Getty Images
پاکستان کے سمندری پانیوں میں تیل و گیس کی دریافت کے سلسلے میں دو دہائیوں بعد 53 ہزار 500 مربع کلومیٹر پر محیط 23 بلاکس کی کامیاب بولیاں موصول ہوئی ہیں۔
ملک کی پٹرولیم ڈویژن کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق وزیر اعظم شہباز شریف کے انرجی سکیورٹی اورمقامی ذخائر کی ڈیویلپمنٹ وژن کے عین مطابق 20 سال بعد پاکستان کے آف شور تیل و گیس ذخائر میں ’بڑی کامیابی ہوئی ہے۔‘
اعلامیے کے مطابق لائسنسز کے پہلے مرحلے میں اس دریافت کے لیے تقریباً 80 ملین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری ہو گی اور ڈرلنگ کے دوران یہ سرمایہ کاری ایک ارب امریکی ڈالر تک بڑھنے کا امکان ہے۔
پٹرولیم ڈویژن کے مطابق آف شور تیل و گیس کے 23 بلاکس کی کامیاب بولیاں موصول ہوئی ہیں۔ ’کامیاب بڈنگ راؤنڈ پاکستانی معیشت کے لیے بہترین ثابت ہو گا۔‘
’انڈس اور مکران بیسن میں بیک وقت ایکسپلوریشن کی سٹریٹیجی پاکستان کے لیے کامیاب رہی۔ کامیاب بولیاں تقریباً 53,510 مربع کلومیٹر کا رقبہ پر مشتمل ہیں۔‘
اعلامیے کے مطابق کامیاب بڈنگ راؤنڈ 'پاکستان کے اپ سٹریم سیکٹر میں ’سرمایہ کاروں کے مضبوط اعتماد کا ثبوت ہے۔‘
اعلامیہ میں کہا گیا ہے 'امریکی ادارے ڈیگلیور اینڈ میکناٹن نے حالیہ بیسن سٹڈی کے دوران پاکستان کے سمندری پانیوں میں 100 ٹریلین کیوبک فٹ کے ممکنہ ذخائر کا عندیہ دیا تھا، اسی ممکنہ پوٹینشل کی بنا پر آف شور راؤنڈ 2025 لانچ کیا گیا جس میں کامیابی ملی۔'
’اہم بین الاقوامی اور پرائیوٹ کمپنیاں پاکستان کے سمندر میں تیل و گیس کی دریافت کریں گے جن میں ترکی پیٹرولیم، یونائیٹڈ انرجی، اورینٹ پیٹرولیم، اور فاطمہ پیٹرولیم، بھی جوائنٹ وینچر شراکت دار کے طور پر شامل ہوئے ہیں۔‘
کامیاب بڈرز میں پاکستان کی معروف کمپنیاں او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل، ماری انرجیز اور پرائم انرجی بھی شامل ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پاکستان کا تین لاکھ مربع کلو میٹر آف شور زون عمان، متحدہ عرب امارات اور ایران کی حدود کے قریب واقع ہے۔ یہاں 1947 سے اب تک صرف 18 کنویں ڈریل کیے گئے ہیں جو ملک میں قدرتی ہائیڈرو کاربن ذخائر کا اندازہ لگانے کے لیے بہت کم ہیں۔ پاکستان اپنی کھپت کا نصف سے زیادہ تیل درآمد کرتا ہے اور 2019 میں کیکرا ون کی ناکامی کے بعد یہ تیل کی دریافت کے لیے غیر ملکی دلچسپی بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
Getty Images
خیال رہے کہ رواں سال اگست میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان پاکستان کے تیل کے وسیع ذخائر نکالنے کے لیے ایک معاہدہ طے پا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ فی الحال ’ہم آئل کمپنی کا انتخاب کرنے کے عمل میں ہیں جو اس پارٹنرشپ کو لیڈ کرے گی۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’کون جانتا ہے، شاید وہ کسی دن انڈیا کو تیل بیچ رہے ہوں گے۔‘
گذشتہ برسوں کے دوران پاکستان میں تیل اور گیس کی مقامی پیداوار میں مسلسل کمی ریکارڈ کی گئی تھی جبکہ مقامی طلب کو پورا کرنے کے لیے بیرون ملک سے ان مصنوعات کی درآمدات میں اضافہ ہوا تھا۔
پاکستان پٹرولیم انفارمیشن سروسز کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق موجودہ مالی سال کے پہلے نو مہینوں میں تیل کی مقامی پیداوار 11 فیصد تک گری۔
