’پہلا دھماکہ میرے مکان سے لگ بھگ 400 فٹ کے فاصلے پر ہوا اور اُس کے بعد دھماکوں اور فائرنگ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔‘
یہ کہنا ہے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی سے تعلق رکھنے والے ملک نثار علی کا۔ ملک نثار شمالی وزیرستان میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما ہیں اور اُن کا گھر میر علی بازار سے تقریباً آدھا کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
وہ بی بی سی کو بتاتے ہیں کہ ’میر علی میں آئے روز دھماکے اور فائرنگ ہوتی رہتی ہے لیکن اس دھماکے اور اس کے بعد ہونے والے متعدد دھماکوں کی نوعیت کچھ عجیب تھی جس کے باعث ہماری تشویش میں اضافہ ہوا۔‘
نثار کے مطابق ابتدائی دھماکے کے بعد ہونے والے متعدد دھماکوں اور مسلسل فائرنگ کے واقعات کے بیچ اُن کے ایک بھائی اور ایک بیٹی زخمی ہوئے ہیں۔ ’میرے بھائی کی ٹانگ پر شدید ضرب آئی ہے جبکہ بیٹی کو بھی متعدد زخم آئے ہیں۔‘
میر علی سے تعلق رکھنے والے ایک سرکاری افسر کے مطابق تحصیل میں اِن دھماکوں اور فائرنگ کے واقعات کا آغاز بدھ کی صبح اُس وقت ہوا تھا جب شدت پسندوں کی جانب سے سکیورٹی فورسز کے ایک قافلے کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی۔
انھوں نے کہا کہ ابتدائی تفصیلات کے مطابق یہ دھماکہ بظاہر بارودی سرنگ کی مدد سے کیا گیا تھا جس کے بعد سکیورٹی فورسز نے جوابی کارروائی کا آغاز ہوا اور شدت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان مقابلہ گھنٹوں تک جاریرہا۔
تحصیل ہیڈ کواٹر ہسپتال میر علی کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر منیر نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ اُن کے ہسپتال میں ایک دس سال کی بچی کو مردہ حالت میں لایا گیا جبکہ چھ زخمی لائے گئے تھے۔
ڈاکٹر منیر کے مطابق زخمیوں میں نعیم اللہ نامی بزرگ شہری بھی شامل تھے جنھیں گولہ گرنے کے باعث گہرے زخم آئے تھے۔ انھیں ابتدائی طبی امداد کے بعد بنوں ہسپتال ریفر کر دیا گیا تھا لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔
انھوں نے بتایا کہ دیگر زخمیوں میں کچھ کو فریکچرز ہوئے تھے جبکہ چند کو ہلکے زخم آئے تھے۔
میر علی میں اتمانزئی قوم کے ترجمان مولانا بیت اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ شمالی وزیرستان اور میر علی میں عام طور پر سکیورٹی فورسز کی موومنٹ سنیچر اور اتوار کے روز ہوتی ہے اور اس موومنٹ کے دوران پورے علاقے میں مکمل کرفیو ہوتا ہے، بدھ کے روز سکیورٹی فورسز کا قافلے کی موومنٹ معمول سے ہٹ کر تھی۔
انھوں نے کہا کہ کانوائے پر شدت پسندوں کے حملے کے بعد شدید فائرنگ شروع ہوئی، پہلے ہلکے ہتھیاروں سے اور پھر بھاری ہتھیاروں کا استعمال ہوا، اس دوران فضا میں ڈرون یا کواڈ کاپٹر بھی گردش کرتے رہے۔
انھوں نے کہا کہ ابتدائی حملے کے بعد جب شدید فائرنگ ہو رہی تھی تو لوگ مدد کے لیے پکار رہے تھے اور اس دوران میرانشاہ میں مساجد سے اعلانات بھی کیے گئے اور یہ اپیل کی گئی کہ اس وقت میر علی میں ’جنگ‘ جاری ہے اور سب لوگ اکٹھے ہوں تاکہ زخمیوں کو ہسپتالوں تک پہنچایا جا سکے اور جنگ بندی کے لیے کوششیں کی جا سکیں۔
