وزیرِ اعلیٰ سہیل آفریدی رات بھر پڑاؤ کے بعد اڈیالہ جیل سے روانہ: ’اب احتجاج پورے ملک میں ہو گا‘

بی بی سی اردو  |  Nov 28, 2025

وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی اڈیالہ جیل کے باہر رات بھر پڑاؤ کے بعد وہاں سے روانہ ہو گئے ہیں۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے مطابق سہیل آفریدی اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے ملاقات کی کوشش کریں گے جس میں عمران خان سے ہفتے میں دو مرتبہ ملاقات کے عدالتی حکمنامے پر عمل درآمد پر زور دیا جائے گا۔

خیال رہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کا کہنا ہے کہ وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کو اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیرِ اعظم عمران خان سے جمعرات کو بھی ملنے نہیں دیا گیا تھا، جس کے بعد وہ کارکنان کے ہمراہ جیل کے باہر ہی بیٹھ گئے تھے۔

وزیرِ اعلیٰ بننے کے بعد اب تک سہیل آفریدی پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان سے ملاقات نہیں کر سکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ترجمان کے مطابق وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا اب تک آٹھ مرتبہ عمران خان سے ملنے کے لیے اڈیالہ جیل آ چکے ہیں۔

گذشتہ کئی دنوں سے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی صحت سے متعلق قیاس آرائیاں سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں۔

جمعرات کی دوپہر اڈیالہ جیل کے باہر آمد کے موقع پر سہیل آفریدی نے ان افواہوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ'ہم چاہتے ہیں کہ آج ہماری ان سے ملاقات ہو جائے کیونکہ غیر یقینی کی صورتحال میں اضطراب، تشویش بڑھ رہی ہے اور عوام میں بھی بے چینی کا باعث بن رہی ہے۔ ایسی کیفیت طویل ہوئی تو قوم سڑکوں پر آنے پر مجبور ہو سکتی ہے۔'

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی بھی اڈیالہ جیل کے باہر احتجاج میں شریک تھے۔ انھوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ احتجاج کا آغاز ہے، یہاں ایک پورا صوبہ احتجاج پر بیٹھا ہے۔ ان کے مطابق ’اب یہ دھرنے پورے ملک تک پھیلیں گے اور نہ کوئی وزیر اعلیٰ رہے گا اور نہ کوئی وزیر اعظم ہوں گا اور راج کرے گی خلق خدا۔‘

’ہمیں بتایا گیا کہ عاصم منیر کی توسیع تک کسی کو بھی عمران خان سے ملنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی‘

عمران خان کی بہن علیمہ خان نے سوشل میڈیا ایپ ایکس پر لکھا کہ ’عمران خان غیر قانونی قید تنہائی میں ہیں۔ لوگ ہم سے ان کی صحت اور حفاظت کے بارے میں پوچھتے رہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے پاس کسی ایسے شخص تک رسائی نہیں جو ہمیں تصدیق شدہ معلومات دے سکے۔‘

ان کے مطابق ’میڈیا جیل حکام کے ’سرکاری بیانات‘ کا حوالہ دے سکتا ہے لیکن ہم ان کی ایک بھی بات پر اعتماد نہیں کرتے۔‘

علیمہ خان کے مطابق ’حل آسان ۔۔۔۔ عدالتی احکامات کی پیروی کریں اور اپنے خاندان، وکلا اور پارٹی قیادت کو اپنوں سے ملنے کی اجازت دیں۔ علیمہ خان نے کہا کہ 'ہم انھیں محفوظ سمجھتے ہیں کیونکہ حکام عمران خان کے سر کے ایک بال کو بھی نقصان پہنچانے کی ہمت نہیں کریں گے۔ وہ اس طرح کی کسی بھی بے وقوفی کے نتائج سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ کم از کم 90فیصد پاکستان کے رہنما ہیں۔‘

