Getty Images
انڈیا کی ریاست مہاراشٹر کے ستارہ ضلع میں ایک خاتون ڈاکٹر نے خودکشی سے قبل اپنی ہتھیلی پر لکھے مبینہ آحری بیان میں خاتون نے ایک پولیس افسر سمیت اور ایک اور شخص پر جنسی طور پر ہراساں کرنے سمیت کئی سنگین الزامات لگائے ہیں۔
اس واقعے سے ستارہ ضلع میں ہلچل مچ گئی ہے اور پولیس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔
پولیس کی جانب سے خاتون ڈاکٹر کی خودکُشی کے بعد پرشانت بنکر نامی ایک ملزم کو پونے سے گرفتار کرنے کا دعویٰ تو کیا گیا ہے مگر اُن کا کہنا ہے کہ ایک ملزم ابھی تک مفرور ہے۔
پھلٹن پولیس نے بتایا کہ ملزم کو عدالت میں پیش کیا گیا جہاں سے اسے 28 اکتوبر تک چار روزہ کے لیے پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا ہے۔
معاملہ ہے کیا؟
گذشتہ جمعرات کو ایک خاتون ڈاکٹر نے ریاست مہاراشٹر کے ضلع ستارہ کے علاقےفلٹن کے ایک ہوٹل میں خودکشی کر لی تھی۔ بتایا جا رہا ہے کہ خاتون ڈاکٹر کے بائیں ہاتھ پر ہندی زبان میں ایک تحریر لکھی ہوئی ہے کہ جس میںمبینہ طور پر ایک پولیس افسر سمیت ایک اور شخص کا نام درج ہے۔
خاتون ڈاکٹر نے مبینہ طور پر اپنے بائیں ہاتھ پر لکھی ہندی تحریر میں یہ الزام لگایا ہے کہ ایک پولیس اہلکار نے چار مرتبہ اُن کا ریپ کیا جبکہ دوسرے شخص نے انھیں جسمانی اور ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا۔
خاتون کے بھائی نے دعویٰ کیا ہے کہ ’خاتون ڈاکٹر پر جھوٹی پوسٹ مارٹم رپورٹ تیار کرنے کے لیے پولیس اور سیاسی دونوں حلقوں کی جانب سے شدید دباؤ تھا۔‘
خاتون کے رشتہ داروں نے یہ بھی الزام لگایا ہے کہ انھیں ایم پی کے پرسنل اسسٹنٹ کی طرف سے اس طرح کی جھوٹی رپورٹیں تیار کرنے کے لیے کال موصول ہوئی تھیں۔
اس حوالے سے میڈیا سے بات کرتے ہوئے خاتون ڈاکٹر کے بھائی کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ ایک سال سے ان پر سیاست دانوں اور پولیس کی جانب سے جھوٹی پوسٹ مارٹم رپورٹ تیار کرنے کے لیے بہت دباؤ ڈالا جا رہا تھا، انھوں نے اپنی بہن کو اس بارے میں بار بار بتایا۔‘
’لیکن میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا میری بہن پر دباؤ اس قدر ہے کو وہ یہ انتہائی قدم بھی اُٹھا سکتی ہے،اُس نے اس سب سے تھک کر خودکشی ہی کر لی۔‘
بھائی نے مزید کہا کہ ’میری بہن کے ہاتھ پر ان لوگوں کے نام بھی لکھے ہیں جنھوں نے اسے ہراساں کیا، اس نے گزشتہ دو سالوں سے اس حوالے سے ڈی ایس پی اور ایس پی کو شکایتی خطوط بھی لکھے تھے۔‘
’محکمہ پولیس کے دفاتر میں میری بہن کے پہنچنے والے خطوط کی نقل و حرکت کا ریکارڈ بھی ہے۔ تاہم ان کی شکایت پر آج تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ میری بہن نے اپنی درخواستوں سے متعلق یہ جاننے کی کوشش کی کہ اب تک اُن پر کیا کارروائی ہوئی ہے لیکن کسی نے کوئی جواب نہیں دیا۔‘
سو سے زیادہ لاشیں، قتل کی دھمکی اور ریپ کے بعد تدفین: انڈیا میں کئی سال بعد سامنے آنے والا مقدمہ جو ایک معمہ بنتا جا رہا ہےانڈیا کے ایک مندر میں ’ریپ کے بعد قتل ہونے والی 100 سے زیادہ لڑکیوں کو دفن کرنے والا‘ شخص گرفتارانڈیا میں دلت طالبہ کو ’پانچ سال میں 64 آدمیوں نے گینگ ریپ کیا‘، 28 ملزمان گرفتار’ڈیجیٹل ریپ‘ کیا ہے اور انڈیا میں اسے روکنے کے لیے قوانین میں تبدیلی کی ضرورت کیوں پڑی؟ BBCخاتون ڈاکٹر کے ہاتھ پر لکھا خودکشی کا نوٹوزیراعلیٰ نے نے کہا ہے کہ قانون کی گرفت سے کوئی نہیں بچے گا
مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڑنویس نے اسے انتہائی سنگین اور افسوسناک واقعہ قرار دیا ہے۔
وزیر اعلیٰ نے ممبئی میں صحافیوں کی جانب سے اس معاملے سے متعلق سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’حکومت نے متعلقہ پولیس افسر کو فوری طور پر معطل کر کے اُن کی گرفتاری عمل میں لائی جا چُکی ہے۔ جو بھی اس معاملے میں ملوث پایا جائے گا اسے سخت ترین سزا دی جائے گی۔‘
اس دوران انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’اپوزیشن اس معاملے پر سیاست کرنے کی کوشش کر رہی ہے جو نہیں ہونا چاہیے اور ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔‘
خاتون ڈاکٹی کی خودکُشی سے قبل پولیس نے کارروائی کیوں نہیں کی؟
پولیس کا کہنا ہے کہ خاتون ڈاکٹر نے جن دو افراد کے نام اپنے سوسائڈ نوٹ میں لکھے ہیں ان میں سے ایک کو تو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ دوسرا مفرور ہے۔
ستارہ کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس تشار دوشی نے کہا کہ ’وہ پولیس افسر جن پر خاتون ڈاکٹر نے چار بار ریپ کا الزام لگایا ہے کو معطل کر دیا گیا ہے۔‘
پولیس کا کہنا ہے کہ ’دونوں ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر کے تفتیش جاری ہے۔‘
سپرنٹنڈنٹ آف پولیس تشار دوشی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مقدمہ جمعے کی صبح درج کیا گیا تھا۔ خاتون ڈاکٹر نے اپنے ہاتھ پر دو نام لکھے ہوئے تھے۔ اس میں پولیس سب انسپکٹر اور ایک اور شخص کا ذکر ہے۔‘
اپنی جان لینے والی خاتون ڈاکٹر نے ملزم پر جسمانی اور ذہنی تشدد کے ساتھ ریپ کا الزام بھی لگایا ہے۔
پولیس کے مطابق ’دو دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے جن میں ریپ اور خودکشی کے لیے اکسانے کی دفعات شامل ہیں۔ ملزم کی گرفتاری کے لیے ایک ٹیم بھیجی گئی ہے۔ چونکہ سب انسپکٹر کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے اس لیے انھیں فوری طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔‘
پولیس انتظامیہ سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا خاتون ڈاکٹر نے خودکُشی سے قبل شکایت کی تھی کہ ان پر جعلی پوسٹ مارٹم رپورٹ تیار کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے؟
اس سوال کے جواب میں پولیس حکام کا کہنا تھا کہ ’خاتون نے اس وقت کے ایس ڈی پی او کو اس معاملے کی شکایت کی تھی جس کے بعد انھوں نے اس کے خلاف ڈسٹرکٹ سرجن کے پاس شکایت درج کرائی۔ یہ دونوں شکایتیں ایک دوسرے کے خلاف درج کی گئی تھیں۔‘
اہل خانہ کا الزام ہے کہ خاتون ڈاکٹر پر رکن اسمبلی کے پی اے کی جانب سے بھی دباؤ ڈالا جا رہا تھا۔
تو کیا اب اس معاملے کی تفتیش بھی ابپولیس سیاسی دباؤ کی وجہ سے کر رہی ہے؟ اس سوال کے جواب میں پولیس سپرنٹنڈنٹ تشار دوشی نے کہا کہ ’فی الحال، یہ ایک غیر فطری موت معلوم ہوتی ہے پہلی نظر میں یہ خودکشی لگتی ہے۔‘
’پہلے یہ ثابت کرنا ہو گا کہ یہ خودکشی تھی اس کے بعد خودکشی کی وجہ معلوم کرنی ہو گی۔ خاتون نے اس میں کیا لکھا ہے، اس نے پہلے کس سے بات کی تھی، ان سب کی تحقیقات کی جائیں گی۔‘
’شکایات کے باوجود کوئی توجہ نہیں دی گئی‘
خاتون ڈاکٹر نے مبینہ طور پر اپنے مسائل کے بارے میں بار بار تحریری اور زبانی شکایات کی تھیں۔ ان کے چچا اور بھائی نے میڈیا کو بتایا کہ ان کی شکایات کو نظر انداز کیا گیا۔