تاحال پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے اس معاملے پر کوئی پریس ریلیز جاری نہیں کی گئی ہے جبکہ اس حملے کےبارے میں بنوں ریجن کے پولیس افسر سجاد خان اور شمالی وزیرستان کے پولیس افسر سجاد حسین سے بارہا رابطے کی کوشش کی گئی لیکن اُن کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
مقامی افراد کے مطابق ان جھڑپوں کا مرکز میرعلی میں خیسو خیل اور موسکی کے علاقوں میں تھا جبکہ آج (جمعرات) میر علی میں علاقہ عمائدین اور سیاسی رہنماؤں نے احتجاجی دھرنے کا انعقاد کیا اور اس موقع پر ہلاک ہونے والے شہری نعیم اللہ کی میت بھی وہاں رکھی گئی۔
تاہم بعد ازں اس احتجاجی دھرنے کا خاتمہ یہ کہتے ہوئے کر دیا گیا کہ جلد ہی امن پاسون منعقد کیا جائے گا۔
شدت پسندوں کا نیا ہتھیار: سستے چینی کواڈ کاپٹر اور کمرشل ڈرون خیبرپختونخوا میں خوف کی علامت کیسے بنے؟افغان شہریوں پر بیرون ملک عسکری کارروائیوں میں حصہ لینے کی ممانعت: افغان علما کی قرارداد پاکستان، افغانستان کشیدگی میں کیا معنی رکھتی ہے؟
یاد رہے کہ کہ یہ اس طرح کا کوئی پہلا دھرنا یا جرگہ نہیں ہے بلکہ تشدد کے ہر واقعے کے بعد اسی طرح قبائلی عمائدین اور سیاسی رہنما سر جوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اور انتظامیہ اور سکیورٹی حکام سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔
قوم اتمانزئی کے جرگہ کے ترجمان مولانا بیت اللہ کا کہنا ہے کہ ’اب یہاں کے لوگ سرکار سے بھی خفا ہیں اور عسکریت پسندوں سے بھی ناراض ہیں کیونکہ اُن کی آپس کی جھڑپوں میں نقصان عام شہریوں کا ہو رہا ہے۔‘
’زخمی ہماری آنکھوں کے سامنے کراہ رہے تھے‘
شمالی وزیرستان میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما نثار علی، جن کے مطابق اُن کے ایک بھائی اور بیٹی کل پیش آئے واقعات میں زخمی ہوئے ہیں، نے بتایا کہ ابتدائی دھماکے کے بعد انھیں لگ بھگ ساڑھے چار گھنٹوں تک فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں آتی رہیں ہیں جن کی شدت کافی زیادہ تھی۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ صورتحال اتنی گھمبیر تھی کہ علاقہ مکین زخمیوں کو بروقت ہسپتال پہنچانے کے قابل نہیں تھے۔
’زخمی ہماری آنکھوں کے سامنے کراہ رہے تھے اور چونکہ ہسپتال جانے کا راستہ نہیں تھا اس لیے ہم اپنے طور پر انھیں طبی امداد دیتے رہے۔ لگ بھگ دو گھنٹوں کے بعد ہمیں موقع ملا اور ہم زخمیوں کو ہسپتال لے گئے۔ یہ جھڑپ کوئی ساڑھے چار گھنٹوں تک جاری رہی اور اس دوران علاقے میں شدید خوف تھا اور ایسا منظر تھا جیسے دو ممالک کے درمیان جنگ جاری ہو۔‘
نثار علی نے دعویٰ کیا کہ اس دوران جو بارودی مواد استعمال کیا جا رہا تھا اس کے باعث بہت زیادہ آگ بھڑک رہی تھی اور جب اس پر پانی ڈالا جاتا تو آگ بجھنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ساڑھے گھنٹوں پر محیط اس کارروائی کے دوران زیادہ متاثرہ علاقوں میں کچھ مکانوں کی چھتیں گری ہیں، دیواروں کو نقصان پہنچا ہے جبکہ چند مویشی بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
