بھیک مانگنے کا الزام اور ’عمرے کے نام پر یورپ‘: 2025 میں ہزاروں پاکستانیوں کو ڈی پورٹ اور آف لوڈ کیوں کیا گیا؟

بی بی سی اردو  |  Dec 17, 2025

Getty Imagesعلامتی تصویر

وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا ہے کہ بیرون ملک جا کر بھیک مانگنے کے جرم میں ڈی پورٹ (بے دخل) کیے جانے والے پاکستانیوں پر سفری پابندی بڑھائی جا رہی ہے جبکہ اِن افراد کو پاکستان میں بھی فوجداری کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

بدھ کے روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی میں بریفنگ کے دوران ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل نے یہ انکشاف کیا ہے کہ رواں سال ہزاروں پاکستانیوں کو مختلف ممالک سے بھیک مانگنے کے الزام میں ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔

وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’بھیک مانگنے کے الزام میں بے دخل کیے جانے والوں پر سفری پابندیوں کو بڑھانے کی قانون سازی کی جا رہی ہے جس کا اعلان جلد ہو گا۔‘

ڈی جی ایف آئی اے کی بریفنگ کے مطابق رواں سال سعودی عرب نے 24 ہزار پاکستانیوں کو ’بھیک مانگنے پر ڈی پورٹ کیا جبکہ متحدہ عرب امارات نے چھ ہزار پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کیا۔‘

جبکہ حکام کے مطابق رواں سال آذربائیجان سے بھی ’ڈھائی ہزار بھکاریوں کو ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔‘

ایسا پہلی بار نہیں جب بھیک مانگنے کے جرم میں سعودی عرب سمیت دیگر ممالک سے پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کیا گیا ہو۔

رواں سال مئی میں وزارت داخلہ نے قومی اسمبلی کو آگاہ کیا تھا کہ گذشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں مختلف ممالک سے پانچ ہزار سے زیادہ پاکستانی شہریوں کو بھیک مانگنے کے الزام میں ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔

وزارت داخلہ کی اس رپورٹ کے مطابق سال 2024 میں مجموعی طور پر 4850 افراد جبکہ مئی 2025 تک 552 پاکستانی شہری مختلف ممالک سے بھیک مانگنے کے جرم میں واپس بھیجے گئے۔ اس دوران سب سے زیادہ شہری سعودی عرب سے ڈی پورٹ ہوئے تھے۔

ان تفصیلات کے سامنے آنے پر وزارتِ داخلہ نے بیرون ملک سے ڈی پورٹ ہونے والے افراد کو پانچ سال کے لیے پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالنے کا فیصلہ کیا تھا جبکہ ڈی پورٹ کیے جانے والے افراد کا پاسپورٹ منسوخ کرنے کے احکامات بھی فوری طور پر نافذ العمل کیے گئے تھے۔

Getty Images’عمرے کے نام پر یورپ جانے کی کوشش پر آف لوڈ‘

یاد رہے کہ گذشتہ دو برسوں کے دوران بیرون ملک بھیک مانگنے، ڈنکی لگا کر جانے اور انسانی سمگلنگ جیسے واقعات میں پاکستانیوں کے ملوث ہونے کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

تاہم منگل کے روز جن ممالک سے رواں سال پاکستانیوں کو بھیک مانگنے کے الزام میں ڈی پورٹ کرنے کی تفصیلات سامنے آئیں اس کے مطابق اس سال 24 ہزار افراد سعودی عرب نے بھیک مانگنے پر ڈی پورٹ کیے جبکہ متحدہ عرب امارات چھ ہزار پاکستانیوں کو بھیک مانگنے پر ڈی پورٹ کیا۔'

قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانیز اور انسانی حقوق کے اجلاس میں ڈی جی ایف ایف آئی اے نے بریفنگ میں مزید کہا کہ ’آذربائیجان سے بھی ڈھائی ہزار پاکستانی بھکاریوں کو ڈی پورٹ کیا گیا۔‘

ان کے مطابق ’لوگ عمرے کے نام پر یورپ جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ثبوت کے ساتھ ان تمام افراد کو آف لوڈ کیا گیا۔ عمرے کے نام پر لوگوں کے پاس یورپ جانے کے ڈاکومنٹس موجود تھے، تب آف لوڈ کیا گیا ہے۔‘

بریفنگ کے مطابق اس سال 24 ہزار افراد کمبوڈیا گئے، 12 ہزار افراد تاحال واپس نہیں آئے جبکہ ’برما میں سیاحتی ویزے پر چار ہزار افراد گئے، اڑھائی ہزار واپس نہیں آئے۔‘

