فیصل آباد پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والے محمد آصف کا ٹی ایل پی اور فوج سے کیا تعلق تھا؟

بی بی سی اردو  |  Nov 20, 2025

Getty Imagesٹی ایل پی کے حالیہ مظاہرے کے دوران مریدکے میں پولیس آپریشن ہوا تھا جس میں ایک پولیس اہلکار سمیت متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے

تین روز قبل پنجاب کے شہر فیصل آباد کی ایک تحصیل سمندری میں ایک مسجد کے باہر پولیس کی فائرنگ سے محمد آصف نامی ایک شخص مارا گیا تھا جو نہ صرف کالعدم تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کا کارکن تھا بلکہ اس کا تعلق ماضی میں پاکستانی فوج سے بھی بتایا جا رہا ہے۔

ابتدائی طور پر ٹی ایل پی نے محمد آصف کو بطور کارکن تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا تاہم ان کی ہلاکت کے بعد کالعدم جماعت کی جانب سے نہ صرف انھیں اپنا کارکن تسلیم کیا گیا بلکہ ان کی موت پر افسوس کا اظہار بھی کیا گیا۔

دوسری جانب بی بی سی کو عسکری ذرائع اور ایک اعلیٰ پولیس افسر نے تصدیق کی ہے کہ ہلاک ہونے والے محمد آصف ماضی میں پاکستانی فوج کا حصہ رہے ہیں لیکن وہ بغیر اطلاع دیے جنوری 2025 میں ادارے کو چھوڑ گئے تھے جبکہ ان پر ڈسپلن کی خلاف ورزی کے بھی الزامات تھے۔

واضح رہے کہ اپنی ہلاکت سے قبل محمد آصف روپوش تھے اور اس دوران سوشل میڈیا پر انھوں نے فوج کا حصہ ہونے کی تصدیق کی تھی۔ اسی دوران ہی ان کی بی بی سی اردو سے بھی گفتگو ہوئی تھی۔

محمد آصف کا ٹی ایل پی اور فوج سے کیا تعلق تھا اور وہ کن کن سرگرمیوں میں ملوث رہے؟ یہ جاننے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ 17 اکتوبر کو سمندری میں ہوا کیا تھا؟

’آج پولیس یا کوئی اور میرے سامنے آیا تو جان سے مار دوں گا‘

پولیس رپورٹ کے مطابق 17 اکتوبر کو محمد آصف نے پولیس پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں پولیس کے ڈرائیور افتخار ہلاک ہوئے تھے۔ اس واقعے کی ایف آئی آر سمندری تھانے میں درج کی گئی تھی۔

بی بی سی کو دستیاب ایف آئی آر کے مطابق محمد آصف نے بازار میں اچانک پولیس پر فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے اور اس کے بعد ’ملزم نے اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے‘ ایک مسجد کی طرف جاتے ہوئے گاؤں سے گزرنے والے ایک کانسٹیبل علی رضا پر بھی فائرنگ کی، جس سے وہ زخمی ہو گئے۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ ملزم ’مسجد میں جا کر لاؤڈ سپیکر سے اعلانات کر رہا تھا کہ آج پولیس یا کوئی بھی میرے سامنے آیا تو جان سے ماردوں گا۔‘

ایف آئی آر کے مطابق ملزم نے مسجد کے دروزاے پر آ کر فائرنگ کی اور پولیس کی جوابی فائرنگ میں مارا گیا۔

اس واقعے کے ایک عینی شاہد نے بھی بی بی سی سے گفتگو کے دوران سمندری میں پیش آنے والے واقعے کے بارے میں بتایا۔

عینی شاہد نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ان (محمد آصف) نے اعلان کیا تھا کہ ’مریدکے میں بڑا ظلم ہوا تھا، انھوں نے بہت لوگوں کو مارا تھا اور میں اس واقعے کا گواہ ہوں اس لیے یہ مجھے بھی مارنا چاہتے ہیں۔ چک والو، شرم کرو میرا ساتھ دو اپنے چک کی ناک نہ کٹواؤ اور میرے ساتھ کھڑے ہو۔ میں فوج کا تربیت یافتہ ہوں۔‘