مقامی افراد نے بتایا کہ اس جھڑپ کے دوران زخمیوں کو جلد از جلد ہسپتال پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر اور وٹس ایپ گروپس پر اپیلیں کی جا رہی تھیں۔ ہسپتال ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے پاس سکیورٹی فورسز اور شدت پسندوں کی جانب سے کوئی زخمی یا لاشیں نہیں لائی گئیں۔
میر علی میں پرتشدد واقعات
میر علی میں حالیہ دنوں میں پیش آنے والا یہ واحد واقعہ نہیں ہے۔ گذشتہ ہفتے میر علی میں عیسوڑی کے مقام پر ایک دھماکہ ہوا تھا جس میں دو بچے ہلاک اور پانچ بچیوں سمیت 15 افراد زخمی ہوگئے تھے۔
مقامی پولیس اور انتظامیہ کے افسران نے بتایا تھا کہ میر علی کے قریب عیسوڑی دیہات میں اُس وقت دھماکہ ہوا ہے جب بچے وہاں کھیل رہے تھے۔ میر علی سے ایک انتظامی افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عیسوڑی کے مقام پر بچے کھیل رہے تھے جہاں انھیں بارودی مواد کا گولہ ملا ہے جس سے دھماکہ ہوا ۔
میر علی کے تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر منیر نے بتایا ہے کہ گذشتہ ہفتے پیش آئے اس واقعے کے بعد اُن کے ہسپتال میںایک بچہ مردہ حالت میں لایا گیا جبکہ 16 زخمی تھے، جن میں پانچ بچیاں بھی شامل تھیں۔ انھوں نے کہا کہ زخمی ہونے والوں میں سے بیشتر کی عمریں آٹھ سال سے 12 سال کے درمیان تھیں۔
انھوں نے کہا کہ تین زخمیوں کی حالت تشویشناک تھی جنھیں خلیفہ گل نواز ٹیچنگ ہسپتال (بنوں) ریفر کر دیا گیا تھا۔
بنوں میں ہسپتال کے ترجمان محمد نعمان نے بتایا تھا کہ اُن کے ہسپتال میں کل آٹھ زخمی لائے گئے ہیں جن میں ایک بچہ شدید زخمی ہونے کی وجہ سے بعدازاں دم توڑ گیا تھا۔
اسی طرح 19 مئی 2025 کو میر علی میں ہی ایک مکان پر مبینہ کواڈ کاپٹر سے بارودی مواد پھینکا گیا تھا جس میں چار بچے ہلاک جبکہ ایک خاتون سمیت چار بچے زخمی ہو گئے تھے۔ یہ واقعہ ہرمز گاؤں میں پیش آیا تھا۔
اسی طرح 28 جون 2025 کو سکیورٹی فورسز کے قافلے پر مبینہ خودکش حملہ کیا گیا تھا اور اس کے بعد کی گئی جوابی کارروائی میں 14 شدت پسندوں کی ہلاکت کی اطلاع دی گئی تھی۔
اسی سال یکم ستمبر کو میر علی کے قریب ایک پولیس چوکی پر حملہ ہوا تھا جس میں ایک پولیس اہلکار ہلاک جبکہ ایک زخمی ہوئے تھا اور حکام کے مطابق اس کے بعد کی جوابی کارروائی میں تین شدت پسند ہلاک ہو گئے تھے۔
اس کے علاوہ چند روز پہلے خوشحالی گاؤں میں شدت پسندوں کی جانب سے ایک پرائمری سکول میں دھماکہ کیا گیا تھا جس میں کسی جانی نقصان کی اطلاع موصول نہیں ہوئی تھی۔
افغان شہریوں پر بیرون ملک عسکری کارروائیوں میں حصہ لینے کی ممانعت: افغان علما کی قرارداد پاکستان، افغانستان کشیدگی میں کیا معنی رکھتی ہے؟شدت پسندوں کا نیا ہتھیار: سستے چینی کواڈ کاپٹر اور کمرشل ڈرون خیبرپختونخوا میں خوف کی علامت کیسے بنے؟ٹی ٹی پی کے میڈیا چینلز پر خاموشی: تحریکِ لبیک پاکستان فورس سمیت پاکستان میں حالیہ حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والے نئے گروہ کیا ہیں؟نوکُنڈی میں ایف سی ہیڈ کوارٹرز پر حملہ اور سکیورٹی فورسز کی جوابی کارروائی: ’یہ ایک خوفناک رات تھی‘