مناڈے، ایک ایسا گلوکار جس کے سُروں نے وقت کو مات دے دی

اردو نیوز  |  Oct 24, 2025

ایک دور تھا جب بالی وڈ میں محمد رفیع، مکیش اور کشور کمار کی آواز ہر سو گونجا کرتی تھی۔ لوگ ان کے گیتوں کے دیوانے تھے۔ ہر بڑے ہیرو پر ان کے گیت فلمائے گئے مگر بالی وڈ کی مدھر آوازوں میں ہی ایک آواز ایسی بھی تھی جس نے نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک اپنے سُروں کا جادو جگائے رکھا اور ایسے گیت گائے جو آج برسوں گزر جانے کے باوجود کسی شبہ کے بغیر ایورگرین قرار دیے جا سکتے ہیں۔

ذکر ہو رہا ہے بنگال کے مردم خیز خطے میں پیدا ہونے والے گلوکار مناڈے کا جنہوں نے یوں تو ایک ہزار سے زیادہ گیت گائے مگر ان کے فنی مقام و مرتبے کا تعین کرنا ہو تو ان کے گائے ان تین گیتوں سے ہی ان کی عظمت واضح ہو جاتی ہے جن میں ان کا دوگانا ’ایک چتُر نار کر کے سنگھار‘ سرفہرست ہے جس میں کشور کمار بہ ظاہر ان پرحاوی دکھائی دیتے ہیں تو شہرہ آفاق قوالی ’نہ تو کارواں کی تلاش ہے‘ میں بازی محمد رفیع کے نام رہی اور اور کلاسیکی گیت ’کیتکی گلاب جوہی‘ میں وہ بالآخر پنڈت بھیم سین جوشی کو مات دینے میں کامیاب رہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مناڈے محمد رفیع، کشور کمار یا مکیش سے فنِ گائیکی میں کسی طور پر بھی کم تھے۔

یوں کہہ لیجیے کہ یہ پربودھ چندر مناڈے کی بدقسمتی ہی تھی کہ وہ ہر طرح کے گیت گا لیتے تھے۔ ان کی یہ صلاحیت ہی ان کی راہ کا سب سے بڑا کانٹا بن گئی۔

یکم مئی 1919 کو کلکتہ میں پیدا ہونے والے یہ گلوکار یوں تو کلاسیکی موسیقی میں گہرا درک رکھتے تھے بلکہ یہ ان کا جنون بھی تھا، اس پر طرفہ تماشا یہ کہ ان کی ’مردانہ‘ آواز نے انہیں ہر طرح کے گیتوں کے لیے موزوں بنا دیا۔

رومانوی (حتیٰ کہ عمر رسیدہ کرداروں کے لیے بھی)، لوک گیت ہوتے یا فلسفیانہ، اور تو اور قوالی، وہ ہر طرح کی گائیکی میں یکتا تھے مگر اس کے باوجود انہیں کبھی صفِ اول کے گلوکار کے طور پر تسلیم نہیں کیا گیا۔

آگے بڑھنے سے قبل کچھ ذکر گلوکار کی ابتدائی زندگی کا ہو جائے۔ انہوں نے کلکتہ کے معروف سکاٹش چرچ کالج اور وِدیا ساگر کالج سے تعلیم حاصل کی۔ وہ بچپن سے ہی گائیکی کا شوق رکھتے تھے، جب وہ اپنے دوستوں کو محظوظ کرنے کے لیے گایا کرتے مگر جلد ہی انہوں نے اپنے اس شوق کو سنجیدگی سے ایک پیشے کے طور پر اپنا لیا اور اپنے نابینا مگر باصلاحیت چچا، گلوکار و موسیقار کرشن چندر ڈے سے موسیقی سیکھی جنہوں نے ان کے لیے موسیقی اور فلموں کے دروازے کھولے۔

