Getty Images
آجبھی بہت سے لوگ اپنے دن کا آغاز ستاروں کا حال اور زائچہ پڑھ کر کرتے ہیں لیکن دوسری طرف بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو علم نجومپر بالکل یقین نہیں رکھتے ہیں۔
انسان طویل عرصے سے چاند اور ستاروں کی حرکات کو سمجھنے میں دلچسپی رکھتا ہے۔ یہ سلسلہ اتنا ہی قدیم ہے جتنی انسانی تہذیب۔
ہندوستان پر طویل عرصے تک حکومت کرنے والے مغل بادشاہ بھی علم نجوم پر ناصرف یقین رکھتے تھے بلکہ اپنے اہم کام نجومیوں سے مشورہ لے کر ہی کرتے تھے۔
بہت سے مذاہب، جیسا کہ اسلام، علم نجوم سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں جیسا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق مستقبل کے بارے میں صرف خدا ہی بہتر جانتا ہے۔
حال ہی میں مشہور صحافی ایم جے اکبر کی ایک کتاب ’آفٹر می کیوس، ایسٹرالوجی ان دی مغل ایمپائر‘ شائع ہوئی ہے، جس میں انھوں نے علم نجوم کے حوالے سے ہر مغل بادشاہ کے خیالات کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔
ایم جے اکبر بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ ’وہ ہمایوں ہوں، اکبر ہوں، جہانگیر ہوں یا اورنگزیب، ان سب کا علم نجوم پر بہت زیادہ اعتماد تھا۔ اکبر کے زمانے میں نجومی دربار کا باقاعدہ حصہ تھے۔ حتیٰ کہ اورنگ زیب بھی ہر اہم معاملے پر نجومیوں سے باقاعدگی سے مشورے لیتے تھے۔‘
مؤرخ اور مصنف بینسن بوبرک نے اپنی کتاب ’خلیفہ کی شان‘ میں لکھا ہے کہ ’بغداد شہر کا سنگ بنیاد ابو جعفر المنصور نے 31 جولائی 762 کو دوپہر 2 بج کر 40 منٹ پر رکھا تھا، کیونکہ یہ ایک مبارک وقت تھا۔‘
مؤرخ پروفیسر محمد مجیب اپنی کتاب ’دی انڈین مسلم‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت سے بہت پہلے، پوری دنیا کے مسلمان معجزات، قیمتی پتھروں کی پراسرار خصوصیات اور شگون پر یقین کرنے لگے تھے۔ ہندوستان میں علم نجوم کو ایک سائنس سمجھا جاتا تھا اور مسلمان بھی اس پر یقین رکھتے تھے۔‘
قرون وسطیٰ کے مورخ ضیاء الدین بارانی نے بھی ’تاریخ فیروزشاہی‘ میں لکھا ہے کہ ’کسی بھی معزز خاندان میں کوئی بھی رسم یا اہم کام کسی نجومی کے مشورے کے بغیر انجام نہیں دیا جاتا تھا۔ نتیجتاً ہر گلی کوچے میں نجومی پائے جاتے تھے، جو ہندو اور مسلمان دونوں ہو سکتے تھے۔‘
اکبر کی پیدائش کو ملتوی کرنے کی کوششGetty Images
تیسرے مغل شہنشاہ اکبر کی 15 اکتوبر 1542 کو صبح 1:06 بجے پیدائش کی کہانی، مغل بادشاہوں کے علم نجوم پر یقین کی جھلک پیش کرتی ہے۔
جب ہندوستان کے شہنشاہ ہمایوں کو شیر شاہ نے شکست دی اور سندھ کے صحرا میں بھگا دیا تو ایک راجپوت بادشاہ نے اُنھیں عمرکوٹ کے قلعے میں پناہ دی۔ ہمایوں کی اہلیہ حمیدہ بیگم اس وقت حاملہ تھیں۔
