یوکرین میں قیام امن کا امریکی منصوبہ ’لیک‘: روس کو عالمی تنہائی سے نکالنے اور یوکرینی فوج کی تعداد کم کرنے کی تجاویز

بی بی سی اردو  |  Nov 22, 2025

Getty Images

یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے خبردار کیا ہے کہ امریکہ کے نئے امن منصوبے کی وجہ سے کیئو امریکی حمایت کھو سکتا ہے۔

جمعے کی شب قوم سے خطاب میں زیلنسکی نے کہا کہ یوکرین کو ’بہت مشکل فیصلے‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ’یا تو ہم اپنا قومی وقار کھو دیں، یا اپنے سب سے اہم اتحادی کا ساتھ کھونے کا خطرہ مول لیں۔‘ ان کے مطابق ’یہ ہماری تاریخ کے سب سے مشکل لمحوں میں سے ایک ہے۔‘

امریکی امن منصوبہ ان تجاویز پر مشتمل ہے جنھیں یوکرین پہلے ہی رد کر چکا ہے، جیسے مشرقی علاقوں کا کچھ حصہ چھوڑ دینا جن پر اس وقت یوکرین کا کنٹرول ہے، فوج کی تعداد میں بڑی حد تک کمی اور نیٹو میں شامل نہ ہونے کا وعدہ۔

لیک ہونے والے مسودے کی تفصیلات سے یہ بھی سامنے آیا ہے کہ اس میں یوکرین کے صنعتی مشرقی علاقے دونباس کے ایک حصے، جو اب بھی یوکرین کے کنٹرول میں ہے، کو روس کے کنٹرول میں دینے کی تجویز شامل ہے۔

مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یوکرین اپنی مسلح افواج کی تعداد گھٹا کر چھ لاکھ تک لے آئے۔

یہ نکات روس کے حق میں سمجھے جا رہے ہیں اور روسی صدر ولادیمیر پوتن نے کہا ہے کہ یہ منصوبہ امن کے معاہدے کی ’بنیاد‘ بن سکتا ہے۔

لیکن اس مسودے کے بارے میں اور کیا معلومات سامنے آئی ہیں اور اس سے سب سے زیادہ فائدہ کسے ہو سکتا ہے؟

امریکی امن منصوبے کے اہم نکات کیا ہیں؟

اس مسودے میں 28 نکات ہیں جن میں سے کچھ یوکرین کے لیے قابلِ قبول ہو سکتے ہیں، لیکن کئی نکات بہت مبہم اور غیر واضح ہیں۔

منصوبے میں کہا گیا ہے کہ یوکرین کی خودمختاری کی ’تصدیق‘ کی جائے گی اور روس، یوکرین اور یورپ کے درمیان ’عدم جارحیت‘ کا معاہدہ ہوگا۔ اس کے ساتھ کیئو کے لیے سکیورٹی گارنٹیز دینے اور 100 دنوں کے اندر انتخابات کرانے کی بات بھی شامل ہے۔

اگر روس دوبارہ حملہ کرے تو ایک ’مشترکہ اور مضبوط فوجی ردعمل‘ دینے کی تجویز ہے، پابندیاں بحال کرنے اور معاہدہ ختم کرنے کی شق بھی موجود ہے۔

فی الحال یوکرین میں مارشل لا کی وجہ سے انتخابات ممکن نہیں لیکن اگر امن معاہدہ ہو جائے تو اصولی طور پر انتخابات کرائے جا سکتے ہیں۔

لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ سکیورٹی گارنٹیز کے بارے میں کچھ واضح نہیں ہے۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ ضمانتیں کون دے گا اور کتنی مضبوط ہوں گی۔

یہ نیٹو کے آرٹیکل فائیو جیسی واضح ضمانت کے برابر نہیں جس میں ایک ملک پر حملہ سب پر حملہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے یوکرین کے لیے ایسے مبہم وعدوں کو قبول کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔

یوکرین کی زمین روس کے حوالے کرنے اور فوج میں کمی کی تجاویز

سب سے متنازع تجاویز میں شامل ہے کہ یوکرین اپنا وہ علاقہ روس کے حوالے کرے جو اب بھی اس کے کنٹرول میں ہے اور اپنی مسلح افواج کی تعداد کم کرے۔

