BBC
غزہ شہر کے ایک مصروف بازار میں ایک شخص بڑی مہارت سے ایک پرانا اور پیلا 100 شیکل کا نوٹ دیکھ رہا ہے۔ وہ اسے سیدھا کرتا ہے اور اس کے مدھم رنگ کو پنسل کے ہلکے استعمال سے بہتر بناتا ہے۔
یہ شخص برا ابو العون ہے جنھیں اصولاً یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہونا چاہیے۔ لیکن حالات نے انھیں مجبور کر دیا ہے کہ وہ سڑک کنارے ایک چھوٹے سے میز پر نوٹوں کی مرمت کر کے گزر بسر کر رہے ہیں۔ وہ معمولی معاوضہ لے کر لوگوں کے لیے کرنسی کو قابلِ استعمال بناتے ہیں۔
غزہ میں نوٹوں کی مرمت کا کام اب ایک نیا اور بڑھتا ہوا کاروبار بن چکا ہے۔
2023 میں حماس کے اسرائیل پر حملے اور اس سے شروع ہونے والی تباہ کن جنگ کے بعد اسرائیل نے غزہ میں کرنسی نوٹوں کی ترسیل سمیت زیادہ تر سامان کی فراہمی روک رکھی ہے۔
زیادہ تر بینک اسرائیلی حملوں میں تباہ ہو گئے اور کئی لوٹ لیے گئے۔ اگرچہ سات ہفتے قبل جنگ بندی کے بعد کچھ شاخیں دوبارہ کھل گئی ہیں لیکن اب بھی اے ٹی ایم کام نہیں کر رہے۔
لوگوں کو کھانے پینے اور ضروریات کے لیے نقد رقم چاہیے جس کی وجہ سے وہ غیر رسمی منی ڈیلرز کے پاس جاتے ہیں جو ڈیجیٹل ٹرانسفر کو نقد میں تبدیل کرنے کے لیے بھاری کمیشن لیتے ہیں۔ اس صورتحال نے ای والٹس اور موبائل منی ٹرانسفر ایپس کے استعمال میں بھی زبردست اضافہ کر دیا ہے۔
BBC
اس کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ ہر نوٹ کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے، چاہے وہ کتنا ہی پرانا یا پھٹا ہوا کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ابو العون کا کام اہم ہو گیا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ 'میرے اوزار سادہ ہیں: ایک سکیل، پنسل، رنگین پنسلیں اور گوند۔ جنگ بندی نے مالی حالات نہیں بدلے۔ میں جو کر رہا ہوں، وہ لوگوں کی خدمت ہے۔'
دو سالہ شدید جنگ کے نتیجے میں غزہ کی معیشت اس حد تک تباہ ہو چکی ہے کہ اقوامِ متحدہ کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق 20 لاکھ سے زیادہ آبادی مکمل غربت میں دھکیل دی گئی ہے۔
یو این کانفرنس آن ٹریڈ اینڈ ڈیولپمنٹ کے مطابق پانچ میں سے چار افراد بے روزگار ہیں اور جن کے پاس آمدنی یا بچت ہے، وہ بھی نقد رقم تک رسائی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔
دو سالہ جنگ، زیرِ زمین سرنگوں کا جال اور بکھری ہوئیقیادت: کیا غزہ پر آہنی گرفت رکھنے والی حماس واقعی اقتدار چھوڑ دے گی؟غزہ میں حماس مخالف مسلح گروہ: کیا اسرائیل اپنے ’دشمن کے دشمن‘ کی مدد کر رہا ہے؟غزہ میں امدادی مقامات کی سکیورٹی پر مامور اسلام مخالف ’امریکی بائیکر گینگ‘ جس کے ارکان خود کو ’صلیبی جنگجو‘ کہتے ہیںاسرائیل کی وہ پالیسیاں جو غزہ میں ’انسانوں کے پیدا کردہ‘ قحط کا باعث بنیں
ایک بے گھر شخص نعمان ریحان کا کہنا ہے کہ: 'یہ صرف اذیت ہے اور کچھ نہیں۔ آمدنی کی کمی، نقدی کی کمی، بینکوں سے پیسے کا بہاؤ ختم۔'
جنگ کے آغاز میں اسرائیلی حملوں نے ایسے بینکوں کو نشانہ بنایا جن پر الزام تھا کہ وہ حماس سے جڑے ہیں۔ ان کے لاکرز مسلح فلسطینی گروہوں نے لوٹ لیے، جن میں کچھ حماس سے تعلق رکھنے والے سمجھے جاتے ہیں۔ فلسطین مانیٹری اتھارٹی کے مطابق تقریباً 18 کروڑ ڈالر نقدی چوری ہوئی۔
اسرائیلی دفاعی ادارے کوگات نے تصدیق کی کہ سیاسی حکم کے تحت اور حماس کے نقدی پر انحصار کی وجہ سے اسرائیل نے غزہ میں نقدی رقم کو داخل ہونے سے روکا۔
Anadolu via Getty Imagesنوٹوں کی کمی اور عوامی مشکلات
نوٹوں کی کمی نے خریدار اور فروخت کنندہ دونوں کے لیے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ غزہ کے ایک دکاندار زکریا اجور کہتے ہیں: ’لوگ اب خراب یا ٹیپ لگے نوٹ قبول نہیں کرتے۔‘
وہ مزید بتاتے ہیں کہ چھوٹے سکے تقریباً ناپید ہیں اور جب ملتے بھی ہیں تو افراطِ زر کی وجہ سے ان کی کوئی خاص قدر نہیں رہتی۔
اب غزہ شہر میں بینک آف فلسطین کے باہر لمبی قطاریں لگتی ہیں جہاں لوگ صرف منجمد اکاؤنٹس کو فعال کر سکتے ہیں، نئے اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں یا ایپ پر رجسٹر ہو سکتے ہیں۔
