’کیا مجھے کچھ محسوس کرنا ہے؟‘ ہتھکڑیاں لگا شخص ایک سیل میں بیٹھا تفتیش کار سے یہ پوچھ رہا تھا۔
چینی تفتیش کار ملزم سے اس منصوبے کے بارے میں پوچھ رہے تھے جس میں اس شخص نے ایک اجنبی کو مبینہ طور پر قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔
تفتیش کار نے اُس سے پوچھا کیا وہ سانس لے رہا تھا؟ اس پر اس شخص نے کہا کہ ’مجھے ایسا نہیں لگا۔‘
یہ منظر بظاہر کسی جرائم پر مبنی ڈرامے کا لگتا ہے، لیکن درحقیقت یہ چین کے سرکاری میڈیا پر چلنے والی ایک ڈاکیومنٹری ہے جس میں چین کے تفتیشی اور عدالتی نظام کو دکھایا گیا ہے جسے عام طور پر بیرونی دُنیا سے مخفی رکھا جاتا ہے۔
سوالوں کا جواب دینے والا ہتھکڑی والا شخص بدنام زمانہ وی خاندان کا رُکن چن داوئی ہے جو برسوں سے میانمار کے سرحدی شہر لاؤکائینگ میں سرگرم تھا۔
یہ چینی حکام کی جانب سے کئی ماہ سے جاری پروپیگنڈا مہم کا حصہ ہے جس میں چینی عوام کو جنوبی مشرقی ایشیا کی اربوں ڈالرز کی سکیم انڈسٹری سے خبردار کرتا ہے۔ یہ چینی حکام کی جانب سے اس سکیم انڈسٹری سے جڑے کرداروں کو بے نقاب کرنے کی بھی مہم کا حصہ ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چین اس کے ذریعے دوسرے لوگوں کو متنبہ کر رہا ہے کہ وہ ایسے گھناؤنے دھندے میں اُلجھنے سے باز رہیں۔ کیونکہ اگر آپ نے ایسا کیا تو اس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔
یہ اُس چینی محاروے کے مصداق ہے کہ ’بندر کو ڈرانے کے لیے مرغی کو مار ڈالو۔‘
قیمت چکانا پڑے گی
ان میں کئی ’مرغیاں‘ ویس، لیوس، منگ اور بیس خاندان جیسی ہیں جو رواں صدی کے اوائل میں لاؤکائینگ میں مضبوط ہوئے۔
ان کے دور میں یہ علاقہ جوئے بازی کے اڈوں اور ریڈ لائٹ ایریاز کے بڑے کاروبار میں تبدیل ہو گیا۔ لیکن حالیہ عرصے میں یہاں فراڈ کے مراکز، جہاں لوگوں کو اُن کی مرضی کے خلاف رکھ کر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، سے متعلق متعدد شکایات سامنے آئی تھیں۔
ان کے جال میں پھنسنے والے بہت سے افراد چینی باشندے تھے اور اںھیں سادہ لوح چینی شہریوں کو ہی آن لائن فراڈ کا نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کام سے انکار کرنے پر اُنھیں بدترین تشدد اور یہاں تک کے مار ڈالنے کی بھی سزا دی جاتی تھی۔
لیکن ان خاندانوں کی سلطنتیں 2023 میں تباہ ہو گئیں، جب میانمار کے حکام نے اُنھیں گرفتار کر کے چین کے حوالے کر دیا۔ تب سے چینی عدالتوں نے ان پر دھوکہ دہی، انسانی سمگلنگ اور قتل تک کے جرائم کا مقدمہ چلایا ہے۔
اب ان خاندانوں کو دوسری کے لیے نشانِ عبرت بنایا جا رہا ہے۔ منگ قبیلے کے 11 اور بائی قبیلے کے پانچ افراد کو موت کی سزا سنائی گئی ہے۔
لیوس اور ویس خاندان کے خلاف قانونی کارروائی جاری ہے۔
جیل میں ان افراد کی چمکتی ہتھکڑیوں، جیل کی وردیوں اور ان کی آنکھوں میں پایا جانا والا خوف سب چین کے سرکاری میڈیا پر دکھایا جا رہا ہے۔ یہ سب اُن کی اس رنگین اور پر آسائش زندگیوں سے بہت مختلف ہے جو وہ دو برس قبل گزار رہے تھے۔
میانمار میں فراڈ کے اڈوں کا عروج
لاؤکائینگ کے ان گاڈ فادرز کو اس وقت طاقت ملی جب میانمار میں فوجی جنتا کے سربراہ من آنگ ہلینگ نے اس علاقے کے بڑے جنگجو سردار کو ہٹانے کے لیے آپریشن کی قیادت کی۔
فوجی رہنما کو اُس وقت اس علاقے میں حلیفوں کی ضرورت تھی اوربائی سوچینگ جو جنگجو قبیلے کے نائب تھے نے یہ خلا پُر کیا۔
