Getty Imagesسندھ ہائیکورٹ نے متعلقہ اداروں سے شہر کے کھلے مین ہولز کا تمام ریکارڈ مانگا ہے
کراچی میں تین سالہ بچے ابراہیم کی کھلے گٹر میں گر کر ہلاکت کے واقعے کے بعد جہاں شہر کے میئر کی جانب سے بچے کے اہلخانہ سے معافی مانگی گئی ہے وہیں اسسٹنٹ کمشنر اور کراچی میونسپل کارپوریشن کے سینیئر ڈائریکٹر سمیت متعدد افسران کو معطل کر دیا گیا ہے۔
بچے کی گٹر میں گر کر ہلاکت کا واقعہ اتوار کو گلشن اقبال کے علاقے میں پیش آیا تھا اور ایک نجی ڈیپارٹمنٹل سٹور کے سامنے مین ہول میں گرنے والے بچے کی لاش تقریباً 15 گھنٹے بعد کئی سو میٹر دور ایک کھلے گٹر سے ملی تھی۔
کراچی کے میئر مرتضیٰ وہاب بدھ کی شب ابراہیم کے گھر پہنچے اور اہلخانہ سے تعزیت کی۔ اس موقعے پر مرتضیٰ وہاب نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس واقعے کی ذمہ داری لیتے ہیں اور بچے کے گھر والوں سے معافی چاہتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ غم کی اس گھڑی میں وہ الزامات کی سیاست میں نہیں جائیں گے اور یہ کہ ’جس طرح کا ردعمل ہونا چاہیے تھا وہ نہیں تھا۔‘
میئر کراچی کے اس دورے کے بعد بدھ کی شب کے ایم سی کے سینیئر ڈائریکٹر میونسپل سروسز عمران راجپوت ، ٹاؤن میونسپل کارپوریشن گلشن اقبال کے اسسٹنٹ انجینئر راشد فیاض، کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے ایگزیکٹو انجینئر وقار احمد، اسسٹنٹ کمشنر گلشن اقبال عامر علی شاہاور تحصیل دار گلشن اقبال سلمان فارسی کی معطلی کا نوٹیفیکشن جاری کر دیا گیا۔
ادھر اس واقعے کی عدالتی تحقیقات کے لیے سابق رکن قومی اسمبلی عالمگیر خان نے جمعرات کو سندھ ہائی کورٹ میں درخواست بھی دائر کی ہے جس میں میئر کراچی کے علاوہ شہر کے 25 ٹاؤنز کے چیئرمینز کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔
عالمگیر خان نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ ابراہیم کی ہلاکت کے واقعے کی سیشن جج کے ذریعے تحقیقات کروائی جائیں تاکہ ذمہ داروں کا تعین ہو سکے۔ عدالت نے اس درخواست پر پانچ دسمبر کی تاریخ مقرر کرتے ہوئے متعلقہ اداروں سے کھلے مین ہولز کا تمام ریکارڈ مانگ لیا ہے۔
Bloomberg via Getty Imagesبی آر ٹی ریڈ لائن منصوبے کے ترجمان نے ایک اعلامیے میں حادثے کے منصوبے کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلق کو سختی سے مسترد کردیا
خیال رہے کہ کراچی کی میونسپل کارپوریشن کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں اس حادثے کا ذمہ دار بی آر ٹی ریڈ لائن حکام اور سٹور کی انتظامیہ دونوں کو قرار دیا گیا تھا۔
کے ایم سی میونسپل سروسز ڈپارٹمنٹ کی جانب سے سندھ حکومت کو جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ میئر کراچی اور میونسپل کمشنر کی ہدایت پر کے ایم سی نے ریسکیو آپریشن شروع کیا، جس میں دو ایکسکیویٹرز، میونسپل اہلکار اور میونسپل پبلک ہیلتھ کا عملہ شامل تھا۔ طویل تلاش کے بعد بچے کی لاش سرسید انجینئرنگ یونیورسٹی کے قریب ایک لنک نالے سے برآمد ہوئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ جائے وقوعہ کے معائنے سے معلوم ہوا کہ بی آر ٹی ریڈ لائن کی جاری تعمیراتی سرگرمیوں سے نیپا سے عزیز بھٹی پارک تک کے ڈرینیج سسٹم کو ’شدید نقصان اور خلل‘ پہنچا ہے۔
