Getty Images
اکثر جب ہم کم عمر افراد سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا بننا چاہتے ہیں تو کچھ لوگوں کی طرف سے سُننے کو ملتا یے کہ وہ پائلٹ بننے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
یہ ایک پُرکشش ملازمت ہے۔ اچھا لباس، عزت اور جہاز اڑانے کا موقع۔ لیکن یہاں اصل سوال یہ ہے کہ پاکستان میں کمرشل پائلٹ بننا کتنا آسان ہے اور کسی بڑی ایئرلائن میں بطور پائلٹ ملازمت کیسے اختیار کی جا سکتی ہے۔
کمرشل پائلٹ بننے کا سفر لمبا ہے اور اس کے لیے آپ کو متعدد لائسنسز درکار ہوتے ہیں۔
لائسنس کا حصول
یہ پائلٹ بننے کی طرف آپ کا پہلا قدم ہے۔ آپ کو سب سے پہلے کسی فلائنگ کلب میں داخلہ لینا ہوگا تاکہ آپ کسی چھوٹے جہاز کو اڑانے کے قابل ہو سکیں۔
کپتان کے عہدے پر فائز ایک تجربہ کار پائلٹ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ پہلے پاکستان میں متعدد فلائنگ سکولز ہوا کرتے تھے لیکن اب ان کی تعداد میں کمی آئی ہے۔
'سب سے پہلے آپ کو ایک فلائنگ کلب میں داخلہ لینا ہوتا ہے، اپنی ضروری دستاویزات جمع کروانی ہوتی ہیں اور میڈیکل ٹیسٹ دینا ہوتا ہے۔'
پاکستانی پائلٹ، جنھیں میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں، مزید بتاتے ہیں کہ میڈیکل کے دوران سول ایوی ایشن بورڈ کی طرف سے تفصیلی طبّی معائنہ ہوتا ہے اور اس کے بعد ہی سرٹیفکیٹ جاری کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں موجود متعدد فلائنگ سکولز میں سے ایک راولپنڈی فلائنگ کلب بھی ہے۔ اس کی ویب سائٹ پر موجود تفصیلات کے مطابق سٹوڈنٹ پائلٹ لائسنس حاصل کرنے کے لیے آپ کی عمر کم از کم 16 برس ہونی چاہیے، آپ کے پاس میڈیکل کلیئرنس ہونی چاہیے، انگریزی بولنے، پڑھنے اور سمجھنے کی صلاحیت بھی ہونی چاہیے۔
Getty Imagesآپ کو سب سے پہلے کسی فلائنگ کلب میں داخلہ لینا ہوگا تاکہ آپ کسی چھوٹے جہاز کو اڑانے کے قابل ہو سکیں
پاکستانی پائلٹ کہتے ہیں کہ سٹوڈنٹ پائلٹ لائسنس کے حصول کے لیے کچھ مہینے گراؤنڈ کلاسز لینی پڑتی ہیں اور پھر فلائنگ کی تربیت شروع ہوتی ہے۔
’40 گھنٹے فلائنگ کے بعد آپ کا سٹوڈنٹ پائلٹ لائسنس کے حصول کا عمل مکمل ہو جاتا ہے۔‘
اس کے بعد مرحلہ آتا ہے پرائیوٹ پائلٹ لائسنس کا، جس کے حصول کے بعد آپ چھوٹے ہوائی جہاز جیسے کہ سیسنا چلانے کے اہل ہو جاتے ہیں۔
پاکستانی پائلٹ کے مطابق 40 گھنٹے فلائنگ کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد انسٹرکٹر ایک ’چیک‘ لیتا ہے اور اس میں کامیابی کے بعد خواہشمند افراد کو پرائیوٹ پائلٹ لائسنس جاری کر دیا جاتا ہے۔
ان کے مطابق ایوی ایشن انڈسٹری میں ’چیک‘ کا لفظ امتحان کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
تاہم پرائیوٹ پائلٹ لائسنس کے حصول کے لیے بھی خواہمشند افراد کو سول ایوی ایشن کے میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہونا پڑتا ہے۔
یہاں کیے جانے والے ٹیسٹس میں یورین ٹیسٹ، ای سی جی، این این ٹی، آنکھوں کا معائنہ، بلڈ پریشر اور قوت سماعت کی جانچ شامل ہے۔
اس کے بعد کمرشل پائلٹ بننے کے لیے کمرشل پائلٹ لائسنس حاصل کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سابق عہدیدار افسر ملک نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ کمرشل پائلٹ لائسنس کے حصول کے لیے خواہشمند افراد کے پاس 200 گھنٹے فلائنگ کا تجربہ ہونا چاہیے۔