چینی میڈیا کے مطابق بائی سوچینگ کو لاؤکائینگ کا چیئرمین مقرر کر دیا گیا اور اُن کے خاندان کو دو ہزار افراد کی مضبوط ملیشیا کی کمانڈ مل گئی۔
ان تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے اقتدار کے خلا میں، مٹھی بھر خاندانوں نے اسے فوجی اور سیاسی طاقت حاصل کرنے کے موقع کے طور پر دیکھا۔
چینی تفتیش کاروں کے مطابق وی خاندان کا ایک رکن پارلیمنٹ اور دوسرا فوجی کیمپ کمانڈر تھا۔ دریں اثنا، لیوس خاندان نے پانی اور بجلی جیسے اہم بنیادی ڈھانچے کو کنٹرول کیا اور مقامیسکیورٹی فورسز پر مضبوط اثر و رسوخ استعمال کیا۔
برسوں تک انھوں نے جوئے اور جسم فروشی کے ذریعےپیسہ کمایا۔
لیکن حال ہی میں اُنھوں نے سائبر سکیم کی کارروائیوں کو وسعت دی ہے جس میں ہر ایک خاندان درجنوں سکیم کمپاؤنڈز اور کسینو کو کنٹرول کرتا ہے جہاں سے انھوں نے اربوں ڈالر کمائے۔
چینی حکام نے کہا کہ یہ خاندان بڑی پرتعیش پارٹیوں کا اہتمام کرتے اور لگژری کاروں کے ساتھ رہتے تھے، ان کے سکیم کمپاؤنڈز کی دیواروں کے پیچھے مکروہ تشدد کا کلچر پروان چڑھتا ہے۔
رہائی پانے والے کارکنوں سے جمع کی گئی شہادتیں بدسلوکی کے ایک عام نمونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں: چھریوں سے انگلیاں کاٹی جاتی ہیں، بجلی کے جھٹکے اور باقاعدہ مار پیٹ ہوتی ہے۔ تعاون نہ کرنے والے کارکنوں کو چھوٹے اندھیرے کمروں میں بند کر دیا جاتا تھا اور انھیں بھوکا رکھا یا مارا پیٹا جاتا تھا جب تک کہ وہ کام پر آمادہ نہ ہو جاتے۔
’دولت کی دیوی‘: چینی خاتون نے فراڈ کے ذریعے اربوں ڈالر کی کرپٹو کرنسی کیسے حاصل کی اور ان کی گرفتاری کیسے عمل میں آئی؟کینیڈین شہری پر ’ستوشی ناکاموتو‘ ہونے کا الزام: بٹ کوائن کے خالق کی شناخت کا معمہ آخر حل کیوں نہیں ہو پا رہا؟’بچوں جیسا چہرہ مگر پراسرار شخصیت‘: 14 ارب ڈالر کا کرپٹو فراڈ، جس کا مرکزی ملزم کم عمری میں ہی بہت امیر ہو گیا19 کروڑ روپے کی فون کال: ڈیجیٹل گرفتاری کا فراڈ جس میں خاتون نے خود بینک جا کر رقم جعلسازوں کو منتقل کی
بہت سے چینی کارکنوں کو وہاں پر منافع بخش ملازمتوں کی پیشکش کی گئی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین کی معاشی سست روی کی وجہ سے بہت سے نواجونوں کے لیے یہ بہت پرکشش تھا۔
چین میں ٹیکسی کی سواریوں سے لے کر سوشل میڈیا اور پاپ کلچر تک، اس طرح کے فراڈ کے مراکز کی ہولناک کہانیاں روز مرہ کی گفتگو میں شامل ہو چکی ہیں۔
’نو مور بیٹس‘، 2023 کی ایک مشہور فلم ہے جس میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے چینی شہریوں کو بیرونِ ملک فراڈ کرنے والے گروہوں کے پاس لے جایا جاتا ہے۔ اس فلم کے بعد لاکھوں چینی سیاح تھائی لینڈ جانے سے گریز کرنے لگے کیونکہ اب یہ ملک میانمار اور کمبوڈیا میں فراڈ کرنے والے گروہوں تک پہنچنے کے لیے ایک راستے کے طور پر جانا جاتا ہے۔
بہت سے لوگ اپنے پیاروں کی تلاش میں ہیں جو سکیم سینٹرز میں گم ہو گئےGetty Images
رواں برس جنوری میں تھائی لینڈ جانے والے ایک چینی اداکار وانگ زنگ توجہ کا مرکز بنے تھے جو کام کے سلسلے میں تھائی لینڈ گئے لیکن اُنھیں دھوکے سے میانمار کی سرحد کے پار ایک سکیم سینٹر بھجوا دیا گیا۔
اُن کا خاندان کافی وقت تک اُن کی تلاش کرتا رہا اور آخرکار اُنھیں بچا لیا گیا۔
لیکن ہر کوئی وانگ کی طرح خوش قسمت نہیں ہوتا، بہت سے چینی شہری اب بھی اپنے پیاروں کی تلاش میں ہیں جو جنوبی مشرقی ایشیا کے سکیم سینٹرز میں کہیں گم ہو گئے ہیں۔