’یوکرینی فوج دونیٹسک اوبلاست کے اس حصے سے پیچھے ہٹ جائے گی جو اس وقت اس کے کنٹرول میں ہے اور یہ علاقہ ایک غیر جانبدار غیر فوجی بفر زون سمجھا جائے گا، جسے بین الاقوامی طور پر روسی فیڈریشن کا علاقہ تسلیم کیا جائے گا۔ روسی افواج اس غیر فوجی علاقے میں داخل نہیں ہوں گی۔‘

اس میں وہ شہر بھی شامل ہیں جہاں لاکھوں لوگ رہتے ہیں اس لیے یہ زیادہ تر یوکرینی عوام کے لیے کسی صورت قابلِ قبول نہیں ہو گا۔ روس ایک سال سے زیادہ عرصے سے پوکرووسک شہر پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اس لیے یوکرین ایسے اہم سٹریٹیجک مراکز بغیر لڑے چھوڑنے کو تیار نہیں ہوگا۔

’یوکرینی مسلح افواج کی تعداد کو چھ لاکھ اہلکاروں تک محدود کیا جائے گا۔‘

اگرچہ چھ لاکھ کی تعداد امن کے زمانے میں قابلِ قبول لگ سکتی ہے لیکن ایسی پابندی یوکرین کی خودمختاری میں مداخلت ہوگی۔

یوکرین کا واضح موقف ہے کہ وہ روس کے قبضے والے علاقوں کو کسی صورت روسی نہیں مانے گا اور نہ ہی اپنی فوج کے سائز یا دفاعی صلاحیت پر کوئی پابندی قبول کرے گا۔

ٹرمپ اب تک پوتن کو یوکرین جنگ ختم کرنے پر آمادہ کیوں نہیں کر سکے؟سستے تیل کی ’سازش‘ جس نے سرد جنگ میں سوویت یونین کو نقصان پہنچایا، کیا ٹرمپ اسے دہرا سکتے ہیں؟’فلائنگ کریملن‘ اور ہنگری تک محض چند گھنٹوں کا سفر، لیکن پوتن کے لیے یہ اتنا طویل کیوں؟یوکرین کو امریکہ سے ٹوماہاک ملنے کا امکان: کیا یہ میزائل روس کے خلاف جنگ میں گیم چینجر ثابت ہوں گے؟

مسودے میں یہ بھی تجویز ہے کہ ’کریمیا، لوہانسک اور دونیٹسک کو عملی طور پر روسی تسلیم کیا جائے، یہاں تک کہ امریکہ بھی انھیں روسی شہر تسلیم کرے۔‘

یعنی یوکرین اور دیگر ممالک قانونی طور پر روس کے قبضے کو تسلیم نہیں کریں گے اور اس طرح کی عبارت کیئو کے لیے قابلِ قبول ہو سکتی ہے کیونکہ یہ یوکرینی آئین کے اصولوں سے متصادم نہیں، جو کہتا ہے کہ یوکرین کی سرحدیں ’ناقابلِ تقسیم‘ ہیں۔

دوسری طرف، جنوبی علاقوں خیرسون اور زاپوریژیا میں محاذوں پر جنگ روک دی جائے گی اور روس یوکرین کے دیگر زیر قبضہ علاقوں سے پیچھے ہٹ جائے گا۔

’یوکرین یورپی یونین میں شامل ہو گا مگر نیٹو میں نہیں‘

مسودے میں یوکرین کے مستقبل کے حوالے سے اہم تجاویز شامل ہیں:

یوکرین اپنے آئین میں یہ شامل کرے گا کہ وہ نیٹو میں شامل نہیں ہوگا اور نیٹو بھی اپنے قوانین میں یہ شق شامل کرے گا کہ مستقبل میں یوکرین کو رکنیت نہیں دی جائے گی۔

ساتھ ہی یوکرین یورپی یونین میں شمولیت کا اہل ہوگا اور اس دوران اسے عارضی طور پر یورپی مارکیٹ تک ترجیحی رسائی حاصل ہو گی۔