BBCاپنی ہلاکت سے قبل محمد آصف روپوش تھے اور اسی دوران انھوں نے بی بی سی اردو سے گفتگو کی تھی

واقعے کے عینی شاہد کے مطابق ملزم محمد آصف کی پولیس پر فائرنگ کے بعد اہل علاقہ نے بھی 15 پر کال کی تھی، جس کے بعد اہلکاروں نے مسجد کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا تھا۔

’پھر پولیس والے اردگرد چھتوں پر چڑھے اور وہاں سے فائرنگ کی اور مسجد کی سیڑھیوں پر ہی آصف کی ہلاکت ہو گئی۔‘

عینی شاہد نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ پولیس مقابلے کے فوراً بعد ہی انتظامیہ اور پولیس اہلکاروں نے محمد آصف کی لاش کو اہلخانہ کے حوالے نہیں کیا۔

فیصل آباد انتظامیہ کے ایک افسر نے بھی بی بی سی کو تصدیق کی ہے کہ محمد آصف کی لاش کو اسی دن انتظامیہ کے اہلکاروں نے دفنا دیا تھا۔

تحریک لبیک کا عروج، مریدکے آپریشن اور حکومتی کریک ڈاؤن: ٹی ایل پی کا مستقبل کیا ہو گا؟سعد رضوی سمیت ٹی ایل پی قیادت کے خلاف انسداد دہشتگردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج: مریدکے میں پولیس آپریشن کے دوران کیا ہوا؟27ویں آئینی ترمیم: ’طاقت کا پلڑا ایک بار پھر فوج کے حق میں‘ اور اس کے سربراہ تاحیات فیلڈ مارشلپاکستان آرمی ایکٹ میں ترمیم قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ سے بھی منظور: چیف آف ڈیفینس فورسز کی مدت ملازمت کیا ہو گی؟محمد آصف کا فوج اور ٹی ایل پی سے کیا تعلق تھا؟

محمد آصف کی ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا پر ان کی ویڈیوز بھی گردش کر رہی ہیں، جن میں سے ایک میں وہ کہہ رہے ہیں کہ انھوں نے مریدکے میں پولیس آپریشن اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’مریدکے سانحہ کے بعد میں کئی عرصے سے بے گھر ہوں۔‘

خیال رہے گذشتہ مہینے ٹی ایل پی کے پُرتشدد احتجاجی مظاہرے کے دوران مریدکے میں پولیس آپریشن ہوا تھا جس میں ایک پولیس اہلکار سمیت متعدد افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اسی پرتشدد احتجاجی مظاہرے کے بعد پاکستان کی وفاقی حکومت نے پنجاب حکومت کی سفارش پر ٹی ایل پی پر پابندی عائد کی تھی۔

اپنی ویڈیوز میں محمد آصف نے مریدکے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ پنجاب سمیت دیگر اعلیٰ حکام کو بھی دھمکیاں دی تھیں اور فوج اور اس کے خفیہ ادارے پر الزامات عائد کیے تھے۔

بی بی سی کو ایک عسکری ذرائع اور پولیس کے اعلیٰ افسر نے تصدیق کی ہے کہ ’یہ شخص فوج سے بھاگا ہوا تھا اور انٹیلیجنس ادارے کا حصہ تھا۔ یہ مریدکے واقعے سے قبل ٹی ایل پی احتجاج میں شامل ہوا اور اپنی موت تک روپوش رہا۔‘

’انٹیلیجس ادارے کافی عرصے سے ان کی تلاش میں تھے لیکن یہ ان کے ہاتھ نہیں آ رہا تھا۔ جس دن یہ واقعہ پیش آیا اس دن انٹیلیجس اہلکار بھی پولیس کے اہلکاروں کے ہمراہ گاؤں میں ان کی موجودگی چیک کرنے گئے تھے۔‘

