پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے حالیہ دنوں میں اپنی سیاسی حکمت عملی کو ظاہر کرنا شروع کیا ہے۔ اور اس بار بھی پی ٹی آئی اپنے روایتی طریقہ کار یعنی براہ راست ’سیاسی تصادم‘ کی طرف جا رہی ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں وزیراعلٰی کی تبدیلی اور پنجاب اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں سے اجتماعی استعفوں کا اقدام بظاہر اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔سیاسی مبصرین کے نزدیک یہ دونوں اقدامات وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر سیاسی دباؤ بڑھانے کی کوشش ہے۔ اڈیالہ جیل میں قید بانی پی ٹی آئی عمران خان کی ہدایات پر عمل درآمد کرتے ہوئے ان کی جماعت نے یہ اقدامات ایک ایسے وقت پر اٹھائے ہیں جب ملکی سیاست میں تناؤ پہلے ہی عروج پر ہے۔
پی ٹی آئی کی اس حکمت عملی کا آغاز خیبر پختونخوا میں ہوا۔ آٹھ اکتوبر کو عمران خان کی ہدایات پر اس وقت کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، اور ان کی جگہ سہیل آفریدی کو نئی قیادت سونپ دی گئی۔ یہ تبدیلی، جو پارٹی ذرائع کے مطابق کئی ہفتوں سے اندرونی طور پر زیرغور تھی، بظاہر صوبے میں بگڑتی ہوئی سلامتی کی صورت حال، بدعنوانی کے الزامات اور انتظامی کمزوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئی۔ عمران خان نے اپنے ایک بیان میں اسے ’آئینی عمل کے مطابق ناگزیر قدم‘ قرار دیا۔
تاہم یہ تبدیلی صرف صوبائی سطح تک محدود نہ رہی بلکہ اس نے قومی سطح پر پی ٹی آئی کی حکمت عملی کو بھی واضح کر دیا، جہاں پارٹی نے تمام صوبائی اور وفاقی پلیٹ فارمز پر ایک بار پھر ’بائیکاٹ‘ کی پالیسی اپنا لی۔صوبہ خیبر پختونخوا میں تبدیلی کے محض ایک دن بعد، نو اکتوبر کو عمران خان نے پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 107 اراکین کو قائمہ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ اور ممبر شپ سے استعفیٰ دینے کا حکم دیا۔ یوں 10 اکتوبر کو ان کے حکم پر عمل درآمد ہو گیا اور پارٹی کے اراکین نے تمام 14 قائمہ کمیٹیوں سے دستبرداری اختیار کر لی۔یاد رہے کہ استعفوں سے قبل پی ٹی آئی پنجاب اسمبلی کی 14 اہم ترین قائمہ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ سنبھال رہی تھی، جو صوبے کے اہم شعبوں کی نگرانی کرتی تھیں۔ ان میں سے داخلہ، فنانس (مالی امور، صوبائی بجٹ اور ٹیکس پالیسیوں کی نگرانی)، ہیلتھ (صحت، ہسپتال اور میڈیکل سہولیات کی نگرانی)، سکول ایجوکیشن (سکولوں کی پالیسیاں، تعلیم اور بجٹ کی نگرانی)، پرائس کنٹرول اینڈ کموڈیٹیز مینجمنٹ (فوڈ) (مہنگائی کنٹرول، اشیائے خور و نوش اور فوڈ سکیورٹی کی نگرانی)، سروسز اینڈ جنرل ایڈمنسٹریشن (سرکاری ملازمین اور انتظامی امور کی نگرانی)، ٹرانسپورٹ (سڑکوں، ٹریفک اور ٹرانسپورٹ کی نگرانی) اور لوکل گورنمنٹ (مقامی حکومت، یونین کونسلوں اور ضلعی انتظامیہ کی نگرانی) شامل تھیں۔ یہ کمیٹیاں حکومتی پالیسیوں پر براہ راست اثر انداز ہوتی تھیں۔ان واقعات کی ترتیب سے بظاہر ایسے محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف ایک بار پھر حکومت پر دباؤ بڑھا رہی ہے جس میں مستقبل قریب میں اسلام آباد کی طرف ایک اور احتجاجی مارچ بھی ہو سکتا ہے۔نو اکتوبر کو عمران خان نے پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 107 اراکین کو قائمہ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ اور ممبر شپ سے استعفیٰ دینے کا حکم دیا۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)’ان کے ایم پی ایز نجی محفلوں میں رو رہے ہیں‘اس حوالے سے پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ ایم پی اے حافظ فرحت نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اب عمران خان نے فیصلے اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں کیونکہ کچھ لوگوں نے گذشتہ ڈیڑھ برس میں مایوس کیا ہے۔ وہ جو بھی حکم دیں گے ہم اس پر من و عن عمل کریں گے۔ استعفوں کے حکم پر ایک منٹ سے پہلے عمل کیا گیا۔ اس سے آگے جو حکم وہ کریں گے اس پر بھی ہو بہو ویسے ہی عمل ہو گا۔ احتجاج بھی ہمارا جمہوری حق ہے، اور یہ آئین میں درج ہے۔‘دوسری طرف پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ ’مجھے تو اب تحریک انصاف کہیں نظر نہیں آ رہی ہے اور نہ مجھے ان کے استعفے نظر آ رہے ہیں۔ میں تو کہتی ہوں یہ استعفے بعد میں دیں پہلے سرکاری گاڑیاں واپس کریں۔ بلکہ گاڑیاں حکومت کے منہ پر ماریں، اور جتنی مراعات وہ لے رہے ہیں ان کو واپس کریں۔‘احتجاج کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’وہ اس بات کا شوق پورا کر کے دیکھ لیں۔ پہلے بھی ان کو اصلیت دکھا دی تھی۔ ان کو پھر کاہنہ میں پہاڑیاں اگانی پڑی تھیں پرانی ویڈیوز کے ساتھ۔ اب بھی اپنا شوق پورا کر لیں۔ ان کے ایم پی ایز نجی محفلوں میں رو رہے ہیں کہ ان کو کس مصیبت میں ڈال رہے ہیں۔ ان کا اشارہ قائمہ کمیٹیوں سے استعفوں سے متعلق تھا۔‘حافظ فرحت نے کہا کہ ’اب عمران خان نے فیصلے اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں کیونکہ کچھ لوگوں نے گذشتہ ڈیڑھ برس میں مایوس کیا ہے۔‘ (فائل فوٹو: روئٹرز)’میں اس حکمت عملی کو سمجھنے سے قاصر ہوں‘پی ٹی آئی کی ’استعفوں کی سیاست‘ پر بات کرتے ہوئے پاکستان میں جمہوری نظام پر نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے کہا کہ ’تحریک انصاف استعفے دے کر ہمیشہ اپنا نقصان کرتی ہے۔ آپ ساری گذشتہ مثالیں اٹھا کر دیکھ لیں، پہلا بائیکاٹ 2008 کے انتخابات میں کیا گیا، اس کے بعد سے آج تک جتنی بار بھی پی ٹی آئی جمہوری عمل سے خود کو باہر کرتی ہے۔ اس عمل سے فائدہ اٹھانے سے قاصر رہتی ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ’یہی احتجاج کمیٹیوں کے اندر کیا جاتا اور قانونی سازی کے عمل پر دباؤ رکھا جاتا، یہ بہتر تھا یہ اپنے آپ کو الگ کر لینا بہتر ہے؟ میں اس حکمت عملی کو سمجھنے سے قاصر ہوں۔‘