رپورٹ میں بتایا کہ ڈرین کے مختلف مقامات پر 2×2 فٹ کے عارضی کنکریٹ کور رکھے گئے تھے، جو کے ایم سی کے مطابق کسی بھی صورت اس کا مروجہ طریقہ کار نہیں ہے اور انھی عارضی کورز میں سے ایک چیز سٹور کے سامنے مبینہ طور پر موجود نہیں تھا، جو اس حادثے کا سبب بنا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بی آر ٹی حکام نے ڈرین کی کھدائی اور تعمیراتی کام شروع کرنے سے قبل کے ایم سی کو نہ تو باقاعدہ طور پر آگاہ کیا اور نہ ہی کوئی کلیئرنس حاصل کی۔
کے ایم سی کے حکام کے مطابق یہ المناک واقعہ ’بی آر ٹی حکام اور چیز سٹور کی انتظامیہ دونوں کی غفلت‘ کا نتیجہ ہے، کیونکہ دونوں میں سے کسی نے بھی کھلے ڈرین کو محفوظ بنانے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کیے۔
دوسری جانب بی آر ٹی ریڈ لائن منصوبے کے ترجمان نے ایک اعلامیے میں حادثے کے منصوبے کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلق کو سختی سے مسترد کردیا۔
کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) کو بھیجے گئے خط میں بتایا گیا ہے کہ ہلاک ہونے والا بچہ، ابراہیم، سٹور کے پارکنگ ایریا میں موجود پرانے سیوریج کے مین ہول میں گرا تھا، جو بی آر ٹی ریڈ لائن کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔
خط میں واضح کیا گیا ہے کہ حادثے کا مقام بی آر ٹی ریڈ لائن کے تعمیراتی کاموں سے ’خاصے فاصلے‘ پر ہے اور اس جگہ نہ کھدائی، نہ بیریکیڈنگ اور نہ ہی کسی قسم کا تعمیراتی سرگرمی بی آر ٹی کے تحت ہوئی۔ خط کے مطابق یہاں تک کہ سڑک کی موجودہ تعمیر بھی بالکل محفوظ اور برقرار ہے۔
بی آر ٹی انتظامیہ نے مزید کہا کہ منصوبے کا اس علاقے کی سیوریج یا نالہ سسٹم کی انتظامی، عملی یا دیکھ بھال کی کوئی ذمہ داری نہیں بنتی۔
بی آر ٹی ریڈ لائن نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ منصوبے کے تمام تعمیراتی کام متعلقہ اداروں سے این او سی حاصل کرنے کے بعد ہی شروع کیے جاتے ہیں اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے مقرر کردہ حفاظتی اصولوں کے مطابق سخت نگرانی میں انجام پاتے ہیں۔
Getty Images’بلائنڈ آپریشن‘
کراچی میں ایک تین سالہ بچے کی گٹر میں گرنے کے بعد ہلاکت نے ایک جانب جہاں پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں مقامی حکومتوں پر سوالات اٹھائے ہیں وہیں ایک بڑا سوال یہ بھی ہو رہا ہے کہ اس بچے کی تلاش میں اتنی دیر کیوں لگی؟
بی بی سی نے اس حوالے سے سندھ حکومت کے زیر انتظام ریسکیو انتظامیہ سے بات کی اور یہ جاننے کی کوشش کی کہ اس بچے کو جلد کیوں نہیں تلاش کیا جا سکا، اس کام میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی اور ایسے واقعات میں کیا مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔
سندھ حکومت کے زیرانتظام 1122 کے ترجمان حسان الحسیب کا کہنا ہے کہ ’بغیر نقشوں اور کوآرڈینیشن کے وہ بلائنڈ آپریشن کرتے ہیں۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’گہرے پانی میں ریسیکو کی ایس او پی کے تحت رات کی تاریکی میں آپریشن نہیں ہوتا اور اگر سنہری لمحات کھو دیں تو بچنے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں، یہاں بھی یہ ہی صورتحال تھی۔‘
