پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی ذات اکثر و بیشتر تنازعات میں گھری رہتی ہے جس کی ایک وجہ ان کے بیانات بنتے ہیں۔
2020 میں لاہور میں پی ڈی ایم جلسے کے دوران ان کا یہ گلہ ہو کہ ’لاہور نے پشتون وطن پر قبضے میں انگریز کا ساتھ دیا‘ یا پھر 2018 میں پارٹی کارکنوں کو افغانستان کی شہریت حاصل کرنے کی تاکید، محمود خان اچکزئی اپنے بیانات کے باعث خبروں کی زینت بنتے رہتے ہیں۔
تاہم حالیہ تنازع کا مرکز ان کی بیٹی تاتیرہ اچکزئی ہیں جن کی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کی جانے والی ایک پوسٹ کے بعد بلوچستان یونیورسٹی کی انتظامیہ نے انھیں شوکاز نوٹس دیا تو وہیں سرکاری ملازمین خصوصا درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ افراد کی آزادی اظہار رائے کے معاملے پر بحث بھی ہو رہی ہے۔
واضح رہے کہ تاتیرہ اچکزئی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین اور تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی صاحبزادی ہیں جو کوئٹہ کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے یونیورسٹی آف بلوچستان کے شعبہ انگریزی میں لیکچرر بھی ہیں۔
طویل سیاسی جدوجہد کی وجہ سے بلوچستان کی سیاست میں تاتیرہ کے خاندان کو اہم مقام حاصل ہے۔ ان کے دادا عبدالصمد خان اچکزئی نے انگریزوں کے خلاف سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا تھا اور اپنی جدوجہد اور سیاسی نظریات کی وجہ سے عبدالصمد خان کا شمار طویل عرصہ تک قیدوبند کی صعوبتیں کاٹنے والے سیاسی قائدین میں ہوتا ہے۔
خود محمود خان اچکزئی کو تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے لیے نامزد کیا جا چکا ہے۔
تاہم اپنے والد کی طرح تاتیرہ کا ایک سوشل میڈیا پر جاری ہونے والا بیان اس تازہ تنازع کا سبب بنا ہے جس میں انھوں نے پاکستان کا موازنہ اسرائیل سے کیا۔
AFPمحمود خان اچکزئی کو تحریک انصاف کی جانب سے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے لیے نامزد کیا جا چکا ہےپاکستان کا اسرائیل سے موازنہ
تاتیرہ نے 16 اکتوبر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’پاکستان اسرائیل کا سستا ٹیمو ورژن ہے۔‘ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’پاکستان کی ریاست کے ہاتھ فری ورلڈ یعنی مغربی دنیا کے آقاؤں نے باندھ رکھے ہیں۔‘ اس کے ساتھ ہی ساتھ انھوں نے ریاست پر دیگر الزام بھی لگائے۔
یہ پوسٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی جب پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازع شدت اختیار کر رہا تھا۔
ایسے میں سوشل میڈیا پر صارفین نے ان کے بیان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس بات کی بھی نشان دہی کی کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں بطور اپوزیشن لیڈر نامزد ہونے والے سیاست دان کی بیٹی نے اپنے پروفائل پر افغانستان کا جھنڈا کیوں لگا رکھا ہے۔
ایک صارف نے کہا کہ ’آپ کی دادا نے پاکستان میں کھل کر سیاست کی، والد صاحب بھی آزادانہ سیاست کر رہے ہیں۔ دولت کی ریل پیل ہے۔ پاکستان کی ہر حکومت میں آپ لوگ شامل رہے۔کسی نے پکڑ کر جیل میں نہیں ڈالا۔ پاکستان کے خلاف بدترین بیانات کے باوجود بھی ریاست نے درگزر کیا۔ اور کتنی آزادی چاہیے۔‘
دوسری جانب ایک بڑی تعداد میں سوشل میڈیا صارفین نے ان کے خاندان کی سیاسی جدوجہد کو سراہتے ہوئے تاتیرہ کے حق میں بھی بیان دیے۔