انہوں نے سال1942  میں اپنے چچا کے ساتھ بمبئی (ممبئی) کا رُخ کیا اور وہاں پہلے اپنے چچا کے معاون کے طور پر کام کیا، اور بعد ازاں عہد ساز موسیقار ایس ڈی برمن کے زیرِ تربیت رہے، جنہوں نے ان کی صلاحیت کو پہچان لیا۔

مناڈے کی شادی سلوچنا کمارن سے ہوئی، جو کیرالہ سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کی دو بیٹیاں ہوئیں۔ مناڈے اپنی بیوی کو اپنی موسیقی کے لیے سب سے بڑی تحریک قرار دیتے تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ’وہ میری زندگی کی سب کچھ تھیں۔  میں ہمیشہ اپنے پیشے سے متعلق فیصلوں میں، بلکہ ذاتی معاملات میں بھی، ان سے مشورہ کرتا تھا۔‘

یکم مئی 1919 کو کلکتہ میں پیدا ہونے والے مناڈے یوں تو کلاسیکی موسیقی میں گہرا درک رکھتے تھے بلکہ یہ ان کا جنون بھی تھا۔ (فوٹو: فیس بک)یہ بالی وڈ کی ایک ایسی امر پریم کہانی ہے جس کا شاذ ہی ذکر کیا جاتا ہے۔ مناڈے  کی خودنوشت سوانح عمری ’یادیں جی اُٹھیں‘ اُن کے لازوال گانوں کی طرح دل کو چھو لینے والی کتاب ہے۔ اس میں انہوں نے اپنی بیوی کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں کھل کر اعترافات کیے ہیں، ایک ایسا رشتہ جو محبت، رومان، جدائی کے طویل عرصوں اور اداسی سے بھرا ہوا تھا۔

ان دونوں کی پہلی ملاقات مئی 1948 میں ممبئی میں انڈین کلچرل لیگ کے زیرِ اہتمام منعقدہ رابندر سنگیت کے ایک پروگرام میں ہوئی، جہاں مناڈے کو رابندرناتھ ٹیگور کے چند گیت موسیقی کے طالب علموں کو سکھانے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔

مناڈے اور سلوچنا نے اس موقع پر ایک بنگالی دوگانا گایا جس کا مطلب تھا، ’میں نے اپنی روح تمہاری روح سے باندھ دی ہے۔‘ ان دونوں کے درمیان دوستی اور پھر محبت دراصل اس گیت کی عملی تفسیر تھی۔

ان دونوں کی شادی 18 دسمبر 1953 کو بنگلورو میں ایک نجی تقریب میں ہوئی، جس میں صرف قریبی رشتے دار اور دوست ہی مدعو کیے گئے تھے۔

مناڈے نے اس بارے میں لکھا تھا کہ ’میں کسی قسم کی جھجک کے بغیر یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ شادی کے بعد میں نے جتنے بھی محبت بھرے گانے گائے، وہ سب اُس (سلوچنا) کے نام کیے۔‘

ان دنوں ہی ایک دلچسپ واقعہ یہ پیش آیا کہ مناڈے کو ایک ملیالم فلم میں گانے کی پیشکش ہوئی جو انہوں نے قبول نہ کرنے کا فیصلہ کیا کیوں کہ انہیں احساس ہوا کہ ان کا ملیالم لہجہ ’ناقابلِ برداشت حد تک خراب‘ ہے۔

راج کپور بھی مناڈے کے فنِ گائیکی کے مداح تھے۔ (فوٹو: فیس بک)مگر ان کی بیوی سلوچنا، جو کَنّور (کیرالہ) سے تعلق رکھتی تھیں، نے انہیں ایک ہفتے میں ملیالم کی تیاری کروائی تاکہ وہ ان کی مادری زبان میں اعتماد کے ساتھ گیت گا سکیں۔ یہ نغمہ لیجنڈ موسیقار سلیل چودھری نے کمپوز کیا تھا۔