انھوں نے ایک اور انکشاف یہ بھی کیا کہ ’کراچی میں ایسے واقعات میں سب سے بڑی مشکل مین ہولز اور ڈرینج کے بلیو پرنٹس یعنی نقشوں کی عدم دستیابی ہوتی ہے جو ان کے مطابق متعلقہ محکمے فراہم نہیں کرتے ہیں۔‘
’اس وجہ سے معلوم نہیں ہوتا کہ گٹر کا بہاؤ کس طرف ہے، جہاں لوگ کہہ رہے ہوتے ہیں وہاں تلاش کی جا رہی ہوتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ مختلف سیاسی ادوار میں مین لائنوں سے دیگر لائنیں منسلک کر دی گئیں ہیں۔ ’جب ٹاؤن انتظامیہ تبدیل ہوتی ہے تو انھیں بھی معلوم نہیں ہوتا جس سے پریشانی مزید بڑھ جاتی ہے، اس صورتحال میں یہ سارا بلائنڈ سرچ آپریش ہوتا ہے۔‘
حسان الحسیب کہتے ہیں کہ ’پنجاب میں سارا آپریشن کوآرڈینیشن سے ہوتا ہے جس میں تمام متعلقہ محکمے موجود ہوتے ہیں لیکن کراچی میں ایسا نہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہیوی مشینری ہمارے پاس نہیں ہوتی جو ضلعی انتظامیہ یا میونسپل کارپوریشن یا ٹاؤن انتطامیہ فراہم کرتی ہے۔ گزشتہ روز بی آر ٹی پراجیکٹ کی مشینری کرائے پر حاصل کی گئی۔ اس کے بعد ایک این جی او نے اس کو ہائر کیا۔‘
حسان الحسیب کے مطابق مشتعل ہجوم بھی ایک بڑی رکاوٹ ہوتا ہے۔ ’گزشتہ روز بھی پولیس، رینجرز اور میڈیا پر پتھرا کیا گیا اس صورتحال میں سٹاف خوفزدہ ہوتے ہیں۔‘
بچے کی لاش کس نے نکالی؟BBCفائل فوٹو
تین سالہ بچے کی لاش وقوعہ کی جگہ سے چند سو میٹر کے فاصلے پر سر سید یونیورسٹی کے قریب موجود ایک اور کھلے گٹر سے ملی۔
ہنگامی امداد کے سرکاری ادارے ریسکیو 1122 کی جانب سے چیف آپریٹنگ افسر کا ایک اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں دعویٰ کیا گیا کہ واٹر ریسکیو ٹیم نے مسلسل سرچآپریشن کے بعد لاش نکالی ہے۔
تاہم سوشل میڈیا پر موجود کئی ویڈیوز میں اس دعویٰ کو مسترد کیا جا رہا ہے۔
گلشن اقبال ٹاؤن کے کونسلر کبیر احمد، جن کا تعلق جماعتِ اسلامی سے ہے، نے اپنی ویڈیو میں دکھایا کہ کراچی پولیس کے ایک ڈی ایس پی نیلے رنگ کے کپڑوں میں ملبوس ایک نو عمر نوجوان کو شاباش دے رہے ہیں۔ ویڈیو میں دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس نوجوان نے گٹر سے بچے کی لاش نکالی ہے۔
اس نوجوان تنویر کا کہنا تھا کہ اس نے گٹر سے بچے کو نکالا تو اس کی سانسیں نہیں چل رہی تھیں۔ نوجوان کا کہنا ہے کہ اس نے بچے کو وہاں موجود ایک شخص کے حوالے کیا۔
تاہم جب رسیکیو انتظامیہ کے حسان الحسیب سے یہ سوال کیا گیا تو انھوں نے اس دعوے کو مسترد کیا۔
ان کے مطابق ’پانی کا بہاؤ معلوم کرنے کے لیے ایک رنگین بال گٹر میں پھینکی جاتی ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’کے ایم سی، ڈی ایم، ایدھی، چھیپا اور دیگر رضاکاروں کو گٹروں پر کھڑا کیا جاتا ہے تاکہ وہ نگرانی کریں اور اس کا رخ دیکھیں۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’جس جگہ ریسکیو آپریشن کیا جا رہا تھا، اس سے تھوڑی دور موجود رضا کاروں نے گٹر میں بچے کی ٹانگ دیکھی لیکن انھوں نے خود اسے نہیں نکالا اور وہاں موجود کچرا چننے والے بچے سے کہا کہ وہ نکالے۔‘
