Getty Images
امریکہ نے اپنے سب سے جدید ترین لڑاکا ایف-35 طیارے سعودی عرب کو فروخت کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان خدشات کے باوجود کہ اگر سعودی عرب کو لڑاکا طیارے فراہم کیے جاتے ہیں تو چین یہ ٹیکنالوجی چوری کر سکتا ہے، معاہدے کا اعلان کیا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے اراکین کو اس بات پر بھی تشویش ہے کہ اگر سعودی عرب ایف-35 طیارے حاصل کر لے گا تو اس سے مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کو حاصل فوجی برتری متاثر ہو سکتی ہے۔
منگل کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے دورہ امریکہ کے دوران ٹرمپ نے ایک بار پھر کہا کہ امریکہ سعودی عرب کو یہ طیارے مہیا کرنے جا رہا ہے۔
اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دورِ صدرات میں بھی دونوں ملکوں کے مابین اس معاملے پر ایک معاہدے پر اتفاق ہوا تھا لیکن اسے حتمی شکل نہیں دی جا سکی تھی۔
منگل کو صدر ٹرمپ اور سعودی ولی عہد کے درمیان ملاقات کے بعد امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ایف-35کے برآمدی لائسنس جاری کیے جا رہے ہیں اور انھیں امید ہے کہ سعودی عرب اور دفاعی ساز و سامان بنانے والی امریکی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کے درمیان معاہدہ ہو جائے گا۔
ایف-35 طیاروں کی سعودی عرب کو فروخت کے امکان نے اسرائیلی حکام میں تشویش پیدا کر دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کا یہ اقدام مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی فوجی برتری کو کمزور کر سکتا ہے۔
یاد رہے کہ منگل کے روز سعودی ولی عہد کے ہمراہ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کو فروخت کیا جانے والا ایف-35 طیارے کا ماڈل کافی حد اسرائیل کے زیرِ استعمال ماڈل جیسا ہو گا۔
انھوں نے کہا ’سعودی عرب امریکہ کا ایک بڑا اتحادی ہے، اور اسرائیل بھی۔ میں جانتا ہوں کہ وہ (اسرائیل) چاہتے ہیں کہ آپ (سعودی عرب) کو کم صلاحیت والے طیارے ملیں لیکن جہاں تک میرا تعلق ہے، میرے خیال میں دونوں اس سطح پر ہیں جہاں انھیں بہترین طیارے ملنے چاہیے۔‘
خیال رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے مجوزہ غزہ امن منصوبے کے لیے اسرائیل سے حمایت کی اپیل کی ہے تاہم ان کے سعودی عرب کو طیارے فروخت کرنے کے فیصلے سے اسرائیل ناراض ہو سکتا ہے۔
اسرائیل ان 19 ممالک میں شامل ہے جن کے پاس یا تو ایف-35 طیارے موجود ہیں یا انھوں نے اسے خریدنے کا معاہدہ کر رکھا ہے۔
رواں سال جون میں ایران کے ساتھ 12 روزہ جنگ کے دوران اسرائیل نے ان ہی ایف-35 لڑاکا طیاروں کا استعمال کیا تھا۔
امریکی جریدے نیویارک ٹائمز کے مطابق، پینٹاگون نے ایک حالیہ رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ اگر امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان ایف-35 طیاروں کا معاہدہ طے پا گیا تو چین سعودی عرب کے ساتھ دفاعی تعاون کے ذریعے اس طیارے کی ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کر سکتا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں بدلتا ہوا طاقت کا توازن اور اسرائیل کی تشویش