انھوں نے بتایا کہ آف لوڈنگ اور غیر قانونی طریقہ کار سے جانے والے افراد کو روکنے کی وجہ سے ’ہمارے پاسپورٹ کی رینکنگ 118 سے 92 نمبر پر آئی۔‘

مسافروں کا ’پروفائل اینالیسز‘

وزیر مملکت طلال چوہدی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ گو کہ غیر قانونی امیگریشن پر حکومت نے زیرو ٹالیرنس کی حکمت عملی اپنائی ہوئی ہے تاہم کچھ ایسے واقعات سامنے آئے جس سے بدنامی ہوئی ہے مگر بڑی تعداد قانونی طور پر سمندر پار روزگار کے لیے جاتی ہے۔

انھوں نے تصدیق کی کہ عمرے کے ویزے پر پورے خاندان سفر کرتے ہیں اور وہاں جا کر ’بھیک مانگنے پر پکڑے جاتے ہیں۔‘

'عمرے کے ویزے پر فیملی جا رہی ہو تو اسے آپ نہیں روک سکتے۔ بدقسمتی سے عمرے یا حج کے ویزوں پر فیملیز جاتی ہیں اور بھیک مانگنے میں ملوث ہو جاتے ہیں جو ہمارے لیے باعث شرمندگی ہوتا ہے۔ سعودی عرب نے پانچ ہزار کے قریب ایسے ہی لوگ نشاندہی کر کے واپس کیے۔‘

منشیات کی سمگلنگ کے الزام میں قید پاکستانیوں کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں طلال چوہدری نے بتایا کہ ’جرائم میں قید پاکستانیوں کو قونصل تک رسائی دی جاتی ہے۔ منشیات کی روک تھام کے لیے اے این ایف نے قابل تعریف اقدامات کیے ہیں۔

’پہلی بار حج کے دوران کسی ایک جگہ بھی سعودی عرب نے شکایت نہیں کی کہ کوئی حاجی منشیات یا ڈرگز لے کر جا رہا تھا۔ اس سے پہلے یہ شکایات عام تھیں۔‘

پاکستان نے ڈی پورٹ ہونے والے شہریوں پر سفری پابندی لگانے کا فیصلہ کیوں کیا؟’کوئٹہ سے آگے ہم بار بار بِکتے ہیں‘: ڈنکی‘ کیا ہوتا ہے اور پاکستان سے لوگ کس طرح بیرون ملک سمگل ہوتے ہیں؟پاکستان میں ورک ویزا پر بیرون ملک جانے والے کچھ مسافروں کو ’آف لوڈ‘ کیوں کیا گیا؟یونان کشتی حادثہ: ’ایجنٹوں کا گاؤں‘ جہاں بچہ بچہ ڈنکی لگا کر یورپ جانے کا خواب دیکھ رہا ہے

تو ملک کے لیے شرمندگی کا سبب بننے والے واقعات اور پاسپورٹ کی رینکنگ میں کمی جیسے مسائل پر قابو پانے کے لیے حکومت کیا کر رہی ہے؟

اس سوال کے جواب میں طلال چوہدری نے دعویٰ کیا کہ ’پاکستان نے اس کی روک تھام کے لیے اپنے قوانین میں تبدیلیاں کی ہیں جبکہ پاسپورٹ کے سکیورٹی فیچرز میں اضافے کی وجہ سے ہمارا پاسپورٹ انٹرنیشل پاسپورٹ کے فیچرز کو میچ کر رہا ہے۔ جس کی وجہ سے فیک پاسپورٹ بنانا اب ممکن نہیں۔ ہم نے ایئر پورٹس پر کچھ نیا اور جدید سامان نصب کیا ہے اور عملے کی صلاحیت بڑھائی ہے۔‘

ہزاروں مسافروں کو آف لوڈ کیوں کیا گیا؟

قائمہ کمیٹی کو دی جانے والی اس بریفنگ میں ڈی جی ایف آئی اے نے پاکستان کے مختلف ہوائی اڈوں سے مسافروں کی آف لوڈنگ کے معاملے پر بتایا کہ آف لوڈنگ کا فیصلہ ’دستاویزات، ڈیٹا اور آن لائن ویریفکیشن کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔‘

ان کے مطابق ’آف لوڈ ہونے والے مسافروں کے پاس کورس، یونیورسٹی یا ملازمت سے متعلق مکمل معلومات موجود نہیں تھیں۔ متعدد کیسز میں مسافر ایجنٹس کے ذریعے نامکمل یا غلط معلومات کے ساتھ سفر کی کوشش کرتے ہیں۔‘