مناڈے اپنی خودنوشت میں لکھتے ہیں کہ ’مجھے ملیالم میں گانا گانے کے حوالے سے بہت زیادہ تحفظات تھے۔ میں نے اس کے باوجود سوچا کہ ایک بار کوشش کر لوں۔ میرا لہجہ اتنا برا تھا کہ میری بیٹیاں ہنس پڑیں، اور میں نے سوچا بہتر ہے میں یہ گانا ہی نہ گاؤں۔‘

تاہم، ملیالم بولنے والے اگرچہ آج بھی ان کے تلفظ میں خامیاں نکالتے ہیں، یہ گانا زبردست کامیاب ہوا اور وقت کے ساتھ ایک کلاسیکی گیت بن گیا، جس نے دلوں کو چھو لیا۔ اس گیت پر مناڈے کو بہترین گلوکار اور سلیل چوہدری کو بہترین موسیقار کا ایوارڈ ملا۔

گلوکار نے یہ گیت اپنی بیوی سلوچنا کے نام کیا، جن کے بارے میں وہ اکثر یہ کہا کرتے تھے کہ ’وہ بمبئی کی کانٹوں بھری فلمی دنیا میں میرے لیے واحد نخلستان تھیں۔‘

یہ تو تھی مناڈے کی پریم کہانی کا کچھ ذکر۔ ان کے فنی سفر پر بات کی جائے تو مناڈے کی پہچان ایسے گیت تھے جو مشکل اور کلاسیکی رنگ لیے ہوئے ہوتے خاص طور پر وہ گیت جو ان کے ہم عصر گلوکاروں کے لیے گانا مشکل خیال کیا جاتا تھا۔ یہ ان کی خوبی تھی مگر بدقسمتی سے ان کی یہ خوبی ہی ان کی راہ کا سب سے بڑا کانٹا بن گئی اور وہ مخصوص طرز کے گیت گانے والے گلوکار بن گئے۔

محمد رفیع، مکیش اور کشور کمار کی آواز کو فلمی ہیروز کے لیے موزوں خیال کیا گیا، اور وہ مخصوص سٹارز (یا بعض اوقات کئی ایک) سے منسلک ہو گئے، مگر مناڈے کو شاذ ہی ایسے مواقع ملے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ بے مثل موسیقار انیل بسواس نے یہ اعتراف کیا تھا کہ ’مناڈے ان تینوں میں سے کسی کا بھی گانا بخوبی گا سکتے تھے، مگر ان میں سے کوئی بھی ان کا گانا نہیں گا سکتا تھا۔‘

محمد رفیع، مکیش اور کشور کمار کی آواز کو فلمی ہیروز کے لیے موزوں خیال کیا گیا۔ (فوٹو: فیس بک)یہ بہرحال کسی ایسے گلوکار کی صلاحیتوں کا منصفانہ استعمال ہرگز نہیں تھا، جس نے اُس واحد فلم کے لیے گیت گایا تھا جو موہن داس کرم چند گاندھی نے دیکھی یعنی سال 1943 میں ریلیز ہونے والی فلم ’رام راجیہ‘۔ وہ ایک ایسے گلوکار تھے جن کے بارے میں ان کے ہم عصر محمد رفیع نے بڑے دل کے ساتھ یہ اعتراف کیا تھا کہ ’دنیا میرے گانے سنتی ہے، اور میں مناڈے کے گیت سماعت کرتا ہوں۔‘ اور ان کے ہی ایک گیت ‘قسمے وعدے‘ نے سُروں کی دیوی لتا کو رُلا دیا تھا۔

بالی وڈ نے اگرچہ مناڈے کو نظرانداز کیا مگر فلم انڈسٹری میں ان کے فن کے قدردان بھی موجود تھے جن میں شنکر جے کشن نمایاں ہیں جو اکثر ان کا انتخاب کیا کرتے۔