ترک ایئرلائن کے پائلٹ کی دورانِ پرواز موت: اگر مسافر طیارے کا پائلٹ وفات پا جائے تو کیا ہوتا ہے؟مشرقی پاکستان سے آخری پرواز: سرینڈر سے انکار کرنے والے پاکستانی فوجی اور ڈھاکہ سے فرار کی کہانیجب ایک پاکستانی پائلٹ نے اسرائیلی لڑاکا طیارہ مار گرایاامریکی پائلٹ جس نے مشرومز کے نشے میں دورانِ پرواز جہاز کے انجن بند کرنے کی کوشش کیکمرشل ایئرلائن میں ملازمت
وہ کہتے ہیں کہ اس لائسنس کے حصول کے بعد ہی کوئی شخص کسی کمرشل ایئرلائن میں ملازمت کے لیے اپلائی کر سکتا ہے۔
پاکستانی پائلٹ کہتے ہیں کہ کمرشل پائلٹ لائسنس کے حصول کے لیے 13، 12 امتحانات دینے پڑتے ہیں اور یہ امتحانات برٹش کونسل لیتا ہے اور اس کے بعد پھر ’چیک‘ (پریکٹیکل ٹیسٹ) ہوتا ہے۔
کمرشل پائلٹ لائسنس کے حصول کے لیے بھی آپ کے پاس پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کا جاری کردہ میڈیکل کلیئرنس سرٹیفکیٹ ہونا چاہیے۔
لیکن اس سے پہلے کہ آپ یہ لائسنس حاصل کرنے کی کوشش شروع کریں، یہ جان لیں کہ ابھی آپ کو ابھی ’انسٹرومینٹ ریٹنگ‘ کی بھی ضرورت ہے۔
پاکستانی پائلٹ کے مطابق ’انسٹرومنٹ ریٹنگ کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو زمین اور جہاز میں لگے آلات کی مدد سے نہ صرف جہاز اڑانا ہے بلکہ اسے لینڈ بھی کرنا ہے۔‘
’انسٹرومنٹ ریٹنگ حاصل کرنے کے لیے آپ کو زمین اور جہاز میں لگے آلات کی مدد سے کم از کم 40 گھنٹے جہاز اُڑانا ہوتا ہے۔‘
پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سابق عہدیدار افسر ملک کہتے ہیں کہ ’کمرشل پرائیوٹ لائسنس اور انسٹرومنٹ ریٹنگ حاصل کرنے کے بعد آپ فرسٹ آفیسر یعنی کو پائلٹ بن سکتے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ جہاز کا کپتان بننے کے لیے ایئرلائن ٹرانسپورٹ پائلٹ لائسنس کی ضرورت ہوتی ہے۔
پاکستانی پائلٹ کہتے ہیں کہ ایئرلائن ٹرانسپورٹ لائسنس سب سے زیادہ قیمتی لائسنس ہے۔
’اس کے لیے آپ کو پانچ ہزار 700 کلوگرام سے زیادہ وزن کا جہاز اُڑانا پڑتا ہے اور ایئرلائن ٹرانسپورٹ لائسنس کے حصول کے لیے بھی آپ کو 13، 14 امتحانات دینے پڑتے ہیں۔‘
Getty Imagesپاکستانی پائلٹ کہتے ہیں کہ ایئرلائن ٹرانسپورٹ لائسنس سب سے زیادہ قیمتی لائسنس ہے
ایئرلائن ٹرانسپورٹ لائسنس کے حصول کے بعد آپ کسی بھی ایئرلائن میں کپتان کے عہدے پر فائز ہونے کے اہل ہوجاتے ہیں۔
’مہنگا شوق‘
لیکن یہ لائسنس حاصل کرنا آسان نہیں ہے کیونکہ ایوی ایشن انڈسٹری سے منسلک لوگوں کے مطابق فلائنگ اب ایک ’مہنگا شوق‘ ہے۔
کراچی ایرو کلب کا شمار برصغیر کے پرانے فلائنگ سکولز میں ہوتا ہے۔ ان کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق پرائیوٹ پائلٹ لائسنس کے پورے تربیتی پروگرام کی فیس 29 لاکھ 69 ہزار سے زیادہ ہے، تاہم اس کے اندر سول ایوی ایشن کی میڈیکل، لائسنسنگ اور امتحان کی فیس شامل نہیں ہے۔
کپتان کے عہدے پر فائز پاکستانی پائلٹ کہتے ہیں کہ ’اب یہ ایک مہنگا شوق ہے۔‘
ان کے مطابق ’کمرشل پائلٹ لائسنس حاصل کرنے کی تربیت اور اس میں آنے والے دیگر اخراجات ہی اب تقریباً ڈیڑھ کروڑ روپے تک پہنچ گئے ہیں۔‘
’آج سے تقریباً دو دہائیوں قبل یہ خرچہ تقریباً نو یا 10 لاکھ تھا۔‘