ایم جے اکبر بتاتے ہیں کہ ’جب حمیدہ کو زچگی ہوئی تو ہمایوں 30 میل دور ٹھٹھہ میں تھے، وہ اپنے ذاتی نجومی مولانا چاند کو اپنی بیوی کے پاس چھوڑ کر گئے تھے تاکہ نومولود کی پیدائش کا صحیح وقت ریکارڈ کیا جا سکے تاکہ اس کا زائچہ درست ہو، جب 14 اکتوبر کی رات آئی اور رانی حمیدہ بانو کی پیدائش کی تیاری شروعہوئی اور درد زہیعنی زچگی کا درد بڑھنے لگا تو مولانا چاند کی گھبراہٹ بڑھ گئی۔‘
شاہی نجومی کا خیال تھا کہ پیدائش مبارک وقت سے پہلے ہو رہی تھی۔ اور یہ کہ اگر پیدائش تھوڑی دیر بعد ہوتی ہے، تو یہ ستاروں کی ایک غیر معمولی سیدھہو گی جو ہزاروں سالوں میں صرف ایک بار ہوتی ہے۔ مولانا چاند نے دائیوں سے پوچھا کہ کیا پیدائش کو کچھ دیر کے لیے ملتوی کیا جا سکتا ہے؟
ڈیلیوری میں معاونت کے لیے مقرر کردہ خواتین نجومی کے مشورے پر دنگ رہ گئیں۔ انھوں نے کہا کہ فطرت کے قوانین خدائی احکامات ہیں اور ان معاملات میں انسان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔
ابوالفضل نے اکبرنامہ میں لکھا ہے کہ ’اچانک مولانا چاند کو ایک عجیب خیال آیا، اندھیری رات میں وہ ایک خوفناک چہرہ بنا کر ایک دائی کو حمیدہ بانو کے بستر کے قریب لے گئے اور ایک پتلے پردے سے انھیں اپنا خوفناک چہرہ دکھایا۔ انھیں اندھیرے میں دیکھ کر حمیدہ بانو گھبرا گئیں اور اُن کی درد زہ ختم ہو گئی اور وہ سو گئیں۔‘
اکبر نامہ میں لکھا ہے کہ ’اب مولانا چاند سوچتے تھے کہ اگر حمیدہ بانو مبارک وقت پر سوتی رہیں تو کیا ہو گا؟ وقت قریب آنے پر مولانا چاند نے حکم دیا کہ ملکہ کو فوراً بیدار کیا جائے، دائیوں نے سوئی ہوئی ملکہ کو پریشان کرنے کی ہمت نہ کی، تب ہی حمیدہ بیگم کی آنکھ کھلی اور بے ساختہ درد شروع ہو گیا۔‘
مولانا چاند نے اکبر کے زائچے کے ساتھ ہمایوں کو پیغام بھیجا کہ یہ لڑکا بہت دیر تک تخت پر بیٹھے گا۔
نجومیوں کے مشورے پر ہمایوں کی دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کی مہمGetty Images
22 نومبر 1542 کو حمیدہ بیگم نے نجومیوں کے مقرر کردہ وقت پر ہمایوں سے ملاقات کی۔ جب ہمایوں نے اکبر کو پہلی بار دیکھا تو اُن کی عمر 35 دن تھی۔ اکبر کی پرورش کا ہر قدم نجومی کے حساب پر مبنی تھا۔
ابوالفضل نے لکھا ہے کہ چاروں طرف غم کے ماحول کے درمیان ہمایوں کو پورا یقین تھا کہ ان کے بیٹے کے ساتھ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آئے گا کیونکہ وہ خدائی حفاظت میں تھا، اُن کا یہ یقین غلط ثابت نہیں ہوا اور ہمایوں کے جانے کے بعد، دشمنی کے باوجود، اُن کے بھائی عسکری نے اکبر کی دیکھ بھال کی۔