ایک بار تو یوں ہوا کہ موسیقاروں کی اس بے مثل جوڑی نے جنوبی انڈیا کے ایک بڑے فلم پروڈیوسر ایل بی لچھمن کی ناراضی مول لے لی کیوں کہ انہوں نے مکیش کی بجائے مناڈے کو منتخب کیا۔ پروڈیوسر اس پر اس قدر سیخ پا ہوئے کہ انہوں نے مناڈے کو کھری کھری سنا دیں اور کہا کہ ’ریکارڈنگ منسوخ کر دی گئی ہے، تم گھر جا سکتے ہو۔‘

ذکر ہو رہا ہے فلم ’چوری چوری‘ کا جس میں راج کپور اور نرگس نے مرکزی ادا کیے۔ راج کپور بھی مناڈے کے فنِ گائیکی کے مداح تھے تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے کہ یہ گیت صرف مناڈے ہی گائیں گے، پروڈیوسر سے اپنی بات منوا ہی لی۔ یوں دو لازوال گیت ’آجا صنم‘ اور ’یہ رات بھیگی بھیگی‘ تخلیق ہوئے جن کی غیرمعمولی شہرت کو وقت بھی شکست نہیں دے سکا۔ یہ فلم ریلیز ہوئی اور گیت کامیاب ہوئے تو پروڈیوسر کو بھی اپنی غلطی کا احساس ہو گیا۔

اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ میں چھپنے والے ایک مضمون کے مطابق  ’راج کپور مناڈے کی صلاحیتوں کا ادراک رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنی فلم ’شری 420‘ کے گیتوں ’دل کا حال سنے دل والا‘، ’مُڑ مُڑ کے نہ دیکھ‘ اور اپنی شاہکار فلم ’میرا نام جوکر‘ کے گیت ’اے بھائی ذرا دیکھ کے چلو‘ میں ان کی آواز کا بہترین انداز میں استعمال کیا۔‘

کچھ عرصہ بعد جب راجیش کھنہ سپرسٹار کے طور پر ابھرے تو وہ گیت ’زندگی کیسی ہے پہیلی‘ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اصرار کیا کہ یہ گیت پسِ منظر کی دھن کی بجائے اُن پر فلمایا جائے اور ان کی یہ فرمائش رَد نہیں ہوئی۔

مناڈے کے گیتوں کے انتخاب سے یہ اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں رہتا کہ وہ ہر گیت کے لیے بہت زیادہ تیاری کیا کرتے تھے۔ یہ ان کا بڑا پن ہی تھا کہ وہ اکثر اپنی کامیابی کا سہرا شنکرجے کشور کے سر باندھتے جنہوں نے ان کی فن پر دسترس اور فنی صلاحیت کو بخوبی سمجھا۔

مناڈے اپنی خودنوشت میں لکھتے ہیں:’میں خاص طور پر شنکر جی کا شکر گزار ہوں، کیوں کہ اگر ان کی سرپرستی حاصل نہ ہوتی تو میں اپنی فنی زندگی میں وہ بلندی کبھی حاصل نہ کر پاتا جس سے میں لطف اندوز ہوا۔ وہ واحد شخص تھے جو جانتے تھے کہ میری بہترین صلاحیتوں کا استعمال کس طرح کیا جا سکتا ہے۔ وہ دراصل ایسے پہلے موسیقار تھے جنہوں نے میری آواز میں رومانی گیت گوانے کی جرأت کی۔‘

Captionمناڈے نے اداکار پران کے لیے بھی کئی یادگار گیت گائے، جیسے فلم ’اُپکار‘ کا گیت ‘قسمے وعدے پیار وفا‘ یا فلم ’زنجیر‘کا گیت ’یارِی ہے ایمان میرا۔‘ ان گیتوں نے پران کے فلمی کیریئر کو ایک نئی جہت دی، اور یوں انہوں نے کامیابی کے ساتھ منفی سے مثبت کرداروں کا رُخ کیا۔

