پاکستانی بلے باز، چھکوں کی خواہش اور ’ڈاٹ بال‘ کا چنگل

بی بی سی اردو  |  Nov 06, 2025

پچھلی دو دہائیوں میں کرکٹنگ ارتقا کی رفتار یوں عجب رہی ہے کہ جو ’ڈاٹ بال‘ کبھی مزاحمت اور مہارت کا استعارہ کہلاتی تھی، اب وہ اس کھیل کی دھرتی پر کسی بوجھ سے کم نہیں سمجھی جاتی۔

جہاں ٹیسٹ کرکٹ کے اچھے بولنگ سیشنز میں ڈاٹ بال کھیلنا کسی آرٹ سے کم نہیں کہلاتا، وہیں ون ڈے میں اگرچہ اس کی گنجائش گھٹ جاتی ہے مگر ضرورت پھر بھی رہتی ہے کہ اسی کی سہولت سے بلے باز اپنے قدم جماتے ہیں اور پھر ساجھے داریاں نبھاتے ہیں۔

مگر ٹی ٹونٹی کرکٹ ڈاٹ بال کو بلے بازی اور کھیل کی ’توہین‘ کے مترادف سمجھتی ہے۔ جہاں اننگز صرف 120 گیندوں پر محیط ہو اور رنز لگ بھگ اس سے دوگنا کرنے کی خواہش ہو، وہاں ڈاٹ بال واقعی کسی جملۂ معترضہ سی نظر آتی ہے۔

بلے باز ڈاٹ بال کب کھیلتے ہیں؟

دو ہی صورتوں میں کوئی گیند بلے باز کے لئے بے ثمر رہ سکتی ہے۔ پہلی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ بولر اپنی مہارت کی عمدگی سے بلے باز کو دغا دے کر اس کے عزائم پہ سوالیہ نشان اٹھا جائے۔

دوسری صورت یہ ہے کہ بلے باز اپنی بھرپور قوت کوئی شاٹ تخلیق کرنے میں خرچ ڈالے مگر گیند فیلڈنگ کا حصار توڑنے میں ناکام رہ جائے۔ دونوں ہی صورتیں ٹی ٹونٹی بلے بازوں اور متعلقہ بیٹنگ آرڈر پر بوجھ بڑھاتی ہیں۔

اگر ڈاٹ بال کے رجحانات میں ٹیموں کی کارکردگی کا تقابل کیا جائے تو پچھلے کچھ عرصہ میں پاکستان بارہا سرِ فہرست دکھائی دیتا ہے۔ ایسے میں سوال ابھرتا ہے کہ آخر یہی ٹیم کیوں بار بار اس الجھن کا شکار نظر آتی ہے؟

پاکستان کے معاملے میں مگر ڈاٹ بال کی صورتیں فقط دو ہی نہیں ہیں۔ یہاں کچھ اور بھی عوامل درپیش ہیں جنھیں سلجھائے بغیر یہ ٹیم ڈاٹ بال کے چنگل سے نہیں نکل سکتی۔

Getty Imagesاگر ڈاٹ بال کے رجحانات میں ٹیموں کی کارکردگی کا تقابل کیا جائے تو پچھلے کچھ عرصہ میں پاکستان بارہا سرِ فہرست دکھائی دیتا ہے

جو کرکٹ انڈیا، آسٹریلیا، انگلینڈ اور نیوزی لینڈ وغیرہ کھیلتے ہیں، وہاں مجموعی کرکٹ کلچر، بورڈ کی فلاسفی اور ٹیم اپروچ میں ایک ہم آہنگی نظر آتی ہے جو، پاکستان کے برعکس، ہر چھ ماہ بعد بدل نہیں جاتی۔

چونکہ فی الوقت ٹی ٹونٹی مہارت کے بجائے محضہندسوں کا کھیل بن چکا ہے، سو ڈیٹا ایکسپرٹ اس کی سٹریٹیجک سوچ پر راج کر رہے ہیں۔ انفرادی مہارت سے قطع نظر، ڈیٹا کی دنیا کا سارا غوغا یہی نمایاں کرنے پر رہتا ہے کہ گویا ڈاٹ بال ہی ہر خرابی کی جڑ ہے۔

کبھی پاکستان کے ہاں فتوحات کا تناسب بہت خوش کن تھا جب محمد رضوان اور بابر اعظم اس کی اننگز کھولا کرتے تھے۔ تب ٹیم کا رجحان رنز حاصل کرنے کو تھا، نہ کہ اس ’سٹائل‘ کا جو ایسے رنز لاتا تھا۔

کسی کی والدہ کو زیورات بیچنا پڑے تو کسی کے والد نے ملازمت ترک کی: ورلڈ چیمپیئن بننے والی انڈین خواتین کرکٹرز کی کہانیکرس گیل سمیت عالمی شہرت یافتہ کرکٹرز کو انڈیا کے زیرانتظام کشمیر بلانے والی لیگ جس کے منتظمین ادائیگی کیے بغیر غائب ہو گئےایشیا کپ میں کھیل کا وقار مجروح کرنے کا الزام: حارث رؤف دو میچوں کے لیے معطل، سوریا کمار پر میچ فیس کا 30 فیصد جرمانہفیصل آباد میں 17 برس بعد انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی: جس پچ کے بارے میں ڈینس للی نے کہا ’مر جاؤں تو مجھے اس کے نیچے دفنایا جائے‘