عمران خان کی بہن نے لکھا کہ ’انھیں (حکمرانوں کو) یقینی طور پر پاکستانی قوم کے غصے سے خوفزدہ ہونا چاہیے۔ ہمارے خاندان اور قانونی ٹیم نے عمران خان سے آخری بار 16اکتوبر کو ملاقات کی، جو ان اور بشریٰ بی بی کے جیل مقدمے کے آخری دن تھا۔ اس کے بعد سے صرف ہماری بہن ڈاکٹر عظمیٰ خان کو ان سے دو بار – 28 اکتوبر اور چار نومبر کو ۔۔۔ تقریباً 20منٹ کے لیے ملنے کی اجازت دی گئی ہے۔

ان کے مطابق ’یہ اجازت بھی صرف اس وقت دی گئی جب ہم نے آدیالہ کے باہر احتجاج اور دھرنے کیے تھے۔‘

علیمہ خان نے کہا کہ ’عمران خان سے آخری ملاقات ڈاکٹر عظمیٰ اور بشری بی بی کی بیٹی کی چار نومبر کو ہوئی۔ اس دن کے بعد سے ہمارا رابطہ مکمل طور پر منقطع ہے، نہ کوئی خاندان، نہ وکیل، اور نہ ہی کسی پارٹی رکن کو عمران خان سے ملاقات کے لیے کسی قسم کی رسائی دی گئی۔‘

علیمہ خان نے یہ دعویٰ کیا کہ ’نو دن پہلے ہمیں بتایا گیا تھا کہ جب تک عاصم منیر کو اس کی توسیع کی اطلاع نہ ملے، کوئی بھی عمران خان سے ملنے کی اجازت نہیں دے گا۔ ہم اب بھی یہ نہیں سمجھ پاتے کہ ہمارے قانونی اور آئینی حق کا اپنے بھائی سے ملنے کا کسی کی توسیع سے کیا تعلق ہے۔ ایک خاندان کی رسائی حکومت کی نوکری کی توسیع سے کیوں منسلک ہے؟‘

بی بی سی علیمہ خان کے اس دعوے کی آزادانہ طور پر کوئی تصدیق نہیں کر سکا۔

Getty Imagesجیل حکام کا کہنا ہے کہ عمران خان صحت مند ہیں اور انھیں جیل میں طبی سہولیات دستیاب ہیں

اس سے قبل پاکستان کے سوشل میڈیا پر بدھ کے روز سے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق وزیراعظم عمران خان کے بارے میں متضادات اطلاعات گردش کر رہی ہیں۔

بدھ کی شب سوشل میڈیا پر جہاں کئی صارفین نے یہ شبہ ظاہر کیا کہ عمران خان کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے کسی اور مقام پر منتقل کر دیا گیا ہے، وہیں بعض افراد کا کہنا تھا کہ جیل میں قید کے دوران عمران خان انتقال کر گئے ہیں۔

سابق وزیر اعظم عمران خان دو سال سے زیادہ عرصے سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، انھیں 190 ملین پاؤنڈ کے مقدمے میں احتساب عدالت نے سزا سنائی تھی۔

سوشل میڈیا پر گردش کرتی خبروں پر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے حکام کا کہنا ہے کہ عمران خان بالکل صحت مند ہیں۔

اڈیالہ جیل کے حکام نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان بالکل صحت مند ہیں اور انھیں جیل کے قوائد کے علاوہ عدالت کی طرف سے ہدایت کردہ دیگرتمام سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں۔

دوسری جانب عمران خان کی بہن علیمہ خان نے اپنے بھائی کے انتقال اور اسی نوعیت کی دیگر افواہوں کی مکمل تردید کی ہے۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ جیل میں قید کے دوران عمران خان کے انتقال کی افواہیں گردش کر رہی ہیں لیکن اس بار یہ خبریں پھیلنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے اہلخانہ کو گذشتہ تین ہفتوں سے ان سے ملاقات کی اجازت نہیں ملی، جس نے مزید افواہوں کو جنم دیا۔

واضح رہے کہ رواں مہینے میں عمران خان کے اہلخانہ اور پارٹی قائدین کو ان سے ملنےکی اجازت نہیں دی گئی۔

سوشل میڈیا پر متعدد اکاؤنٹس کی جانب سے ایک تصویر بھی پوسٹ کی جا رہی ہے جس میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو ہپستال کے بیڈ پر لیٹا ہوا دیکھا جا سکتا ہے۔