مناڈے نے اپنے ایک انٹرویو میں صاف گوئی سے کہا تھا کہ ’مجھے اکثر وہی گیت گانے کے لیے چُنا جاتا تھا جو دوسرے نہیں گاتے تھے۔ میرا خیال ہے کہ موسیقی کے میدان میں مہان فنکار موجود تھے۔ جو بھی گانا مجھے ملتا، وہ میرے لیے بے حد اہم ہوتا۔ میں اگر ذرا سی بھی کمزور کارکردگی دکھاتا تو فوراً میری جگہ کوئی دوسرا لے لیتا۔ اس لیے قدرتی طور پر مجھے اپنی بہترین صلاحیتوں کا اظہار کرنا پڑتا تھا۔ میں نے جو بھی گانا گایا، اُس میں کہیں بھی، کسی لمحے، ذرا سا بھی سمجھوتہ نہیں کیا۔‘

مناڈے کو ہمیشہ یہ دُکھ رہا کہ ان کے گیت فلم کے عمر رسیدہ کرداروں پر فلمائے جاتے تھے۔ انہوں نے ماضی کے پنوں کو پلٹتے ہوئے کہا تھا کہ ’وہ بمل رائے کی فلم ’پری نیتا‘ میں گانا ملنے پر بہت زیادہ خوش ہوئے تھے مگر جب فلم دیکھی تو پھر وہی ہوا، گانا ایک بوڑھے آدمی پر فلمایا گیا تھا۔‘

ایسا ہی کچھ راج کپور کی فلم ’بوٹ پالش‘ میں ہوا جس کے ایک گیت کے لیے راج کپور نے مناڈے کا انتخاب کیا۔ گلوکار نے جب فلم دیکھی تو وہ ایک بوڑھے کردار ڈیوڈ کے لیے پسِ پردہ گائیکی کر رہے تھے۔

مناڈے نے اس کے باوجود بارہا یہ ثابت کیا کہ وہ راک اینڈ رال گیت ’آؤ چلو ٹوِسٹ کریں‘ یا پھر کلاسیکی آہنگ لیے گیت ’آیو کہاں سے گھنشام‘ گا کر یکساں خوشی محسوس کیا کرتے۔ مگر فلمی صنعت ہمیشہ انہیں ایک مخصوص خول میں بند رکھنے کی کوشش کرتی رہی جس میں سے نکلنے کی انہوں نے بارہا کوشش کی۔

انہوں نے جب بے مثل ہدایت کار بمل رائے کی فلم ’کابلی والا‘کے لیے ’اے میرے پیارے وطن‘ گایا، تو انہیں یاد ہے کہ ساؤنڈ ریکارڈسٹ نے شکایت کی:

’اوئے منّا، آج تیری آواز تو پھس ہے، کوئی دم ہی نہیں! کیا ہو گیا ہے؟‘

مزید پڑھیںسنہ 2025 کی وہ بالی وُڈ فلمیں جن کا شائقین کو بے تابی سے انتظار ہےNode ID: 896006عالیہ بھٹ کی پانچ ٹاپ ریٹڈ فلمیں کون سی ہیں؟Node ID: 896007’قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے!‘ دنگل گرل زائرہ وسیم شادی کے بندھن میں بندھ گئیںNode ID: 896022اس وقت سب لوگ یہ توقع کر رہے تھے کہ وہ اپنے چچا کی طرح بھرپور، گونج دار آواز میں گائیں۔ مگر بمل رائے کو وضاحت کرنا پڑی کہ کابلی والا ایک ایسا شخص ہے جو شاید درجن بھر لوگوں کے ساتھ ایک ہی کمرے میں رہتا ہے، اس کا گانا دراصل ’گانا‘ نہیں بلکہ ’گنگنانا‘ ہے۔