مسودے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نیٹو یوکرین میں فوج نہیں تعینات کرے گا، یورپی لڑاکا طیارے پولینڈ میں ہوں گے، اور کیئو کو غیر جوہری ریاست رہنے کا وعدہ کرنا ہوگا۔ یہ تجویز مغربی ممالک کی نگرانی کے منصوبے کو رد کرتی ہے۔

’روس کو تنہائی سے نکالا جائے گا‘

کئی نکات میں روس کو تنہائی سے نکالنے کا ذکر ہے جس کے تحت اسے عالمی معیشت میں دوبارہ شامل کیا جائے اور جی ایٹ میں واپس بلایا جائے۔

لیکن فی الحال یہ کافی دور کی بات لگتی ہے کیونکہ پوتن کے لیے بین الاقوامی فوجداری عدالت کا گرفتاری وارنٹ ہے۔ 2014 میں روس کے کریمیا پر قبضے کے بعد اسے جی سیون سے نکال دیا گیا تھا اور چھ سال بعد ٹرمپ نے اسے دوبارہ شامل کرنے کی کوشش کی تھی۔

اگر برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی اور جاپان پہلے ہی اس حوالے سے ہچکچا رہے تھے تو اب ایسا ہونے کے امکانات اور بھی کم ہیں۔

EPAروس کے منجمد اثاثوں کا کیا ہو گا؟

مسودے میں تجویز ہے کہ روس کے 100 ارب ڈالر کے منجمد اثاثے امریکہ کی قیادت میں یوکرین کی تعمیر نو اور سرمایہ کاری کے لیے استعمال کیے جائیں، جس میں امریکہ کو منافع کا 50 فیصد ملے گا اور یورپ 100 ارب ڈالر کی اضافی سرمایہ کاری کرے گا۔

مسودے میں کہا گیا ہے کہ یہ رقم شاید کافی نہ ہو، کیونکہ اس سال یوکرین کی مکمل تعمیرِ نو کی لاگت تقریباً 524 ارب ڈالر (506 ارب یورو) رکھی گئی تھی۔

تقریباً 200 ارب یورو کے روسی منجمد اثاثے یوروکلیئر بیلجیم میں رکھے گئے ہیں اور یورپی یونین اس رقم کو کیئو کی مالی اور عسکری مدد کے لیے استعمال کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

مسودے کے مطابق باقی منجمد اثاثے ایک ’امریکہ-روس سرمایہ کاری منصوبے‘ میں جائیں گے جس سے روس کا کچھ پیسہ واپس آئے گا جبکہ امریکہ کو بھی مالی فائدہ حاصل ہوگا۔

منصوبے میں کیا شامل نہیں ہے؟

کئی ماہرین نے نشاندہی کی ہے کہ مسودے میں یوکرین کی فوج یا اس کی ہتھیاروں کی صنعت پر کسی پابندی کا مطالبہ نہیں کیا گیا، حالانکہ ایک شق میں کہا گیا ہے کہ اگر یوکرین نے ماسکو یا سینٹ پیٹرزبرگ پر میزائل حملہ کیا تو سکیورٹی ضمانت ختم ہو جائے گی۔

تاہم اس میں یوکرین کے تیار کردہ طویل فاصلے کے ہتھیاروں اور میزائلوں پر کوئی پابندی نہیں رکھی گئی۔

Getty Images’پوتن صرف اپنی شرائط پر مذاکرات کے لیے تیار‘

بی بی سی کے روسی امور کے ایڈیٹر سٹیو روزنبرگ کا تجزیہ:

جمعرات کو پینٹاگون کا ایک وفد کیئو میں تھا جہاں وہ صدر زیلنسکی کے ساتھ یوکرین کی جنگ ختم کرنے کے لیے تیار کیے گئے امن منصوبے پر بات چیت کر رہا تھا۔

اسی روز روسی سرکاری ٹی وی پر صدر پوتن فوجی وردی میں اپنے کمانڈروں کے ساتھ بیٹھے جنگ جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کر رہے تھے۔