حسان کہتے ہیں کہ ’ان سے یہ کوتاہی ہوئی۔ اس کے بعد وہاں ایک سوزوکی موجود تھی، اس میں لاش ڈال کر وہاں لائے جہاں آپریشن ہو رہا تھا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ان کے کنٹرول روم میں 10.34 پر اطلاع آئی، ’تین منٹ میں 10.37 پر وہاں ایمبولینس پہنچی اور 10.56 منٹ پر ڈرائیور نیچے اتر چکا تھا۔‘
اس سلسلے میں ایدھی کے ترجمان نے بتایا کہ ان کے غوطہ غور نے لاش ایدھی ایمبولینس میں ہسپتال پہنچائی۔
یاد رہے کہ کراچی کے جس علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا وہاں بی آر ٹی ریڈ لائن منصوبے کا کام جاری ہے جس کی وجہ سے مرکزی سڑک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
ذمہ دار کون ہے؟
تین سالہ بچے کے گٹر میں گرنے کے واقعے کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جماعتِ اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن نے دعویٰ کیا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ کسی کی گٹر میں گر کر موت ہوئی ہے۔ ’اس سے قبل بھی اس قسم کے درجنوں واقعات ہو چکے ہیں اور واٹر اور سیوریج بورڈ اس کا ذمہ دار ہے۔‘
فلاحی ادارے ایدھی ویلفیئر کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال کے 11 مہینوں میں اتوار کے روز ہلاک ہونے والے تین سالہ بچے سمیت اب تک 23 افراد گٹروں اور نالوں میں گر کر ہلاک ہوئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں سے آٹھ بچوں کی عمریں 10 سال سے کم تھیں۔
نعیم الرحمٰن نے کہا کہ میئر کراچی نے کہا تھا کہ وہ گٹر کے ڈھکن مہیا کریں گے اور لگائیں گے۔ میئر مرتضی وہاب کے مطابق، جس علاقے میں اتوار کے روز کا واقعہ پیش آیا، اس ٹاؤن کے چیئرمین کا تعلق جماعتِ اسلامی سے ہی ہے۔
حافظ نعیم الرحمٰن کا مزید کہنا تھا کہ اختیارات اور فنڈز کی کمی کے باوجود بھی جب جماعتِ اسلامی اپنے محدود وسائل کے ساتھ ٹاؤنز میں کام کرتی ہے تو ’یہ پوچھتے ہیں کہ یہ پیسے کہاں سے آئے۔‘
مرتضی وہاب کا جماعتِ اسلامی کی جانب تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ’ڈھکن لگانے کے لیے کوئی اختیار چاہیے؟‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ جماعتِ اسلامی نے ایک مہم چلائی تھی کہ انھوں نے نئے جدید ترین ڈھکن بنوا لیے ہیں۔ ’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جب کوئی اچھی چیز آتی ہے تو کہتے ہیں ہم نے کیا ہے، جب کچھ برا ہوتا ہے کہ تو کہتے ہیں کہ اس کا ذمہ دار وہ ہے۔‘
کراچی کے میئر مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ ایک سال کے دوران 88 ہزار گٹر کے ڈھکن فراہم کیے گئے ہیں جن میں سے 55 فیصد مقامی یونین کونسلز کے چیئرمین کو دیے گئے تھے۔
انھوں نے کہا کہ ’یہ ممکن ہی نہیں کہ اتنے مصروف سٹور کے سامنے موجود گٹر پر کئی روز سے ڈھکن نہ ہو۔‘
میئر کراچی کا کہنا تھا کہ انھوں ڈی سی کو حکم دیا ہے کہ وہ ’سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کر کے یہ معلوم کریں کہ یہ ڈھکن کب سے غائب تھا۔‘