اعداد و شمار کے مطابق اس عرصے کے دوران پاکستان کی بڑی تیل اور گیس کی فیلڈز میں پیداوار میں کمی دیکھی گئی۔ ان فیلڈز میں قادپور فیلڈ، سوئی فیلڈ، اُچ فیلڈ، ماڑی فیلڈ جیسی بڑی فیلڈز کے علاوہ دوسری فیلڈز میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی۔ پاکستان میں کام کرنے والی تیل اور گیس کی دریافت اور پیداوار کی بڑی کمپنیوں کی مقامی پیداوار میں بھی کمی ریکارڈ کی گئی۔
ایسے میں امریکی صدر کی جانب سے یہ بیان سامنے آنے کے بعد بہت سے صارفین یہ سوال پوچھتے نظر آئے کہ جن ذخائر کی بات ہو رہی ہے وہ آخر ہیں کہاں؟ یہ بھی کہ پاکستان میں تیل کی دریافت کا کام کن علاقوں میں ہوا اور اس شعبے میں امریکی پارٹنرشپ کا اعلان کیا چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری پر اثرانداز ہو سکتا ہے؟
بی بی سی نے اس رپورٹ میں اس حوالے سے چند بنیادی سوالات کا جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔
Getty Imagesپاکستان کے پاس تیل کے کتنے ذخائر ہیں اور دریافت کا کام دوبارہ کیوں شروع کیا گیا؟
پاکستان میں تیل کی تلاش کے شعبے میں مختلف کمپنیاں کام کر رہی ہیں تاہم گذشتہ چند دہائیوں میں ملک میں تیل کی تلاش اور اُس کی پیداوار میں کوئی خاطر اضافہ نہیں دیکھا گیا۔
تیل اور گیس کے شعبے کے ماہر وصی خان کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کو اب تک تیل کی تلاش میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوئی مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان نے ہمت نہیں ہاری ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 2019 میں آف شور کی آخری کوشش کیکڑا ون اور ٹو کامیاب نہیں ہو سکے تھے مگر اس کے بعد بھی کوششیں جاری رہیں۔ '2023، 2024 میں (امریکی کمپنی) ڈیگلیور اینڈ میکناٹن نے تحقیق شروع کی جس میں کہا گیا کہ ہمارے آف شور میں بہت بڑا تیل کا ذخیرہ موجود ہو سکتا ہے۔'
وصی خان کا کہنا تھا کہ اسی اثنا میں پاکستانی حکومت نے آف شور پیٹرولیئم رولز بنائے اور ماڈل پروڈکشن شیئرنگ معاہدا بنایا گیا۔ 'جنوری 2025 میں بولیاں لگانے کا عمل شروع کیا گیا جس کا مثبت جواب آیا ہے۔ اب 23 کمپنیاں اس میں حصہ لے رہی ہیں۔'
تیل اور گیس کے شعبے کے ماہر زاہد میر کا کہنا ہے کہ ماضی میں دریافت کے لیے محدود سرگرمیاں ہوئیں جس میں محدود کمرشل کامیابی ملی۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان 80 فیصد تیل کی ضروریات درآمد کرتا ہے اور آف شور دریافت میں کامیابی تیل کی درآمدات کم کر سکتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ حکومت نے 23 بلاکس کی کامیاب بولیاں موصول ہوئی ہیں تاہم ’دلچسپی مقامی کمپنیوں تک محدود رہی ہے، صرف ایک ترک کمپنی اس میں شامل ہوئی ہے۔ (توقعات کے مطابق) غیر ملکی کمپنیوں کی دلچسپی حاصل نہیں کی جاسکی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ آف شور لائسنسنگ راؤنڈ سے تاثر ملتا ہے کہ حکومت تیل کی دریافت اور پیداوار میں سرمایہ کاری لانا چاہتی ہے۔
ماضی میں پاکستان کے وزیر پیٹرولیم علی پرویز ملک کا کہنا ہے کہ انٹرنیشنل سڈیز یہ ثابت کر چکی ہیں کہ پاکستان میں تیل و گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔
جیو نیوز کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ میں گفتگو کے دوران علی پرویز ملک نے سنہ 2015 میں جاری کی گئی امریکی رپورٹ یو ایس انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں نو ارب بیرل تیل کے ذخائر موجود ہیں۔
دوسری جانب پاکستان پٹرولیم انفارمیشن سروسز کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق دسمبر 2024 تک ملک میں تیل کے ذخائر دو کروڑ 38 لاکھ بیرل تک تھے۔