14 مارچ 1545 کو ہمایوں نے، نجومیوں کے مشورے سے، ایک اچھے وقت پر دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے لیے اپنی مہم شروع کی۔ تین ستمبر 1545 کو عسکری نے ہتھیار ڈال دیے۔ عسکری کی گردن پر تلوار رکھ کر بیرم خان کو ہمایوں کے سامنے لایا گیا۔ ہمایوں نے اپنے خاندان کے کہنے پر عسکری کی جان بخشی کی۔
اکبر کی رسمی تعلیم ملا اسلام الدین ابراہیم کی نگرانی میں اس وقت شروع ہوئی جب وہ چار سال، چار ماہ اور چار دن کے تھے۔ نجومیوں کے مشورے کے بعد ہمایوں نے ان کی تعلیم شروع کرنے کے لیے 20 نومبر 1547 کا انتخاب کیا۔ تاہم، یہ ’مبارک وقت‘ کام نہیں آیا، کیونکہ اکثر مؤرخین کا خیال ہے کہ اکبر نے پڑھنا لکھنا نہیں سیکھا۔
جب ہمایوں نے اپنی موت کی پیشن گوئی کی
ہمایوں کا خیال تھا کہ سات کا عدد اُن کا خوش قسمت نمبر ہے۔ ان کے کپڑوں کا رنگ دن کے برجوں سے میل کھاتا تھا۔ وہ اتوار کو پیلا اور پیر کو سبز لباس پہنتے تھے۔
ہمایوں کے آخری دنوں کے بارے میں ایم جے اکبر بتاتے ہیں کہ ’24 جنوری 1556 بروز جمعہ ہمایوں نے عرق گلاب کے ساتھ افیون پی لی۔ دوپہر کے وقت، ہمایوں نے اپنے قریب موجود افراد کو کہا کہ آج ایک عظیم شخص کو گہری چوٹ لگے گی اور وہ ہمشیہ کے لیے اس دنیا سے چلا جائے گا۔‘
شام کو ہمایوں کچھ ریاضی دانوں کو قلعے کی چھت پر لے گئے۔ انھیں بتایا گیا تھا کہ اس رات سیارہزہرہ اپنی پوری چمک پر ہو گا۔ وہ اسے اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے تھے۔ ہمایوں سیڑھیاں اتر رہے تھے کہ اُنھوں نے اذان سنی اور سجدے میں چلے گئے۔
ابوالفضل لکھتے ہیں کہ ’قلعے کی سیڑھیاں اُونچی تھیں جن کا پتھر پھسلن والا تھا، جب ہمایوں سجدے میں بیٹھے تو اُن کا پاؤں ان کے لباس میں پھنس گیا اور وہ پھسل کر سیڑھیوں سے نیچے گر گئے، ان کے ماتھے پر گہرا زخم آیا اور ان کے دائیں کان سے خون بہنے لگا، لیکن ابتدائی طور پر اعلان کیا گیا کہ یہ سنگین نہیں تھا۔‘
درباریوں نے یہ جان بوجھ کر کیا تھا تاکہ اگلے شہنشاہ کا باضابطہ اعلان کرنے کے لیے کچھ وقت مل سکے۔
ہمایوں نے 27 جنوری کو آخری سانس لی۔ ان کی وفات کے سترہ دن بعد 10 فروری 1556 کو ان کی موت کی خبر عوام کو سنائی گئی۔ اسی دن پہلا خطبہ ان کے بیٹے اکبر کے نام ہوا۔ امام غزنوی کی قیادت میں نجومیوں نے اکبر کی تاجپوشی کے لیے وقت کا انتخاب کیا۔
Getty Imagesاکبر کی جانب سے شاہی نجومی کی تقرری
اکبر نے نجومیوں کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے ہیمو کے خلاف جنگ شروع کی۔ جنگ کے دوران ہیمو کی آنکھ میں ایک تیر لگا اور ان کے سر سے گزر گیا۔ یہ دیکھ کر ہیمو کے سپاہی اپنی ہمت ہار گئے اور اکبر کی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔
نجومیوں نے میدان جنگ سے اکبر کی دہلی واپسی کا وقت بھی طے کیا۔ شہنشاہ کے طور پر، اکبر نے ’جوٹک رائے‘ یا نجومیوں کے بادشاہ کا نیا عہدہ بنایا۔