کریملن سربراہ نے دوٹوک انداز میں کہا: ’ہمارے مقاصد اور ذمہ داریاں واضح ہیں۔ سب سے اہم مقصد خصوصی فوجی آپریشن کے اہداف کو ہر صورت حاصل کرنا ہے۔‘

اخبار ازویسٹیا نے پوتن کے کمانڈ پوسٹ کے دورے کو یوں بیان کیا: ’یہ امریکہ کے لیے ایک پیغام ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن صرف روس کی شرائط پر۔‘

جمعہ کی رات صدر پوتن نے کہا کہ انھوں نے یوکرین کے لیے امریکہ کے امن منصوبے مسودہ دیکھا ہے۔

ماسکو میں روسی سکیورٹی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے امریکی تجاویز کو ٹرمپ کے ساتھ اگست میں الاسکا سمٹ کے دوران زیر بحث منصوبے کا ’جدید ورژن‘ قرار دیا۔

صدر پوتن نے کہا کہ انھیں لگتا ہے یہ منصوبے حتمی امن معاہدے کی بنیاد بن سکتے ہیں۔

یہ 28 نکاتی مسودہ، صدر پوتن کے ایلچی کیریل دمترییف کے امریکہ کے دورے کے بعد سامنے آیا ہے۔ دمترییف نے میامی میں صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی سٹیو وٹکوف کے ساتھ تین دن تک بات چیت میں حصہ لیا۔

دمتری پیسکوف نے صحافیوں سے کہا تھا: ’روسی فوج کی موثر کارروائی سے زیلنسکی اور ان کے انتظامیہ کو قائل ہو جانا چاہیے کہ بہتر ہے اب ایک معاہدہ طے کر لیا جائے۔‘

اگر کوئی معاہدہ نہ ہوا تو کیا ہوگا؟

کریملن کے حامی مبصرین کہتے ہیں کہ چاہے امن معاہدہ ہو یا نہ ہو، روس آخرکار غالب آئے گا۔

روس کے اخبار ماسکووسکی کومسومولیٹس کے مطابق، سب سوچ رہے تھے کہ امن منصوبہ ختم ہو گیا ہے لیکن اچانک ایک نیا یا ’پرانا نیا‘ امن منصوبہ سامنے آیا جس میں الاسکا سمٹ جیسا عنصر بھی ہے۔

روس تقریباً چار سال کی جنگ کے بعد مشکلات میں ہے۔ فوج کو میدان جنگ میں بھاری نقصان ہوا اور معیشت کمزور ہو رہی ہے۔ بجٹ خسارہ بڑھ رہا ہے اور تیل و گیس کی آمدنی کم ہو رہی ہے۔

نیزاویسیمایا گازیٹا کے مطابق ’روس کی صنعت جمود اور زوال کے بیچ ہے۔‘

امن منصوبے کے کچھ پہلو روس میں پسند نہیں کیے گئے۔ رپورٹس کے مطابق یوکرین کو نیٹو کے آرٹیکل فائیو جیسی سکیورٹی ضمانت دی جا سکتی ہے، یعنی اگر روس دوبارہ حملہ کرے تو مغربی ممالک مشترکہ جواب دیں۔ ماسکووسکی کومسومولیٹس نے لکھا: ’یہ یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنے کے مترادف ہے، بس اڈے یا ہتھیار نہیں رکھے جائیں گے۔‘

امن منصوبے کی مکمل تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئیں لیکن ایک نئے دور کی سفارتکاری شروع ہونے والی ہے۔

مگر فی الحال روس کی یوکرین پر جنگ جاری ہے۔

ٹرمپ اب تک پوتن کو یوکرین جنگ ختم کرنے پر آمادہ کیوں نہیں کر سکے؟سستے تیل کی ’سازش‘ جس نے سرد جنگ میں سوویت یونین کو نقصان پہنچایا، کیا ٹرمپ اسے دہرا سکتے ہیں؟یوکرین کو امریکہ سے ٹوماہاک ملنے کا امکان: کیا یہ میزائل روس کے خلاف جنگ میں گیم چینجر ثابت ہوں گے؟’فلائنگ کریملن‘ اور ہنگری تک محض چند گھنٹوں کا سفر، لیکن پوتن کے لیے یہ اتنا طویل کیوں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More