مرتضیٰ وہاب نے دعوی کیا کہ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے شکایتی سیل کے پاس بھی اس ڈھکن کے حوالے سے کوئی شکایت نہیں آئی۔
’بے قابو‘ ڈمپر، ’لاپرواہ‘ موٹر سائیکل سوار یا ٹوٹی سڑکیں: کراچی میں ٹریفک حادثات کا ذمہ دار کون ہے؟ کراچی کی غیر معمولی بارش، پانی میں ڈوبی سڑکیں اور پریشان حال شہری: ’نو گھنٹے پھنسے رہے، گھر آئے تو بجلی غائب‘’دو دن میں دو بار چوری‘: سندھی گلوکار بیدل مسرور کے گھر میں گھی کے ڈبوں میں موجود لاکھوں روپے غائبگندگی میں ڈوبتا کراچی کا ساحل: ’گٹر لائن شامل ہونے سے مچھلی مر جاتی ہے‘
یاد رہے کہ کراچی میں مقامی حکومتوں کا انتظام تین سطحوں پر مشتمل ہے جس میں پہلی سطح یونین کونسل، دوسری سطح ٹاؤن اور تیسری کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن یعنی کے ایم سی ہے۔ مین ہولز اور نالوں کی مرمت اور صفائی کے ایم سی کی ذمہ داری ہے۔
تاہم کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپویشن نے ایکس پر وضاحتی بیان جاری کیا ہے کہ گلشن اقبال میں نیپا پل کے نزدیک جس مقام پر بچے کے ڈوبنے کا واقعہ پیش آیا وہاں واٹر کار پوریشن کا کوئی سسٹم موجود نہیں۔ ’نہ ہی اس مقام پر سیوریج کی لائن ہے اور نہ ہی واٹر کار پوریشن کا کوئی مین ہول واقع ہے۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ برساتی نالوں کی مرمت، دیکھ بھال اور صفائی کے امور واٹر کارپوریشن کے دائرہ اختیار میں شامل نہیں ہیں۔
سندھ کے وزیرِ اطلاعات شرجیل انعام میمن نے صوبائی اسمبلی میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بچہ کسی کا بھی ہو سکتا تھا، یہ واقعہ کہیں بھی، کسی کے بھی ساتھ ہو سکتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بحث میں نہیں پڑے گے کہ ’وہاں کونسلر کس کا ہے، ٹاؤن چیئرمین کس کا ہے۔ مجھے افسوس ہوتا ہے کہ ایسے موقع پر ہم ایک دوسرے پر الزام لگانا شروع کر دیتے ہیں۔‘
انھوں نے مجرمانہ غفلت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’جس کی ذمہ داری تھی اور اس نے نہیں کیا تو اس کو سزا ملنی چاہیے، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔‘
’یہ شہر اپنے ہی باسیوں کے رہنے کے قابل نہیں رہا‘
کراچی میں ایک ڈیمپارٹمنٹل سٹور کے سامنے گٹر میں گر کر تین سالہ بچے کی ہلاکت کے بعد سوشل میڈیا پر لوگ بلدیاتی اداروں اور شہری انتظامیہ کی کارکردگی پر سوال اٹھاتے نظر آ رہے ہیں۔
سوشل میڈیا ویب سائٹ ایکس پر ثاقب جاوید نامی صارف لکھتے ہیں کہ ’یہ کوئی حادثہ نہِیں، جرم ہے۔‘
’جو عہدیدار اس مین ہول کو ڈھانپنے میں ناکام رہے تھے، ان کے ہاتھوں پر خون ہے۔ مزید کتنے بچوں کی اموات کے بعد اس نظام کا احتساب ہو گا؟‘
ایک اور صارف کا کہنا ہے کہ چند ہفتوں قبل جب خاتون اداکار صبا قمر نے کراچی کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تھا تو سب کو بہت غصہ آیا تھا۔ ’یہ شہر اپنے ہی باسیوں کے لیے رہنے کے قابل نہیں رہا ہے۔‘
صحافی فیضان لکھانی ایک پر لکھتے ہیں کہ کراچی میں کھلے مین ہول میں گر کر ایک بچہ ہلاک ہو گیا اور کراچی کے رہنما ہونے کا دعویٰ کرنے والے سیاستدان ایک دوسرے پر الزامات لگانے میں مصروف ہیں۔