تاہم بی بی سی اردو نے ریورس انجن سرچ کے ذریعے یہ معلوم کیا ہے کہ یہ تصویر دراصل نومبر 2022 کی ہے، جب پنجاب کے علاقے وزیرِ آباد میں عمران خان کے احتجاجی مارچ پر فائرنگ ہوئی تھی اور وہ بھی اس واقعے میں زخمی ہوئے تھے۔

Getty Imagesسابق وزیر اعظم عمران خان دو سال سے زیادہ عرصے سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیںعمران خان کے بارے میں افواہیں کیسے شروع ہوئیں؟

پاکستان میں سوشل میڈیا پرگذشتہ شب سے#WHEREISIMRANKHAN یعنی ’عمران خان کہاں ہیں‘ ٹرینڈ کر رہا ہے۔

سوشل میڈیا سائٹ ایکس پر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ صارفین پوچھ رہے ہیں عمران خان کہاں ہیں اور ایسی کیا وجوہات ہیں جو اُن سے ملاقات نہیں کرنے دی جا رہی۔

عمران خان کے اہلخانہ اور پارٹی کے دیگر قائدین کا کہنا ہے کہ گذشتہ کئی ہفتوں سے جیل حکام نے انھیں عمران خان سے ملاقات کی اجازت نہیں دی، جس پر اہلخانہ اور پارٹی قائدین نے اڈیالہ جیل کے باہر احتجاج بھی کیا۔

جیل میں ہفتہ وار ملاقات کے دن پر تحریک انصاف کے کارکنوں کی بڑی تعداد اڈیالہ جیل کے باہر موجود تھی لیکن انھیں عمران خان سے ملنے نہیں دیا گیا۔

جس کے بعد تحریکِ انصاف کے لندن میں مقیم رہنما زلفی بخاری نے عمران خان کے بارے میں سوشل میڈیا ایکس پر ایک بیان جاری کیا اور اُن کے بیان نے مختلف زیر گردش افواہوں کو مزید تقویت دی۔

زلفی بخاری نے کہا کہ ’عمران خان کی قیدِ تنہائی دن بدن مزید بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ کئی ہفتے گزرنے کے بعد بھی اُن سےملاقات نہیں ہوئی۔‘

زلفی بخاری نے کہا کہ ’اگر انھیں (عمران خان کو ) کہیں اور منتقل کیا گیا ہے تو خاندان کو کیوں مطلع نہیں کیا گیا۔ عدالتی احکامات کے باوجود بھی عمران خان تک رسائی کیوں نہ دی جا رہی۔‘

زلفی بخاری نے کہا کہ ’یہ خاموشی بہت غیر قانونی اور انتہائی پریشان کن ہے۔‘

بدھ کو تحریک انصاف کے کارکنوں کی بڑی تعداد اڈیالہ جیل کے باہر موجود تھی۔ سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں تحریکِ انصاف کے کارکن اور قائدین جیل کے باہر نعرے بازی کر رہے ہیں۔

ایسی ہی ایک ویڈیو میں جیل کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے تحریک انصاف کے رہنما شوکت بسرا نے کہا کہ ’شک ہے کہ جیل حکام نے انھیں (عمران خان کو) اڈیالہ سے کہیں اور منتقل نہ کر دیا ہو۔‘

Getty Imagesعلیمہ خان نے کہا کہ وہ اور ان کی بہنیں اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کرنے کے لیے اڈیالہ جیل پہنچی تھیںتحریکِ انصاف کا انڈین اور افغان میڈیا کی افواہوں کی تحقیقات کا مطالبہ

سوشل میڈیا پر عمران خان کے بارے جو افواہیں یا متضاد اطلاعات گردش کر رہی ہیں اُن میں زیادہ تر اکاؤنٹس ایسے ہیں جو بظاہر انڈیا یا افغانستان سے آپریٹ کر رہے ہیں۔ ان اکاؤنٹس پر عمران خان کی جیل میں موت کے بارے میں باتیں ہو رہی ہیں۔

جس کے بعد پاکستان تحریکِ انصاف نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عمران خان کی صحت کے بارے میں وضاحت دیں اور ان افواہوں کی واضح الفاظ میں تردید کریں۔