بھلے پاکستان اس دوران ورلڈ کپ سیمی فائنل کھیلا ہو، بھلے اگلے ورلڈ ایونٹ کے فائنل تک پہنچا ہو اور بھلے ہی رضوان اور بابر کی اوپننگ ساجھے داری ورلڈ ریکارڈ بنی ہو، ڈیٹا ماہرین نے ہمیشہ اس منظرنامے سے سٹرائیک ریٹ اور ڈاٹ بال کی ’مکھیاں‘ ہی نکالیں۔

بیانیہ یہ بنایا گیا کہ پاکستان کرکٹ کی تمام خرابیوں کی بنیاد بابر اور رضوان ہی کے سٹرائیک ریٹ تھے۔ اسی سوچ کے سائے میں، ایک بار پھر ٹیم اپروچ بدل دی گئی جہاں مہارت کا معیار رنز کی مقدار نہیں، صرف چھکوں کی استعداد کو ٹھہرایا گیا۔

اگر کسی بلے باز کی تمام تربیت محض باؤنڈری کو نشانہ بنانے پر مرکوز رہے گی تو یقیناً وہ کھیل کے مبادیات سے کہیں پرے نکل جائے گا۔ سٹرائیک روٹیشن اس کی ضرورت بن ہی نہیں سکے گی کہ اس کا سارا امتحان تو چھکوں کے ’ٹرائل‘ پر ٹِکا ہو گا۔

نہ صرف یہ اپروچ بلے باز کے لیے مضر ہے، الٹا بولر کے لیے بھی سُودمند ہے کہ اب اسے وکٹ پانے کو کوئی پاپڑ نہیں بیلنا پڑیں گے، اسے محض بلے باز کے ’ہٹنگ آرک‘ سے دور رہنا ہو گا اور وکٹ خود بخود ہی جھولی میں آ گرے گی۔

جب ایک بلے باز پانچ ڈاٹ کھیلنے کے بعد وکٹ گنوا بیٹھتا ہے تو ہندسوں کے کھیل میں اس کی ٹیم صرف وکٹ ہی نہیں گنواتی بلکہ ان پچھلی ڈاٹ بالز کا بوجھ بھی نئے بلے باز پر ڈال دیتی ہے، جسے نہ صرف پچھلا خسارہ مٹانا ہوتا ہے بلکہ اپنے ٹیلنٹ کا ثبوت دینے کو اگلے چھکے کی ’پری پلاننگ‘ میں چار مزید ڈاٹ گیندیں کھیلنا پڑ جاتی ہیں۔

Getty Imagesاگر کسی بلے باز کی تمام تربیت محض باؤنڈری کو نشانہ بنانے پر مرکوز رہے گی تو یقیناً وہ کھیل کے مبادیات سے کہیں پرے نکل جائے گا

پاکستان کے معاملے میں ڈاٹ بال کا ایک اور چہرہ بھی ہے جہاں مہارت نہیں، ’سٹائل‘ آڑے آ جاتا ہے اور اچھی بھلی دو رنز کی پوٹینشل گیند کو بھی باؤنڈری سے پرے اڑانے کی خواہش کوئی انہونی دکھا جاتی ہے جب بلے باز سنگل، ڈبل کو ’گھر کی مرغی‘ تصور کرتے ہوئے، وقعت صرف باؤنڈری سے باہر کے رنز کو دیتے ہیں۔

سالہا سال بابر و رضوان کے سٹرائیک ریٹس پر ذہن خرچ کرنے والے احباب کو اطلاع ہو کہ پاکستان کے معاملے میں ’ڈاٹ بال‘ کوئی انفرادی معمہ نہیں ہے، یہ ایک ’ٹیم فینومینا‘ ہے جہاں کردار صرف اپنے اکلوتے اسباب ہی نہیں رکھتے بلکہ ایک یونٹ کی مانند ایک دوجے کے ’بوجھ‘ سے بوجھل ہوتے ہیں۔

انڈین خواتین ٹیم کی ورلڈ کپ میں تاریخی فتح، جے شاہ کے پاؤں چھونے کی کوشش اور ایشیا کپ ٹرافی نہ ملنے کا گلہدبئی میں نوکری چھوڑنے کے بعد پاکستانی ٹیم کا حصہ بننے والے عثمان طارق اور ان کے غیر معمولی بولنگ ایکشن کی کہانی’مسئلہ بابر اعظم میں نہیں، مبصرین کے شور میں ہے‘لاکھوں مالیت کی کلیکشن، انڈین فینز اور روبک کیوب حل کرنے کا جنون: گوجرانوالہ کے یوٹیوبر نے ایک ویڈیو کی آمدن سے گاڑی خریدیشبھمن گل سے مصافحے کی کوشش اور پاکستان زندہ باد کا نعرہ: ’کاش نعرے میچ جتوا سکتے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More