’لیکن سچ سیدھا ہے: اگر یوسی سے لے کر کے ایم سی تک ہر کوئی اپنا کام صحیح طریقے سے کرتا تو کراچی کی یہ حالت نہ ہوتی۔ ان سب کو ایک دوسرے پر الزام تراشی کے بجائے اس ناکامی کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے۔‘
ایک اور صارف نے کراچی انتظامیہ سے سوال کیا کہ ’ہم 2025 میں جی رہے ہیں، اور ابھی تک آپ مین ہولز کے ڈھکن نہیں لگا سکے ہیں؟‘
BBCگٹر کے ڈھکن کیسے غائب ہوتے ہیں؟
سوال یہ ہے کہ یہ گٹروں کے ڈھکن آخر جاتے کہاں ہیں؟ حکام کا کہنا ہے کہ نشے کے عادی افراد لوہا حاصل کرنے کے لیے ڈھکن توڑ دیتے ہیں۔ ماضی میں کراچی میونسپل کارپوریشن کے میئر مرتضیٰ وہاب ان ڈھکنوں کی گمشدگی کا ذمہ دار نشے کے عادی افراد کو قرار دیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جو نشے کے عادی افراد ہیں، ان کی جگہ جگہ ویڈیوز ملتی ہیں جو سریا نکال رہے ہیں۔ گٹر کے ڈھکن بھی نکال رہے ہوتے ہیں۔ یہ سریا کسی نہ کسی مارکیٹ میں بِکتا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں نشہ کے عادی افراد کے خلاف کریک ڈاون کے بجائے ’حکومت نے ان کباڑیوں کے خلاف آپریشن کیا ہے۔‘
شہری منصوبہ بندی کے ماہر محمد توحید بھی مرتضیٰ وہاب کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ گٹر کے ڈھکن چوری ہوتے ہیں۔
ان کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ ’ان مین ہولز میں سریا اور کنکریٹ استعمال ہوتا ہے۔ چور اس میں سے لوہا نکال کر فروخت کر دیتے ہیں‘ مگر ان کا خیال ہے کہ ’غیر معیاری میٹریل کی وجہ سے یہ ڈھکن خود بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘
مگر میئر مرتضیٰ وہاب کہتے ہیں کہ سپلائی اور معیار کا مسئلہ نہیں ہے۔ ’مسئلہ یہ ہے کہ ان مین ہول کورز کی رکھوالی کون کرے گا؟ اگر شہری تعاون نہیں کریں گے تو خدشہ ہے کہ سرکار ڈھکن لگاتی رہے گی اور نشئی چوری کرتے رہیں گے۔‘
محمد توحید کہتے ہیں کہ ’یہ حقیقت ہے کہ شہر کی اونرشپ نہیں ہے جس میں کمیونٹیز خود نگرانی کرتی ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر کس کے گھر کے سامنے گٹر کا ڈھکن ہے، کوئی نشئی اگر کچھ حرکت کر رہا ہے تو اس کو روکیں کیونکہ حکومت کے لیے ممکن نہیں ہے کہ ہر سطح پر گٹر کے ڈھکنوں کی حفاظت کرے۔‘
’حکومتی ادارے عوام کو آگاہ کریں اور شعور دیں۔ اگر آپ کے علاقے میں ڈھکنے لگا دیے ہیں تو یہ اب آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس کی دیکھ بھال کریں۔‘
کراچی کی تنگ گلیوں میں کثیرالمنزلہ مخدوش عمارتیں اور ’پگڑی‘ کا نظام: ’اب سر پر چھت نہیں رہی، اِس بڑھاپے میں کہاں جاؤں‘لیاری میں پانچ منزلہ عمارت گرنے سے 27 ہلاکتیں: سندھ حکومت کا متاثرین کو فی کس دس لاکھ روپے دینے کا اعلانکراچی میں ڈکیتیوں کے ملزمان جو ’چینی ڈیٹنگ ایپ اور پولیس کی وردیاں استعمال کرتے تھے‘کراچی کی آلودہ ساحلی پٹی: ’ایک وقت تھا ہم یہاں بال دھوتے تھے، اب یہ مٹی پاؤں پر لگ جائے تو کئی روز کالک نہیں جاتی‘کراچی کے شیرشاہ بازار میں کمپیوٹر کے کچرے سے ’خالص سونے کی تلاش‘’استغفر اللہ، مجھے کراچی پسند نہیں‘: صبا قمر کا وہ بیان جس سے ’روشنیوں کے شہر‘ میں رہنے والے ناراض ہو گئے