ان کے مطابق ’66 ہزار مسافروں کو آف لوڈ کیا گیا، جن میں بڑی تعداد لاہور اور کراچی ایئرپورٹ سے تھی۔ آف لوڈ کیے گئے مسافروں کی اکثریت وزٹ، عمرہ اور ورک ویزا کی کیٹیگری سے تھی۔ سوشل میڈیا پر بغیر تصدیق رپورٹس سے عوام میں خوف اور کنفیوژن پیدا ہوئی۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’کسی بھی مسافر کو سیاسی یا وی آئی پی دباؤ پر کلیئر نہیں کیا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بدعنوانی میں ملوث‘ 180 ایف آئی اے اہلکاروں کو نوکری سے برطرف کیا جا چکا ہے۔

’تمام بڑے ایئرپورٹس کو آئی ڈی ایم ایس ٹو اور نادرا کے آن لائن ڈیٹا سے منسلک کر دیا گیا ہے۔ ایئرپورٹس کے امیگریشن کاؤنٹرز پر کیمرے نصب اور کنٹرول ہیڈ کوارٹر سے نگرانی کی جا رہی ہے۔ امیگریشن نظام میں مصنوعی ذہانت کے ذریعے مشتبہ کیسز کی پیشگی نشاندہی کی جا رہی ہے۔‘

’ہر مسافر کی پروفائل کا تجزیہ کرتے ہیں‘

طلال چوہدری کے مطابق ’اب پاکستانی ایئرپورٹس پر پوری طرح اس بات کو ممکن بنایا جاتا ہے کہ کوئی قانونی دستاویزات کے بغیر سفر نہ کر سکے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’آف لوڈ کرنے کے علاوہ ہم ہر مسافر کا ایک ’پروفائل تجزیہ‘ کرتے ہیں اور اس میں اگر کسی چیز میں بھی شک نظر آتا ہے کہ یہ پاسپورٹ اور دستاویزات کا غلط استعمال کرے گا تو ایسے مسافروں کو روک لیا جاتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یورپ، برطانیہ اور باقی مغربی ممالک نے ہمارے ان اقدامات سے اطمینان کا اظہار کیا ہے اور یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ ذمہ دار ملک کے حوالے سے غیر قانونی امیگریشن کو ختم کریں اور ہم عرب ممالک اور یورپی ممالک کے لیے بھی قانونی امیگریشن کو پروموٹ کر رہے ہیں تاکہ لوگ قانونی طریقے سے جا سکیں۔‘

ان کے مطابق غیر قانونی امیگریشن پر حکومت نے زیرو ٹالیرنس کی حکمت عملی اپنائی ہوئی ہے اور کچھ ایسے واقعات سامنے آئے کہ اس بدنامی کا باعث بن رہے ہیں تاہم بڑی تعداد قانونی طور پر سمندر پار جا کر روزگار کے لیے جاتی ہے۔

ڈی جی ایف آئی اے نے کمیٹی کو بتایا کہ گذشتہ سالوں میں غیر قانونی جانے والے افراد میں پاکستان ٹاپ فائیو ملکوں میں تھا تاہم ان کے مطابق ’اب ہماری پالیسیوں سے پاکستانیوں کا یورپ میں غیر قانونی طریقہ سے جانے والوں میں ٹاپ فائیو ملکوں سے نکل گیا۔‘

ان کے مطابق ’گذشتہ برس 8 ہزار افراد غیر قانونی طور پر یورپ گئے تاہم اس سال یہ تعداد چار ہزار ہوگئی۔‘

ان کے مطابق ’اسلام آباد میں ایف آئی اے کے کاؤنٹر زیادہ ہیں جبکہ عملہ کم ہے۔اس کمی کے پیش نظر اسلام آباد پولیس کی 30 خواتین اہلکار کی خدمات لی گئی ہیں۔‘

پاکستان میں ورک ویزا پر بیرون ملک جانے والے کچھ مسافروں کو ’آف لوڈ‘ کیوں کیا گیا؟پاکستان نے ڈی پورٹ ہونے والے شہریوں پر سفری پابندی لگانے کا فیصلہ کیوں کیا؟ڈی پورٹ ہونے والے پاکستانیوں پر سفری پابندیوں کا فیصلہ کیوں؟ای سی ایل کیا ہے، اس سے نام نکالنے کا عمل کیا ہے؟خود امریکہ پہنچنے میں ناکامی پر ’انسانی سمگلنگ کا کاروبار چلانے والا‘ جوڑا گرفتار’سٹیکر کی بجائے ای ویزا‘: کون سے پاکستانی برطانیہ کی نئی سہولت سے مستفید ہو سکیں گے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More