خیال کیا جاتا ہے کہ ایف-35 لڑاکا طیاروں کی فروخت مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کے توازن پر گہرا اثر ڈال سکتی ہے اور اس پر بعض اسرائیلی حکام نے تشویش کا بھی اظہار کیا ہے۔
اسرائیل سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے والا تھا جس کے نتیجے میں اس کے مسلم دنیا کے ساتھ تعلقات کی راہیں کھل جاتیں جبکہ اس کے بدلے میں سعودی عرب کو امریکہ سے سکیورٹی پیکج ملنا تھا۔
اس ہی پیکیج کے تحت سعودی عرب کوایف-35 سٹیلتھ لڑاکا طیاروں کی صورت میں سعودی عرب کو ففتھ جنریشن فائٹر جیٹ ملنے تھے۔
اس سے سعودی عرب کے امریکہ کے ساتھ تعلقات مضبوط ہوتے اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات میں بھی ایک نئے باب کا آغاز ہوتا۔
خیال کیا جا رہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اگلے تین سالوں میں سعودی عرب کو یہ طیارے فروخت کر سکتی ہے۔ اس سے خطے میں فوجی توازن سعودی عرب کی طرف جھک سکتا ہے۔
بظاہر صدر ٹرمپ اس معالے میں اسرائیل خدشات کو ملحوظ خاطر نہیں لا رہے۔
کنگز کالج کے شعبہ وار سٹڈیز کے سینئر فیلو نواف عبید نے امریکی نشریاتی ادارے سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا ’ٹرمپ نیتن یاہو کی وجہ سے ہتھیاروں اور دیگر ساز و سامان کی فروخت روک کر وقت ضائع نہیں کریں گے۔‘
ایک اسرائیلی فوجی عہدیدار نے سی این این کو بتایا کہ ’سعودی عرب کو F-35 طیاروں کی فراہمی اسرائیلی فوج کے لیے تشویش کا باعث ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کئی برسوں سے ایک غیر واضح اصول یہ تھا کہ مشرق وسطیٰ کے کسی بھی ملک کے پاس اسرائیل کی طرح کے طیارے یا صلاحیت نہیں ہونی چاہیے۔
’ہم صورتحال کی سنگینی کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کر رہے لیکن یہ اسرائیل کے لیے اچھا نہیں ہے۔‘
تاہم العربیہ کے مطابق سعودی ولی عہد کا کہنا ہے کہ ’ہم اسرائیلیوں کے لیے امن کے خواہاں ہیں۔ ہم فلسطینیوں کے لیے بھی امن چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ وہ اس خطے میں پرامن طور پر ایک ساتھ رہیں، اور اس مقصد کو حاصل کرنے کی ہم پوری کوشش کریں گے۔‘
یاد رہے کہ سعودی عرب بارہا کہ چکا ہے وہ فلسطینی ریاست کے قیام تک اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں لائے گا۔
سعودی ولی عہد کا دورہِ امریکہ: کیا ایف-35 طیاروں کی خریداری کا معاہدہ اسرائیل کو پریشان کر سکتا ہے؟تیل، طاقت اور 45 کروڑ ڈالر کی تصویر: سعودی ولی عہد ’ایم بی ایس‘ کی گمنامی سے عروج کی کہانیجنگی طیاروں سے میزائلوں اور ڈرونز تک: پاکستان چینی ہتھیاروں پر کتنا انحصار کرتا ہے اور کیا مستقبل میں اس میں اضافہ ہو سکتا ہے؟سیف الاعظم: پاکستانی فضائیہ کے وہ پائلٹ جنھوں نے چھ روزہ جنگ میں اسرائیلی طیاروں کو مار گرایاGetty Imagesسعودی عرب ایف-35 طیارے کیوں حاصل کرنا چاہتا ہے؟
سعودی عرب کئی برسوں سے امریکی ایف-35 لڑاکا طیارے حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اسرائیل کی مخالفت کے سبب اسے اب تک کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔
سعودی عرب پہلے ہی امریکی ہتھیاروں کا بڑا خریدار ہے لیکن اب تک اسے ایف-35 نہیں دیا گیا تھا۔