دوسری جانب سول ایوی ایشن کے سابق عہدیدار کہتے ہیں کہ ’تربیت حاصل کرنے میں زیادہ پیسے خرچ ہوتے ہیں۔ ایئربس چلانے کی ٹریننگ پر ہی کچھ سال قبل تک 25 یا 30 لاکھ سے زیادہ خرچا آتا تھا اور اکثر اس ٹریننگ کے لیے بیرونِ ملک بھی جانا پڑتا ہے۔‘
یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ ان تمام لائسنس کے حصول اور تربیت کے بعد پاکستان میں بطور پائلٹ ملازمت حاصل کرنا کتنا آسان ہوتا ہے؟
پائلٹس کے لیے مواقع؟
پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی کے سابق عہدیدار افسر مالک اور کپتان کے عہدے پر فائز پاکستانی پائلٹ دونوں ہی یہ کہتے ہیں کہ ملک میں کمرشل پائلٹس کے لیے مواقع کم ہیں۔
افسر ملک کہتے ہیں کہ ’نجی ایئرلائنز زیادہ تر پاکستانی فضائیہ سے ریٹائر ہونے والے پائلٹس کو فوقیت دیتی ہیں کیونکہ ان کا فلائنگ کا تجربہ زیادہ ہوتا ہے۔‘
پاکستانی پائلٹ بھی یہی کہتے ہیں کہ ’ملک میں کمرشل پائلٹ لائسنس کے حامل بہت سارے پائلٹس بےروزگار ہیں اور متعدد ایئرلائنز اب غیرملکی تجربہ کار پائلٹس بھی ملازمتوں پر رکھ رہی ہیں۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’پہلے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز نئے پائلٹس کو ملازمتوں پر رکھا کرتی تھی لیکن اب اس کی نجکاری کی جا رہی ہے، جس کے بعد سے یہ مواقع بھی ختم ہو گئے ہیں۔‘
’ایئر عربیہ کی اکیڈمی کیڈٹ پائلٹس کا پروگرام کرواتی ہے اور آپ وہاں تقریباً دو کروڑ روپے ادا کر کے ایئربس اے 320 چلانے کی تربیت حاصل کر سکتے ہیں۔‘
Getty Images
ایئر عربیہ کی اکیڈمی پر دستیاب معلومات کے مطابق ان کے اس کورس کے دوران 1500 گھنٹے فلائنگ کروائی جاتی ہے۔
تاہم افسر ملک کہتے ہیں کہ پاکستان میں نئی پالیسی کے مطابق تمام ایئرلائنز پر 10 فیصد پاکستانی پائلٹس کو ملازمتوں پر رکھنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
'وہ کہتے ہیں کہ اگر اس پالیسی کا اطلاق ہوتا ہے تو پائلٹس کے لیے کچھ مواقع بن سکتے ہیں۔'
ان کے مطابق تجربہ حاصل کرنے کے لیے کچھ لائسنس یافتہ پائلٹس فلائنگ سکولز میں بطور انسٹرکٹر ملازمت اختیار کر لیتے ہیں تاکہ ان کے فلائنگ کے گھنٹے بڑھ سکیں۔
تاہم افسر مالک اور پاکستانی پائلٹ دونوں ہی کہتے ہیں کہ پاکستان میں تجربہ کار پائلٹس کے لیے اب بھی اچھی تنخواہ کمانے کے مواقع موجود ہیں۔
افسر ملک کہتے ہیں کہ ’پانچ سال پہلے جہاز کے کپتان کو اوسطاً ماہانہ پانچ سے چھ لاکھ اور فرسٹ آفیسر کو تقریباً تین لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ ملا کرتی تھی۔ اب کپتان کو ماہانہ 30 لاکھ اور فرسٹ آفیسر کو 20 لاکھ روپے تک تنخواہ ملتی ہے۔‘
کپتان کے عہدے پر فائز پاکستانی پائلٹ بھی افسر ملک سے اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’کچھ سال پہلے جہاز کے کپتان کی تنخواہ پانچ سے چھ لاکھ ہوا کرتی تھی، لیکن اب تجزبہ کار پائلٹ کو تقریباً 25 لاکھ روپے تک ماہانہ مل جاتے ہیں۔‘
ترک ساختہ ’بغیر پائلٹ لڑاکا طیارہ‘ جسے فضائی جنگ کا ’گیم چینجر‘ قرار دیا جا رہا ہےانڈین فضائیہ جس کی ابتدا ایک مسلمان افسر سمیت صرف چھ پائلٹوں سے کراچی میں ہوئیایئر انڈیا کی فلائٹ 171 کے پائلٹس کا ’پراسرار مکالمہ‘ جس نے حادثے کی تحقیقات کو مزید الجھا دیا ہے’کوئی بھی فضائی حادثہ ہو تو لوگ بغیر تحقیق پائلٹس کو مجرم بنا دیتے ہیں‘عید کا دن، راولپنڈی کی فضا اور دو پائلٹس کی گرفتاری: جب پاکستانی فضائیہ نے پہلی بار انڈیا کا جاسوس طیارہ مار گرایا