ایک خاتون اسماء اللدا کہتی ہیں کہ ’یہ پورا عمل افراتفری اور ہجوم سے بھرا ہے۔ ہم صبح چھ بجے اٹھے، بچوں کو خیمے میں چھوڑا اور سب کچھ پیچھے چھوڑ کر بینک آئے۔‘
خان یونس میں بینک شدید نقصان کے باعث نہیں کھل سکے اس لیے لوگ مرکزی غزہ کا رخ کرتے ہیں۔ ایک بزرگ ابو خلیل بتاتے ہیں کہ وہ دن بھر قطار میں لگے رہے لیکن بینک میں داخل نہ ہو سکے۔ ان کی ماہانہ تنخواہ تقریباً 2000 شیکل ہے مگر اس کا نصف کمیشن میں چلا جاتا ہے۔
جنگ کے دوران کئی چھوٹے کاروباری افراد نے نقدی کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے الیکٹرانک ٹرانسفر کو نقد میں تبدیل کرنے پر بھاری کمیشن لینا شروع کر دیا جو کبھی کبھار 50 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔ مگر اب اس میں کچھ کمی آئی ہے۔
NurPhoto via Getty Images
ایک منی ڈیلر نے کہا کہ ’ہمارا کام مارکیٹ کی سرگرمی اور سامان کے داخلے سے جڑا ہے۔ جب اشیا آتی ہیں تو کمیشن کم ہو کر 20 فیصد تک آ جاتا ہے، لیکن جب بارڈر بند ہو تو شرح بڑھ جاتی ہے۔‘
ای-والٹس اور بینک ایپس کے ذریعے ٹرانزیکشنز عام ہو گئی ہیں۔ فلسطین مانیٹری اتھارٹی نے فوری لین دین کے لیے نیا نظام متعارف کرایا ہے۔ بینک آف فلسطین کے مطابق غزہ میں اب پانچ لاکھ سے زائد ای-والٹ صارفین ہیں، جو بغیر انٹرنیٹ یا ایپ کے، صرف موبائل ٹیکسٹ سے لین دین کر سکتے ہیں۔
یونیسیف اور ورلڈ فوڈ پروگرام جیسے ادارے ای-والٹس کے ذریعے براہِ راست مالی امداد فراہم کر رہے ہیں۔ یونیسیف کے مطابق گذشتہ سال سے تقریباً دس لاکھ افراد کو نقد امداد دی گئی، جن میں نصف بچے ہیں۔
یونیسیف کے جاناتھن کرکس کہتے ہیں کہ ’فون اب ادائیگی کارڈ کی طرح استعمال ہوتا ہے۔ لوگ زیادہ تر رقم کھانے، پانی، صفائی کے سامان اور بجلی پر خرچ کرتے ہیں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے خود دیکھا کہ لوگ دو کلو ٹماٹر 80 ڈالر اور پانچ کلو پیاز 70 ڈالر میں خرید رہے ہیں۔
Anadolu via Getty Images’بغیر ٹیپ کے نوٹوں کی مرمت‘
حانان ابو جاہل غزہ شہر سے بے گھر ہو کر ایک کیمپ میں رہتی ہیں۔ انھیں یونیسیف سے 1200 شیکل کی امداد ملی جس سے انھوں نے چاول، دال اور پاستا خریدا۔ لیکن وہ کہتی ہیں کہ ’میرے بچے سبزی، پھل، گوشت اور انڈے چاہتے ہیں۔ مگر قیمتیں اتنی زیادہ ہیں کہ خریدنا ممکن نہیں۔‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے میں غزہ کی تعمیر اور ترقی کے وعدے ہیں لیکن عملی تفصیلات نہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق غزہ اس وقت اپنی تاریخ کے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے۔
Anadolu via Getty Images
غزہ شہر میں برا ابو العون ایک مرمت شدہ نوٹ کو روشنی میں دیکھتے ہیں۔ ان کے پاس مزید گاہک انتظار کر رہے ہیں جو ان کے ایک بورڈ سے متاثر ہیں جس پر لکھا ہے ’اعلیٰ مہارت کے ساتھ مرمت، بغیر ٹیپ کے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میری خواہش ہے کہ یہ جنگ مکمل ختم ہو تاکہ میں سکون محسوس کر سکوں، تعلیم حاصل کر سکوں اور ڈگری کے ساتھ کام کر سکوں۔ غزہ میں ہم صرف زندہ ہیں، انسان نہیں رہے۔‘
غزہ میں حماس مخالف مسلح گروہ: کیا اسرائیل اپنے ’دشمن کے دشمن‘ کی مدد کر رہا ہے؟’مکمل تباہی اور ملبے کا ڈھیر‘: جنگ کے دو سال بعد بی بی سی نے غزہ میں کیا دیکھا؟اسرائیل سے موصول ہونے والی فلسطینیوں کی 95 مسخ شدہ نامعلوم لاشوں کا معمہ: ’بعض کو جلایا گیا، کچھ کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا‘دو سالہ جنگ، زیرِ زمین سرنگوں کا جال اور بکھری ہوئیقیادت: کیا غزہ پر آہنی گرفت رکھنے والی حماس واقعی اقتدار چھوڑ دے گی؟صدر ٹرمپ کو ’پاکیزگی اور ابدیت‘ کی علامت سمجھا جانے والا تمغہِ نیل کیوں دیا گیا؟’طے شدہ امن منصوبے میں ترامیم‘ یا ملک کی اندرونی سیاست اور دباؤ: پاکستان نے ٹرمپ کے غزہ منصوبے سے دوری کیوں اختیار کی؟