’کابلی والا‘ کے بعد مناڈے کی آواز اگرچہ ہمیشہ کے لیے بلراج ساہنی کے کردار سے جُڑ گئی، مگر بہت سے ہیرو اُن کے ساتھ کام کرنے سے ہچکچاتے تھے، کیوں کہ ان کا خیال تھا کہ ان کی آواز عمر رسیدہ کرداروں پر ہی جچتی ہے۔

بلراج ساہنی کا ذکر ہوا تو مناڈے کا شہرہ آفاق گیت ’اے میری زہرہ جبیں‘ بھی ان پر ہی پکچرائز ہوا تھا جس کا بعد میں ری میک بھی بنا اور یوں مناڈے کا نوجوان نسل سے تعارف ہوا۔ ان کو بہرحال ہمیشہ یہ افسوس رہا کہ ان کو اس گیت پر کوئی ایوارڈ نہیں ملا۔

مناڈے نے ایک بار کہا تھا کہ ’ہیروز جیسے دلیپ کمار ہمیشہ طلعت محمود کو چاہتے تھے۔ راجیش کھنہ کشور کمار کے لیے کہتے، اور شمی کپور کو رفیع ہی چاہیے ہوتے۔ تو پھر میرا نمبر کب آتا؟‘۔

میوزک لیبل ایچ ایم وی (HMV) نے جب ہری ونش رائے بچن کی مشہور نظم ’مدھو شالا‘ ریکارڈ کرنی چاہی، تو وہ پہلے محمد رفیع کو لینا چاہتے تھے۔ مگر بچن صاحب کو لگا کہ پنجابی رفیع سب الفاظ صحیح تلفظ سے ادا نہیں کر سکیں گے۔ پھر مکیش کا خیال آیا، مگر موسیقار اس کے حق میں نہیں تھے۔ بچن صاحب کو بالآخر یاد آیا کہ وہ جب پہلی بار بمبئی آئے تھے اور جوہو میں ایک کرایے کے چھوٹے سے مکان میں رہتے تھے، تو مناڈے ان کے پڑوس میں رہتے تھے۔ وہ صبح کی سیر پر نکلتے وقت اکثر ان کے دروازے کے پاس آ کر رُک جاتے اور ان کو ریاضت کرتا دیکھتے۔

محمد رفیع، لتا منگیش اور مناڈے نے مشہور دو گانے گائے۔ (فوٹو: فیس بک)چناںچہ ان کی فرمائش پر ہی مناڈے کا انتخاب ہوا جس پر گلوکار نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’سب کچھ مجھے ملا، مگر تھوڑا دیر سے۔ ایک لحاظ سے یہ اچھا ہی ہوا، اس طرح مجھے اس کے لیے محنت کرنی پڑی۔‘

مناڈے نے محمد رفیع، لتا منگیشکر، آشا بھوسلے اور کشور کمار کے ساتھ بے شمار مقبول دوگانے  ریکارڈ کروائے۔ انہوں نے اپنے کیریئر کے مقبول اور یادگار ترین گیت معروف موسیقاروں ایس ڈی برمن، آر ڈی برمن، شنکر جے کشن، انیل بسواس، روشن، سلیل چودھری، مدن موہن اور این سی رام چندر کے ساتھ گائے۔

ان کی مدھر، دل کو چھو لینے والی آواز نے دنیا بھر کے سامعین کو مسحور کیا، اور ان کے فن کے اعتراف میں انہیں کئی بڑے اعزازات سے نوازا گیا، جن میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ، پدم شری اور پدم بھوشن شامل ہیں۔

یہ بے مثل گلوکار آج ہی کے روز 24 اکتوبر 2013 کو چل بسا۔ انہوں نے ایک طویل اور بھرپور فنی زندگی گزاری اور بالی وڈ کو کئی زندہ رہ جانے والے گیت دیے جو گانا شاید کسی دوسرے گلوکار کے لیے ممکن ہی نہ تھا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More