وصی خان کے مطابق ملک میں مقامی طور پر پیدا ہونے والا تیل ملکی ضرورت کے صرف دس سے پندرہ فیصد حصے کو پورا کرتا ہے جبکہ باقی کا 80 سے 85 فیصد بیرون ملک سے درآمد کیا جاتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ یو ایس انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن کے جائزے کے مطابق پاکستان میں نو ارب بیرل تک کے پٹرولیم ذخائر موجود ہیں تاہم اُن کے مطابق انھیں اُس وقت تک ثابت شدہ ذخائر نہیں کیا جا سکتا جب تک یہ تجارتی طور پر قابل عمل نہ ہو جائیں۔
محمد وصی نے کہا پاکستان میں ماضی میں تیل کی تلاش کے لیے کی گئی کوششیں زیادہ کامیاب نہیں ہو سکی ہیں جس کی وجہ اس کام میں سرمایہ کاری اور درکار ٹیکنالوجی کی کمی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ امریکی صدر کی جانب سےجو اعلان سامنے آیا، اس کے تحت بظاہر ایسا لگتا ہے کہ امریکی حکومت کسی بڑی تیل کمپنی کو کہے گی کہ وہ پاکستان میں تیل کے ذخائر نکالنے کے لیے کام کرے۔
پاکستان میں اس وقت تیل کی دریافت کا کام ملک کے چاروں صوبوں میں ہو رہا ہے۔ اس شعبے کے ماہرین کے مطابق اس حوالے سے سب سے زیادہ کام صوبہ سندھ میں ہو رہا ہے۔
پاکستان کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی کی پاکستان میں تیل و گیس کی دریافت و پیداوار کی رپورٹ کے مطابق سندھ میں اس وقت تیل و گیس کے کنوؤں کی مجموعی تعداد 247 ہے، پنجاب میں یہ تعداد 33 جبکہ خیبرپختونخوا میں 15 اور بلوچستان مین چار کنوؤں پر کام ہو رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان کنوؤں میں سے کئی پر کام مکمل ہو چکا ہے یعنی تیل اور گیس نکالی جا چکی ہے اور اب وہ ڈرائی ہیں جبکہ دیگر پر کام جاری ہے۔
پاکستان انسٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس میں ماہر توانائی ڈاکٹر عافیہ کے مطابق تکنیکی طور پر دیکھا جائے تو اِس وقت بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں کچھ خاص کام نہیں ہو رہا، جس کی بنیادی وجہ سکیورٹی خدشات، ٹیکس اور ریونیو سٹرکچرز وغیرہ ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ صوبوں کو ریونیو شیئرنگ میں زیادہ حصہ دے کر انھیں سکیورٹی کی ذمہ داری پورا کرنے کے لیے کہا جا سکتا ہے۔
پاکستان میں آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی نے ستمبر 2021 میں خیبرپختونخوا کے ضلع لکی مروت کے ایف آر علاقے بیٹنی اور جون 2022 میں ماڑی پیٹرولیم کمپنی نے شمالی وزیرستان میں واقع بنوں ویسٹ بلاک میں تحصیل شیوا میں گیس اور تیل کے بڑے ذخائر دریافت کیے، جو اس ضمن میں آخری بڑی دریافت تھی۔
سکیورٹی صورتحال یا پالیسی میں عدم تسلسل: پاکستان میں تیل اور گیس کی مقامی پیداوار میں لگاتار کمی کی وجوہات کیا ہیں؟پاکستان میں کوئلے سے تیل و گیس پیدا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟پاکستان میں گیس کی فراہمی کا اہم منصوبہ ٹھپ کیوں پڑا ہے؟پاکستان میں گیس کے ذخائر میں بڑی کمی: کیا اس بحران سے نکلنے کے لیے کوئی متبادل موجود ہے؟
پٹرولیم ڈویژن کے پارلیمانی سیکریٹری میاں خان بگٹی نے بی بی سی کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ سندھ میں تو اس وقت اس ضمن میں کافی کام ہو رہا ہے جبکہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں تیل کے ذخائر موجود ہیں جنھیں حکومت نکالنے کے لیے کام کر رہی ہے۔