اکبر کے زمانے کے ایک مشہور نجومی عزدو الدولہ شیرازی نے پیشن گوئی کی تھی کہ ’اکبر ازدواجی اتحاد کے ذریعے اپنی طاقت کو مضبوط کرے گا۔‘
انڈیا کی درسی کتب سے مغل بادشاہوں کے ابواب حذف: ’تاریخ کا مطالعہ صرف حملہ آوروں کی فتوحات تک محدود نہیں رہ سکتا‘مغل کہاں جائیں؟ انڈیا میں نصاب کی کتاب سے اخراج کے بعد اب ذات کی فہرست سے بھی باہرہمایوں: اپنے بھائی کے قتل سے انکار کرنے والے مغل بادشاہ جن کی نرمی کا ان کے دشمنوں اور اپنوں نے ناجائز فائدہ اٹھایامغل بادشاہ اکبر جن کا انجام اُن کے ’دین الٰہی‘ کی طرح کچھ اچھا نہ ہوا
اکبر کے خزانے میں لباس کے ایک ہزار سیٹ تھے جن میں سے 120 ہمیشہ پہننے کے لیے تیار رکھے جاتے تھے۔ ہمایوں کی طرح اکبر نے بھی دن کے ستاروں کے رنگ کے مطابق لباس پہنا۔
ابوالفضل لکھتے ہیں کہ اکبر نے ہر جمعہ، اتوار، ہر شمسی مہینے کی پہلی تاریخ اور سورج اور چاند گرہن کے دنوں میں گوشت کھانا چھوڑ دیا تھا۔
جہانگیر اور اُن کی پوتی
اکبر کی طرح ان کا بیٹا جہانگیر بھی علم نجوم پر پختہ یقین رکھتا تھا۔ جہانگیر کی تعلیم 1573 میں شروع ہوئی، جب وہ چار سال، چار ماہ اور چار دن کے تھے۔
جہانگیر کی تاجپوشی کی تاریخ، 20 مارچ، 1606، کو بھی نجومیوں نے چنا تھا۔ ان کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے جہانگیر نے تین سال تک اپنے بیٹے خسرو کی بیٹی کا چہرہ نہیں دیکھا۔
جہانگیر نے اپنی سوانح عمری ’تزک جہانگیری‘ میں لکھا ہے کہ ’13 تاریخ کو میں نے اپنی پوتی، خسرو کی بیٹی کے لیے بھیجا، نجومیوں نے کہا کہ اس کی پیدائش اس کے والد کے لیے خوش آئند نہیں ہو گی، لیکن یہ دادا یعنی میرے لیے خوش آئند ہو گی۔ نجومیوں نے کہا کہ آپ اس بچی سے اُس وقت ملیں جب وہ تین برس کی ہو جائے۔ میں نے اُسے پہلی مرتبہ اُس وقت دیکھا، جب وہ تین برس کی ہو گئی۔‘
جہانگیر کے شاہی نجومی کا نام کیشو شرما تھا۔ اس نے پیشن گوئی کی کہ اس کے چار سالہ پوتے شاہ شجاع کی جان کو خطرہ ہے۔
جہانگیر نے لکھا کہ ’17 تاریخ بروز اتوار شاہ شجاع ایک کھڑکی کے پاس کھیل رہے تھے، اس دن کھڑکی بند نہیں تھی، کھیلتے ہوئے شہزادے نے کھڑکی سے باہر دیکھا اور اپنا توازن کھو بیٹھا اور سر کے بل گرا، وہ بے ہوش ہو گیا، یہ سنتے ہی میں سب کچھ چھوڑ کر نیچے بھاگا، میں نے بچے کو اپنے سینے سے لگایا جب تک کہ وہ ہوش میں نہ آیا۔‘
اورنگزیب نے اپنا زائچہ بھی بنوایا
جب شاہ جہاں 5 جنوری 1592 کو قلعہ لاہور میں پیدا ہوئے تو ان کے دادا اکبر تین دن بعد ان سے ملنے آئے۔ اکبر نے نومولود کا نام خرم رکھا کیونکہ نجومیوں نے مشورہ دیا تھا کہ بچے کا نام ’خ‘ سے شروع ہونا چاہیے۔
جہانگیر کے پوتے اور اکبر کے پڑپوتے اورنگزیب بھی زائچہ پر پختہ یقین رکھتے تھے۔ ان کے درباری نجومیوں نے ان کی تاجپوشی کا وقت مقرر کیا تھا۔