Getty Imagesحالیہ پرتشدد احتجاجی مظاہرے کے بعد پاکستان کی وفاقی حکومت نے پنجاب حکومت کی سفارش پر ٹی ایل پی پر پابندی عائد کی تھی

عسکری ذرائع نے مزید بتایا کہ ’پہلے تو یہ شخص اپنے گاؤں میں آتا ہی نہیں تھا اور کہیں چھپا ہوا تھا لیکن کچھ دن قبل ہمیں یہ معلوم ہوا کہ یہ اپنے گاؤں کے ایک شخص کے ساتھ رابطے میں ہے کیونکہ ان کا نمبر ٹریسنگ پر لگا رکھا تھا۔‘

مریدکے آپریشن کے فوراََ بعد اس واقعے سے متعلق بہت سی معلومات بی بی سی اردو کو موصول ہوئی تھی اور اسی دوران ایک شخص نے رابطہ کر کے دعویٰ کیا تھا کہ وہ اس واقعے کا عینی شاہد ہے۔

رابطہ کرنے والے شخص محمد آصف تھے، جنھوں نے بی بی سی کی نامہ نگار سے 20 منٹ ویڈیو کال پر بھی بات کی تھی۔ اس دوران وہ ایک کھیت میں موجود تھے اور بار بار ان کی ویڈیو کال منقطع ہو رہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ایجنسیاں مجھے ٹریس کر رہی ہیں۔‘

محمد آصف نے اس دوران نہ صرف اپنا نام بتایا تھا بلکہ گھر کا پتا اور خاندان کی تفصیلات بھی شیئر کی تھیں۔

انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ ’میرے اور رشتے داروں کے گھر پر روزانہ چھاپے مارے جاتے ہیں تاکہ میں پکڑا جا سکوں۔‘

انھوں نے مزید کہا تھا کہ ’میں ٹی ایل کا حصہ تھا اور مریدکے احتجاج والے دن بھی وہاں تھا۔ میں اس سکواڈ کا حصہ تھا جو سعد رضوی کے کنٹینر کی حفاطت پر مامور تھا۔ میرے پاس اس وقت اسلحہ تو نہیں تھا لیکن آنسو گیس کے شیل چلانے والی گن ضرور تھی جو میں نے چلائی تھی۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ باقاعدہ فوج سے استعفیٰ بھی دے چکے ہیں تاہم بی بی سی کے پاس ان کا سروس کارڈ بھی موجود ہے جس پر ان کا عہدہ سپاہی درج ہے۔

آصف کے دعوؤں کے بارے میں بات کرنے کے لیے بی بی سی کی جانب سے پولیس سے بھی کئی مرتبہ رابطہ کیا گیا لیکن کوئی جواب موصول نہیں ہوا جبکہ اس واقعے کے بارے میں فیصل آباد انتظامیہ اور سی پی او فیصل آباد سے بھی رابطہ کیا گیا لیکن انھوں نے بھی اس معاملے پر کوئی جواب نہیں دیا تاہم صرف اتنا کہا کہ یہ معاملہ سی ٹی ڈی کے پاس ہے۔

تحریک لبیک کا عروج، مریدکے آپریشن اور حکومتی کریک ڈاؤن: ٹی ایل پی کا مستقبل کیا ہو گا؟آئی ایس آئی کے سابق بریگیڈیئر کا عادل راجہ کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ درست قرار: برطانوی عدالت کے فیصلے میں کیا ہے؟سعد رضوی سمیت ٹی ایل پی قیادت کے خلاف انسداد دہشتگردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج: مریدکے میں پولیس آپریشن کے دوران کیا ہوا؟27ویں آئینی ترمیم: ’طاقت کا پلڑا ایک بار پھر فوج کے حق میں‘ اور اس کے سربراہ تاحیات فیلڈ مارشللندن میں اسرائیلی وفد کے ساتھ ویڈیو پر پاکستانی مشیر کی وضاحت اور دفتر خارجہ کا اظہار لاعلمیپاکستان آرمی ایکٹ میں ترمیم قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ سے بھی منظور: چیف آف ڈیفینس فورسز کی مدت ملازمت کیا ہو گی؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More