پاکستان تحریک انصاف نے اس بارے میں ایکس پر جاری اپنے تفصیلی بیان میں کہا ہے کہ ’افغانستان اور انڈین میڈیا کے پلیٹ فارمز اور غیر ملکی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے اکاؤنٹس سے سابق وزیراعظم پاکستان عمران خانکی خیریت سے متعلق افواہیں پھیلائی جارہی ہیں۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’چیئرمین عمران خان کی صحت، سلامتی اور موجودہ حیثیت کے بارے میں سرکاری سطح پر شفاف اور باضابطہ بیان جاری کیا جائے اور اس طرح کی خطرناک اور حساس نوعیت کی افواہوں کے پھیلانے والوں کے بارے میں تحقیقات کی جائیں۔‘

خیبر پختونخوا کے وزیرِ اعلیٰ سہیل آفریدی بھی جمعرات کو عمران خان سے ملاقات کے لیے اڈیالہ جیل پہنچے ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’ہمارے لیڈر اور قائد جناب عمران خان کی طبیعت ناساز ہے یا مختلف افواہیں پھیل رہی ہیں۔‘

سہیل آفریدکی وزیرِ اعلیٰ بننے کے بعد سے اب تک عمران خان سے ملاقات نہیں ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ آج ہماری ان سے ملاقات ہو جائے، کیونکہ غیر یقینی صورتحال میں اضطراب، تشویش بڑھ رہی ہے اور یہ عوام میں بے چینی کا باعث بن رہی ہے۔ ایسی کیفیت طویل ہوئی تو قوم سڑکوں پر آنے پر مجبور ہو سکتی ہے۔‘

’اگر آج بھی ملاقات کی اجازت نہ دی گئی تو ہم یہیں موجود ہیں اور اس کے بعد آئندہ کا لائحہ عمل مشاورت سے طے کریں گے۔‘

عمران خان کو اڈیالہ سے منتقل نہیں کیا گیا: پنجاب حکومت

پنجاب حکومت نے عمران خان کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے کہیں اور منتقل کرنے کی خبروں کی تردید کی ہے۔

پنجاب حکومت کی وزیر اطلاعات عظمی بخاری نے بتایا کہ عمران خان بالکل ٹھیک ہیں اور انھیں جیل سے کسی اور جگہ منتقل کرنے کی باتیں بالکل فضول ہیں۔

وزیر اطلاعات نے بتایا کہ جیل میں عمران خان کو تمام سہولیات مل رہی ہیں اور ڈاکٹرز اُن کا معمول کے مطابق طبی معائنہ کر رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ گزشتہ روز اڈیالہ کے سپرٹینڈنٹ کا بیان آیا تھا کہ بانی پی ٹی آئی جیل میں سیاسی ملاقاتیں کرتے ہیں جن میں وہ احتجاج اور ہنگاموں کی بھی ہدایات دیتے ہیں۔

وزیر اطلاعات نے کہا کہ عمران خان ایک قیدی ہیں اور اہلخانہ اور وکلا تک ان کو رسائی حاصل ہے۔

واضح رہے کہ رواں مہینے میں عمران خان کے اہلخانہ اور پارٹی قائدین کو ان سے ملنےکی اجازت نہیں دی گئی۔

پنجاب پولیس پر عمران خان کی بہنوں اور کارکنان پر تشدد کا الزام: اڈیالہ جیل کے باہر کیا ہوا؟وزیرِاعلیٰ کی تبدیلی یا دہشتگردی کے خلاف ’عدم تعاون‘: فوج اور خیبر پختونخوا حکومت کے درمیان تناؤ کی وجہ کیا ہے؟علیمہ خان، اسٹیبلشمنٹ یا امن و امان: عمران خان نے علی امین گنڈاپور کو ہٹانے کا فیصلہ کیوں کیا؟عمران خان کی بہن پر انڈہ پھینکنے کا واقعہ: ’سیاست میں اس طرح کے واقعات کی گنجائش نہیں ہے‘عمران خان کی میڈیکل رپورٹ: ’ورٹیگو‘ اور ’ٹائنائٹس‘ کیا ہوتا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More