سعودی عرب اپنی فوج کو جدید بنانے، مشرق وسطیٰ میں اپنی پوزیشن بہتر کرنے اور ایران کے ساتھ کسی بھی ممکنہ کشیدگی کی صورت میں برتری حاصل کرنے کے لیے ایف-35 جیٹ حاصل کرنا چاہتا ہے۔
حالیہ برسوں میں سعودی عرب یمن میں حوثیوں کے خلاف بھی کارروائیاں کرتا آیا ہے۔
اگرچہ یہ تنازع فی الحال غیرفعال ہے لیکن مستقبل میں دوبارہ بھڑک سکتا ہے۔ اس لیے سعودی عرب کو اس جدید لڑاکا طیارے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
کیا سعودی عرب کو ان طیاروں کی فروخت روکی جا سکتی ہے؟
اگر امریکی صدر سعودی عرب کو طیارے فروخت کرنے کی منظوری دے بھی دیں تو امریکی کانگریس کے پاس اختیار ہے کہ وہ اس معاہدے کو روک سکتی ہے۔
اور کانگریس میں شامل کچھ قانون ساز ایسا کر سکتے ہیں۔ تاہم ٹرمپ نے اپنی پوزیشن واضح کر دی ہے۔
سعودی ولی عہد کے ہمراہ وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انھوں نے اپنا موقف دہرایا کہ وہ سعودی عرب کو طیارے فروخت کرنے کے حق میں ہیں۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انھوں نے اسرائیل کی مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیلی فوجی برتری کو بھی نظر انداز کر دیا ہے۔
اپنی اسپالیسی کے تحت امریکہ اس بات کو یقینی بناتا آیا ہے کہ اسرائیل کے پاس مشرق وسطیٰ میں اپنے پڑوسیوں کے مقابلے مِیں زیادہ جدید ہتھیار موجود ہوں۔
Getty Imagesایف-35 طیارہ کتنا خطرناک ہے؟
امریکہ کی ایرو سپیس کمپنی لاک ہیڈ مارٹن ایف - 35 طیارہ بناتی ہے۔ کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق یہ ایف - 35 ’دنیا کا سب سے زیادہ جدید ترین لڑاکا طیارہ ہے۔‘
اپنی سٹیلتھ اور دیگر ٹیکنالوجی کے سبب یہ یڈار پر ظاہر نہیں ہوتا ہے۔
یہ پہلے دشمن کے ڈیفنس سسٹم پر حملہ کرتا ہے تاکہ اس کی حملہ کرنے کی صلاحیت کو ختم کیا جائے اور پھر دشمن کےلڑاکا طیارے کو تباہ کرتا ہے۔
کمپنی اس لڑاکا طیارے کو ’دنیا کے مہلک ترین، پائیدار اور رابطے میں رہنے والا لڑاکا طیارہ‘ قرار دیتی ہے۔
اس کی صلاحیت کا انحصار جہاز میں موجود سٹیلتھ ٹیکنالوجی، ایڈونس سینسرز، اور ہائی سپیڈ کمپیوٹنگ پر ہے۔ یہ کافی فاصلے سے دشمن کا پتہ لگا لیتا ہے جس کے افواج کو خطرات کو مدنظر رکھتے ہوئے حملے کی بہتر منصوبہ بندی کرنا آسان ہو جاتی ہے۔
آسٹریلیا، کینیڈا، اٹلی، ڈنمارک، نیدرلینڈز، ناروے اور برطانیہ سمیت کئی ممالک F-35 کی تیاری کے لیے امریکہ کے شراکت دار ہیں۔
رفال سمیت پانچ انڈین جنگی طیارے ’گرانے جانے‘ کے دعویٰ پر بی بی سی ویریفائی کا تجزیہ اور بھٹنڈہ کے یوٹیوبر کی کہانیجنگی طیاروں سے میزائلوں اور ڈرونز تک: پاکستان چینی ہتھیاروں پر کتنا انحصار کرتا ہے اور کیا مستقبل میں اس میں اضافہ ہو سکتا ہے؟سیف الاعظم: پاکستانی فضائیہ کے وہ پائلٹ جنھوں نے چھ روزہ جنگ میں اسرائیلی طیاروں کو مار گرایاامریکی F-35 یا روسی SU-57: جدید لڑاکا طیاروں کی کمی اور وہ پیشکش جس نے انڈین فضائیہ کو مشکل میں ڈال دیاسعودی ولی عہد کا دورہِ امریکہ: کیا ایف-35 طیاروں کی خریداری کا معاہدہ اسرائیل کو پریشان کر سکتا ہے؟برطانیہ کا جدید ترین لڑاکا ایف-35 بی طیارہ انڈین ایئرپورٹ پر ایک ہفتے سے کیوں کھڑا ہے؟