خان عبدالصمد خان اچکزئی کی کہانی: ’مجھے نوکری نہیں چاہیے بلکہ اپنے عوام کی آزادی چاہیے‘کیا لاہور نے 'پشتون وطن‘ پر قبضے کے لیے انگریز کا ساتھ دیا تھا؟افغان وزیرِ دفاع کا ’ڈیورنڈ لائن‘ سے متعلق بیان اور دوحہ جنگ بندی معاہدے سے جڑی امیدیں اور خدشاتنریندر مودی، نتن یاہو اور ’ٹیمو کی کاپی‘: بلاول بھٹو کا انڈین وزیراعظم کے بارے میں وہ بیان جسے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے
تاہم یہ تنازع اس وقت اور بڑھ گیا جب ایک دن بعد یعنی 17 اکتوبر کو بلوچستان یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے ایک نوٹس جاری کیا گیا۔
یونیورسٹی کے نوٹس میں کیا کہا گیا؟
یونیورسٹی آف بلوچستان کے اسسٹنٹ رجسٹرار(جنرل)کی جانب سے جاری ہونے والے شوکاز نوٹس کے متن کے مطابق انھوں نے 16 اکتوبر کو صبح ساڑھے دس بجے ریاست مخالف بیانیے پر مشتمل ٹویٹ کیا۔
نوٹس کے مطابق ’یہ عمل ضابطہ اخلاق کے خلاف اور سنگین مس کنڈکٹ کے زمرے میں آتا ہے۔‘
نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ’یہ ٹویٹ آپ کے خلاف تادیبی کاروائی کا باعث بن سکتی ہے کیونکہ آپ نے 2022 اور2024 میں جاری کیے جانے والی ہدایات کی خلاف ورزی کی ہے۔‘
نوٹس میں تاتیرہ اچکزئی سے کہا گیا ہے کہ وہ پانچ دن کے اندر تحریری وضاحتی بیان جمع کروائیں ورنہ ’آپ کے خلاف یونیورسٹی آف بلوچستان کے قوانین کے تحت سخت کاروائی کا آغاز کیا جائے گا۔‘
یونیورسٹی کے رجسٹرار پروفیسر فاروق جوگیزئی نے بی بی سی اردو کے رابطہ کرنے پر اس بات کی تصدیق کی کہ خاتون لیکچرر کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا ہے۔
اس سوال پر کہ یونیورسٹی کے کسی ملازم پر ڈسپلن کی خلاف ورزی ثابت ہونے پر اس کے خلاف کاروائی کا قانونی طریقہ کار کیا ہوتا ہے، رجسٹرار کا کہنا تھا کہ وہ یونیورسٹی سے باہر ہیں اس لیے وہ اس وقت اس پر مزید بات نہیں کر سکتے۔
تاہم یونیورسٹی کے لیگل ٹیم کے ایک رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’اگر کسی ملازم کو شوکاز نوٹس جاری ہو اور وہ انکار کرے تو انکوائری آفیسر مقرر کیا جاتا ہے جو خلاف ورزی ثابت ہونے پر مجرم قرار دیے سکتا ہے جس کے بعد سزا کا تعین کیا جاتا ہے اور ملازمت سے برطرفی بھی ہو سکتی ہے۔‘
آزادئ اظہارِ رائے کا حق
قانونی ماہر اور سپریم کورٹ کے وکیل حبیب ناصر ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ تاتیرہ اچکزئی نے سوشل میڈیا پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہے جو کہ یونیورسٹی کے رولز اینڈ ریگولیشن کی خلاف ورزی کے ذمرے میں نہیں آتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آزادی اظہار رائے بنیادی حق ہے جس کی ضمانت آئین نے دی ہے۔‘
ایک اور قانونی ماہر عمران بلوچ ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ ’ملکی اور بین الاقوامی معاملات پر سکالرز کو رائے دینی چاہیے اور اگر یونیورسٹی میں پڑھانے والے سکالرز رائے نہیں دیں گے تو پھر کون دے گا۔‘
پاکستانی ٹینک، بمباری کے نشانات اور ’باب دوستی‘: پاک افغان جھڑپوں کے بعد چمن کی سرحد پر بی بی سی نے کیا دیکھا؟افغان وزیرِ دفاع کا ’ڈیورنڈ لائن‘ سے متعلق بیان اور دوحہ جنگ بندی معاہدے سے جڑی امیدیں اور خدشاتنریندر مودی، نتن یاہو اور ’ٹیمو کی کاپی‘: بلاول بھٹو کا انڈین وزیراعظم کے بارے میں وہ بیان جسے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہےکیا لاہور نے 'پشتون وطن‘ پر قبضے کے لیے انگریز کا ساتھ دیا تھا؟خان عبدالصمد خان اچکزئی کی کہانی: ’مجھے نوکری نہیں چاہیے بلکہ اپنے عوام کی آزادی چاہیے‘