چین میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ویبو کے ایک صارف نے اپنے ایک کزن کے حوالے سے بتایا کہ ’اُنھیں پانچ سال قبل لالچ دے کر بلایا گیا جس کے بعد سے اُن کا کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ میری خالہ ہر روز اپنے بیٹے کی واپسی کے لیے آنسو بہاتی ہیں۔‘
سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی میں چینی سیاست میں ماہر ایسوسی ایٹ پروفیسر سیلینا ہو، بی بی سی کو بتاتی ہیں کہ ان گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر کے چین کی حکومت ایسے لواحقین کو حوصلہ دینا چاہتی ہے جن کے پیارے اب بھی لاپتا ہیں۔
اقوامِ متحدہ کا اندازہ ہے کہ لاکھوں لوگ اب بھی دنیا بھر میں دھوکہ دہی کے مراکز میں پھنسے ہوئے ہیں۔
بیجنگ کی پریشانی کی بات یہ ہے کہ ایسے بہت سے مراکز چلانے والے اکثر خود چینی ہوتے ہیں۔
ایک چینی شہری نے ویبو پر لکھا کہ ’ایک بار جب آپ بیرون ملک ہوتے ہیں، تو جن لوگوں پر آپ کو کم سے کم اعتماد کرنا چاہیے وہ آپ کے اپنے ہم وطن ہوتے ہیں۔‘
’سکیم: انسائیڈ ساؤتھ ایسٹ ایشیاز سائبز کرائم کمپاؤنڈز‘ کے شریک مصنف ایوان فرانسچینی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’حقیقت یہ ہے کہ چینی شہری ان میں سے بہت سی کارروائیوں کے ماسٹر مائنڈ ہیں جس سے بین الاقوامی سطح پر چین کی ساکھ کو گہرا نقصان پہنچا ہے۔‘
جیسے جیسے چین میں اس حوالے سے بے چینی بڑھ رہی ہے، حکام ان نیٹ ورکس کو ختم کرنے کے لیے سرگرم ہو رہے ہیں۔
سرکاری میڈیا نے رپورٹ کیا کہ 2023 سے لے کر اب تک چینی اور میانمار کے حکام نے 57 ہزار سے زیادہ چینی شہریوں کو سائبر سکیم کے الزام میں گرفتار کیا۔
ماہرین کے مطابق چینی حکام یہ باور بھی کروا رہے ہیں کہ وہ صرف گاڈ فادرز کے پیچھے نہیں ہیں بلکہ وہ نچلی سطح پر بھی اس کام میں ملوث افراد کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہے ہیں۔
اکتوبر میں چین نے ایک اور گروہ کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا اعلان کیا تھا جسے اُنھوں نے لاؤکائینگ میں ’طاقت کی نئی نسل‘ کے طور پر بیان کیا جو بدنام زمانہ خاندانوں سے ’کم پرتشدد‘ نہیں ہیں۔
سرکاری میڈیا کی ایک اور دستاویزی فلم میں، اس گروپ کی تحقیقات کرنے والے ایک چینی اہلکار یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کے ٹیم لیڈر نے انھیں کہا تھا: ’اگر اس کیس کو حل نہیں کیا جا سکا، تو آپ کے کریئر پر مستقل داغ لگ جائے گا۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کریک ڈاؤن کی وجہ سے چین میں سائبر کرائم کی شرح میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے اور حکام کا دعویٰ ہے کہ اس نوعیت کے جرائم کو موثر طریقے سے روکا گیا ہے۔
’بچوں جیسا چہرہ مگر پراسرار شخصیت‘: 14 ارب ڈالر کا کرپٹو فراڈ، جس کا مرکزی ملزم کم عمری میں ہی بہت امیر ہو گیاایک گھنٹے میں 23 کروڑ ڈالر کے ڈیجیٹل اثاثے غائب: انڈیا میں کرپٹو کرنسی کی سب سے بڑی چوری کا معمہ’دولت کی دیوی‘: چینی خاتون نے فراڈ کے ذریعے اربوں ڈالر کی کرپٹو کرنسی کیسے حاصل کی اور ان کی گرفتاری کیسے عمل میں آئی؟62 کروڑ پاؤنڈز کے گمشدہ بِٹ کوائن کا معمہ: ’تب تک نہیں رُکوں گا جب تک یہ مل نہیں جاتے‘آن لائن فراڈ کا اگلا نشانہ کہیں آپ تو نہیں!19 کروڑ روپے کی فون کال: ڈیجیٹل گرفتاری کا فراڈ جس میں خاتون نے خود بینک جا کر رقم جعلسازوں کو منتقل کی