خاتون ڈاکٹر نے 19 جون 2025 کو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس، پھلٹن کو ایک رسمی خط لکھا تھا جس میں اس واقعے کی شکایت کی گئی تھی۔
خاتون ڈاکٹر نے لکھا کہ ’وہ مجھ پر بار بار دباؤ ڈالتے ہیں کہ وہ رپورٹ کریں کہ مریض (ملزم) فٹ ہے جبکہ وہ فٹ نہیں ہے اور وہ نازیبا زبان کا بھی استعمال کرتے ہیں۔ جب میں نے پولیس انسپکٹر کو فون پر اس بارے میں بتایا تو انھوں نے مبہم جواب دیتے ہوئے کہا کہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں۔‘
جب اس شکایت پر کوئی توجہ نہیں دی گئی تو خاتون ڈاکٹر نے 13 اگست کو ایک درخواست معلومات تک رسائی کے ایکٹ یعنی رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ کے تحت بھی درج کرائی۔
خاتون ڈاکٹر نے اس آر ٹی آئی کے ذریعے اپنی شکایت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔ تاہم ان کے بھائی نے کہا کہ آر ٹی آئی کا بھی کوئی جواب نہیں ملا۔
اس کے بعد ایک اور خط میں خاتون نے اپنی شکایات کو تفصیل سے بیان کیا تھا۔
Getty Imagesاین سی پی (شرد پوار) کی رکن پارلیمنٹ سپریہ سولے نے پوچھا ہے کہ خاتون کی شکایت پر پہلے کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔
نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (شرد چندر پوار) کی رکن پارلیمنٹ سپریہ سولے نے اس سلسلے میں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کی۔
انھوں نے اس میں لکھا کہ ’خاتون ڈاکٹر کی خودکشی کا معاملہ انتہائی سنگین ہے۔ ان خاتون کی جانب سے لکھے گئے سوسائڈ نوٹ میں انھوں نے اپنے اعلیٰ افسران کو بارہا بتایا تھا کہ انھیں گذشتہ کچھ دنوں سے جسمانی اور ذہنی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا۔ لیکن اُن کی شکایت پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور بالآخر وہ یہ جنگ ہار گئی اور انھوں نے یہ انتہائی قدم اٹھایا۔‘
سپریا سولے نے سوال کیا کہ خاتون کی شکایت پر پہلے کیوں توجہ نہیں دی گئی۔ انھوں نے کہا کہ ان تمام سوالوں کا جواب ملنا چاہیے۔
تاہم ریاستی خواتین کمیشن کی سربراہ روپالی چاکنکر نے اس سلسلے میں معلومات دیتے ہوئے ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ریاستی خواتین کمیشن نے اس کا نوٹس لیا ہے۔ فی الحال اس معاملے میں پھلٹن سٹی پولیس نے تعزیرات ہند کی دفعہ 64 (2)، 108 کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔ ایک ٹیم مفرور ملزم کو گرفتار کرنے گئی ہے۔‘
روپالی چاکنکر نے کہا کہ ’کمیشن نے پولیس کو یہ بھی ہدایت دی ہے کہ وہ اس بات کی تحقیقات کرے کہ اگر خاتون نے پہلے ہی ہراساں کیے جانے کی شکایت کی تھی تو ان کی مدد کیوں نہیں کی گئی اور یہ کہ اب کسی کے لیے کوئی ریاعت نہیں دی جانی چاہیے، اس معاملے میں ملوث تمام لوگوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائیکی جانی چاہیے۔‘
’ڈیجیٹل ریپ‘ کیا ہے اور انڈیا میں اسے روکنے کے لیے قوانین میں تبدیلی کی ضرورت کیوں پڑی؟ سو سے زیادہ لاشیں، قتل کی دھمکی اور ریپ کے بعد تدفین: انڈیا میں کئی سال بعد سامنے آنے والا مقدمہ جو ایک معمہ بنتا جا رہا ہےانڈیا کے ایک مندر میں ’ریپ کے بعد قتل ہونے والی 100 سے زیادہ لڑکیوں کو دفن کرنے والا‘ شخص گرفتارانڈیا میں دلت طالبہ کو ’پانچ سال میں 64 آدمیوں نے گینگ ریپ کیا‘، 28 ملزمان گرفتار’ڈیجیٹل ریپ‘ کیا ہے اور انڈیا میں اسے روکنے کے لیے قوانین میں تبدیلی کی ضرورت کیوں پڑی؟