس والا‘ کے نام سے ایک ایپ بنائی اور چند ہی سال میں ’فزکس والا‘ تین ارب ڈالر کی ’ایڈ۔ٹیک‘ کمپنی بن گئی۔

الکھ پانڈے کی زندگی اور کامیابی سے متعلق ایمازون نے ایک ویب سیریز بھی بنائی ہے جو انڈیا میں کروڑوں لوگوں نے دیکھی۔

’کشمیر میں ڈیجیٹل ہراسانی ایک سچ ہے‘

اننت ناگ کی لڑکی کو درپیش ذہنی ہراسانی پر کئی سیاسی اور سماجی حلقوں نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔

سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی کی بیٹی اور ان کی سیاسی مشیر التجا مفتی نے ایکس پر لکھا: ’اننت ناگ کی کمسن لڑکی کو ہراساں نہ کریں کیونکہ بلاجواز مخالفت اور نفرت آمیز پوسٹس کی وجہ سے وہ خودکشی پر آمادہ ہے۔ اُسے اکیلا چھوڑ دیں۔ ہاتھ میں سمارٹ فون ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کسی کی زندگی اجیرن بنا دیں۔ ڈیجیٹل ہراسانی کشمیر میں ایک سچ ہے۔‘

حکمران نیشنل کانفرنس کی ترجمان اِفرا جان نے ایکس پر متاثرہ لڑکی کا وضاحتی بیان ری شیئر کرکے لکھا: ’ہمت کرو لڑکی۔ تم اُن سب سے زیادہ مضبوط اور بہادر ہو۔‘

’عورت بیزاری کا وائرس‘

سماجی حلقوں نے بھی اس واقعہ پر نہایت برہمی کا اظہار کیا ہے۔

علم نفسیات کی ایک خاتون پروفیسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا: ’اس واقعہ کے پیچھے سیاسی پیچیدگیاں ہیں کیونکہ ٹیچر ایک غیرکشمیری اور غیرمسلم ہے، اور لڑکی نابالغ ہے۔ کشمیر کے مذہبی اقدار کی مناسبت سے ایک محتاط ردعمل ٹھیک تھا۔ لیکن جس طرح سے اس سٹوڈنٹ کی جگ ہنسائی کی گئی، لگتا ہے اسے محض لڑکی ہونے کی سزا دی گئی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اسی تقریب میں ایک خاتون ٹیچر آروشی بھی تھیں، جو لڑکوں کے ساتھ گھل مل رہی تھیں اور بعضکو انھوں نے گلے بھی لگایا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’لیکن اجتماعی غصہ صرف بچاری لڑکی پر نکلا۔ ایسے حساس تنازعات پر ہم صرف عورت کو کوسنے کے لیے بہادر ہوجاتے ہیں، اگر کہیں لڑکا ملوث ہے تو اس بات کو دبایا جاتا ہے، غیرت کا مظاہرہ صرف اُس وقت نہیں کرنا ہوتا جب لڑکی ہدف ہو۔ دراصل یہ عورت بیزاری کا وائرس ہے، جو ہمارے یہاں ابھی بھی گہرائی تک موجود ہے۔‘

’میں بے باک لڑکی ہوں لیکن اس لمحے میرا سانس رُک گیا‘آؤ تمھیں ہراساں کروں!خواتین آن لائن ہراسانی کے واقعات ایف آئی اے کو رپورٹ کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار کیوں؟’کیا یہ میری غلطی ہے کہ مجھے فحش تصاویر اور پیغامات بھیجے جاتے ہیں‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More