انھوں نے امریکی صدر ٹرمپ کے اعلان کے بارے میں کہا کہ ابھی اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے تاہم انھوں نے اس بیان کو ملکی تیل کے شعبے کے لیے ایک مثبت پیش رفت قرار دیا ہے۔
Getty Imagesماضی اور مستقبل کے چیلنجز
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان میں تیل کےذخائر نکالنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان اس شراکت داری کے لیے تیل کمپنی کے انتخاب کے لیے کام ہو رہا ہے۔
تیل ذخائر نکالنے کے لیے کیا ماضی میں امریکی کمپنیوں کے پاکستان میں کام کرنے کے بارے میں وصی خان نے بتایا کہ ماضی میں کئی امریکی کمپنیاں پاکستان کے تیل و گیس کے شعبے میں سرگرم رہی ہیں۔ خاص طور پر، آکسیڈینٹل پیٹرولیم اور یونین ٹیکساس نے تیل کی تلاش اور ترقیاتی سرگرمیوں میں اہم کردار ادا کیا۔
ان کے مطابق یہ کمپنیاں پاکستان کے تیل و گیس کے اپ اسٹریم شعبے کے ابتدائی ترقی کے مراحلمیں نمایاں تعاون فراہم کرتی رہی ہیں۔
ان کے مطابق اگرچہ وقت کے ساتھ ان کی موجودگی کم ہو گئی ہے، لیکن ایک وقت تھا جب یہ کمپنیاں اس شعبے کی نمایاں کرداروں میں شمار ہوتی تھیں۔
تو کیا چین پاکستان میں اس سرمایہ کاری پر اثرانداز ہو سکتا ہے؟
وصی خان نے کہا اس پیش رفت کو ایک مثبت تجارتی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ پاکستان کے توانائی کے شعبے میں بین الاقوامی تعاون میں اضافہ مزید سرمایہ کاری، جدید ٹیکنالوجی اور صحت مند مقابلے کو فروغ دے سکتا ہے۔
انھوں نے کہا 'چین پاکستان کاقابلِ اعتماد اور دیرینہ شراکت دار ہے اور امریکی کمپنیوں کی شمولیت اس تعلق کو متاثر نہیں کرتی۔ درحقیقت، یہ موجودہ چینی سرمایہ کاری کی تکمیل کر سکتی ہے کیونکہ یہ مواقع کو متنوع بنانے میں مدد دے گی۔'
انھوں نے کہا 'یہ امکان چین کے لیے بھی یکساں طور پر فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ جیسے جیسے بڑے منصوبے آگے بڑھیں گے، تو چینی کمپنیاں، جن کی پاکستان کے بنیادی ڈھانچے اور توانائی کے شعبے میں مضبوط موجودگی ہے،تعمیرات، انجیینئرنگ یا خدمات جیسے شعبوں میں نئے کردار ادا کر سکتی ہیں۔'
جیو پولیٹیکل اکانومی کے ماہر زاہد حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ ابھی تو امریکی اعلان سامنے آیا ہے اور اس میں کیا طے پایا ہے اس کی تفصیلات سامنے آنا باقی ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ اس امریکی اعلان سے پاکستان میں چین کی سرمایہ کاری اور منصوبوں پر براہ راست تو کوئی اثر نہیں پڑے گا تاہم اس کے ان ڈائریکٹ مضمرات ہو سکتے ہیں۔
میاں خان بگٹی نے اس سلسلے میں کہا کہ چین کے پاکستان کے ساتھ الگ سے معاشیتعاون اور منصوبے ہیں اور اسی طرح پاکستان کے دنیا کے دوسرے ممالک کے ساتھ بھی تجارتی اور معاشی تعلقات ہیں جن کا اپنا دائرہ کار ہوتا ہے۔
انھوں نے ایسے امکان کو رد کیا کہ جس سے پاکستان میں امریکہ کی جانب سے تیل کی ذخائر کی تلاش کے اعلان سے چین کے پاکستان میں منصوبوں پر کوئی اثر پڑے۔
پاکستان میں گیس کی فراہمی کا اہم منصوبہ ٹھپ کیوں پڑا ہے؟سکیورٹی صورتحال یا پالیسی میں عدم تسلسل: پاکستان میں تیل اور گیس کی مقامی پیداوار میں لگاتار کمی کی وجوہات کیا ہیں؟پاکستان میں کوئلے سے تیل و گیس پیدا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟پاکستان میں گیس کے ذخائر میں بڑی کمی: کیا اس بحران سے نکلنے کے لیے کوئی متبادل موجود ہے؟روسی خام تیل کی درآمد سے پاکستان میں پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں کم ہو پائیں گی؟