جادوناتھ سرکار اپنی کتاب ’دی ہسٹری آف اورنگزیب‘ میں لکھتے ہیں کہ ’نجومیوں نے پیشن گوئی کی تھی کہ اورنگزیب کی تاجپوشی کے لیے سب سے موزوں وقت 5 جون بروز اتوار طلوع آفتاب کے تین گھنٹے اور پندرہ منٹ بعد کا ہے، جیسے ہی صحیح وقت آیا، نجومیوں نے اشارہ کیا، اور شہنشاہ اورنگ زیب، جو پردے کے پیچھے بیٹھے تھے، تیار ہو کر باہر آئے۔‘
اورنگ زیب کے زمانے میں ہندوستان کا دورہ کرنے والے فرانسیسی سیاح François Bernier نے بھی اورنگزیب کے علم نجوم پر یقین کی تصدیق کی۔
برنیئر نے لکھا کہ ’نجومیوں کے مشورے پر، اورنگزیب 6 دسمبر 1664 کو سہ پہر تین بجے جنوب کی طرف روانہ ہوا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ طویل سفر کے لیے موزوں ترین وقت ہے۔‘
ایم جے اکبر کا کہنا ہے کہ ’اورنگزیب نے اپنے بیٹے کو بتایا کہ ان کے نجومی فضل احمد کے تیار کردہ ان کے زائچے میں اب تک کی ایک ایک چیز سچ نکلی ہے، یہ بھی میرے زائچے میں لکھا ہوا ہے کہ میری موت کے بعد کیا ہو گا۔‘
Getty Imagesجب نجومی کی پیشن گوئی غلط ثابت ہوئی
ایسا نہیں ہے کہ نجومیوں کی تمام پیشین گوئیاں درست ثابت ہوئیں، غلط پیشن گوئیاں ریکارڈ نہیں کی جاتی تھیں۔
ایسی ہی ایک غلط پیشن گوئی کی کہانی بابر کی بیٹی گلبدن بیگم سے متعلق ہے۔
اُنھوں نے اپنی کتاب ’ہمایوں نامہ‘ میں لکھا ہے کہ ’نجومی محمد شریف نے کہا کہ بابر کے لیے بہتر ہو گا کہ وہ خانوا کی جنگ میں نہ جائے کیونکہ ستارے ان کے حق میں نہیں تھے۔ یہ سن کر شاہی فوج میں بے چینی اور مایوسی پھیل گئی، لیکن بابر نے اس پیشن گوئی پر کوئی توجہ نہیں دی اور اپنے منصوبے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔‘
’بابر نے اپنی فوجیں جمع کیں اور کہا کہ آگرہ سے کابل واپس آنے میں کئی مہینے لگیں گے، اگر وہ اس جنگ میں مر گئے تو وہ شہید کہلائیں گے۔ اگر وہ زندہ رہے تو ان کی شہرت اور وقار میں اضافہ ہو گا۔‘
جنگ شروعہونے سے دو دن پہلے بابر نے شراب پینا چھوڑ دیا۔ پیشن گوئیوں کے برعکس، بابر نے یہ تاریخی جنگ جیت لی، رانا سانگا کو شکست دی اور ہندوستان میں مغل حکومت قائم کی۔ ہندوستانی تاریخ کی یہ پہلی جنگ تھی جس میں بارود کے استعمال نے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
بابر نے نجومی محمد شریف کو کوئی خاص سزا نہیں دی، لیکن اُنھیں اُن کے عہدے سے ہٹا کر کابل بھیج دیا گیا۔
مغل بادشاہ اکبر جن کا انجام اُن کے ’دین الٰہی‘ کی طرح کچھ اچھا نہ ہواکیا تقریباً نصف صدی تک ہندوستان پر حکمرانی کرنے والے مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر اصل میں ہندوؤں سے نفرت کرتے تھے؟کتنا رنگیلا تھا محمد شاہ رنگیلا؟جب جہانگیر کا بیش قیمت کرسمس تحفہ گدھ لے اڑا