انڈیا کی ریاست گجرات میں بیوی کے قتل کے جرم میں سریندر نامی شخص کو عمر قید کی سزا ہوئی تھی۔ وہ سزا کاٹنے کے دوران پیرول پر رہا ہوئے اور پھر نو سال سے مفرور تھے۔
اس دوران مجرم نے دوسری شادی کر کے گھر بھی بسایا۔ لیکن ایک بسکٹ کے پیکٹ کی وجہ سے پولیس نے انھیں دوبارہ پکڑ لیا۔
اس کہانی کو سمجھنے کے لیے ہمیں کئی سال پیچھے جانا ہو گا۔ دو دہائیوں قبل سورت کی ایک انجینیئرنگ کمپنی میں کام کرنے والے سریندر ورما کرائے کے ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے تھے۔
تاہم ان کا اپنی بیوی سے اکثر جھگڑا رہتا تھا۔ جھگڑے اس قدر بڑھے کہ 2007 میں سریندر نے اپنی بیوی کو قتل کر دیا تاہم پولیس نے انھیں پکڑ لیا تھا۔
مضبوط شواہد اور گواہی کی بنیاد پر سورت سیشن کورٹ نے سریندر کو عمر قید کی سزا سنائی اور تب سے وہ لاجپور جیل میں اپنی سزا کاٹ رہے تھے۔
تاہم 2016 میں سریندر ورما کو پیرول پر 28 دنوں کے لیے ضمانت مل گئی تھی۔ اس دوران وہ فرار ہو گئے جس کی وجہ سے ان کے خلاف سچن پولیس سٹیشن میں ’جیل قانون‘ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
سریندر ورما کے خاندانی رشتہ دار رویندر کمار نے بتایا کہ ’سریندر کے خاندان کے پاس یو پی میں کچھ زمین ہے، لیکن کوئی خاص آمدنی نہیں تھی۔ سریندر کوئی خاص پڑھا لکھا نہیں تھا۔ چونکہ اس کی زراعت سے اچھی آمدنی نہیں تھی، اس لیے وہ بیوہرا گاؤں سے 10 کلومیٹر دور کاروی میں رکشہ چلاتا تھا۔ وہ لوگوں کو رکشہ میں ڈال کر چترکوٹ لے جاتا تھا۔‘
رویندر کمار کا کہنا ہے کہ ’اس دوران سریندر کو ایک لڑکی سے محبت ہو گئی۔ جس سے گاؤں میں تنازع ہوا اور 2005 میں اس نے اپنی ذات کی لڑکی سے شادی کر لی۔‘
ان کے مطابق ’کچھ عرصے بعد وہ کام کی تلاش میں گاؤں کے کچھ لوگوں کے ساتھ سورت آیا اور سچن کی ایک فیکٹری میں کام کرنے لگا۔ اس کے علاوہ وہ رات کو کرائے کا رکشہ بھی چلاتا تھا۔‘
’سریندر اپنی بیوی سے مسلسل جہیز کا مطالبہ کرتا تھا اور جہیز کی رقم ملنے پر کرایہ پر لینے کے بجائے اپنا رکشہ خریدنے کی بات کرتا تھا۔ اور اس بات پر جھگڑے ہوتے تھے۔‘
اور تب اس کے رشتہ داروں کو پتہ چلا کہ سریندر نے اس کی بیوی کو قتل کر دیا ہے۔
پولیس نے نو سال سے مفرور مجرم کو کیسے پکڑا؟
سورت کے اے سی پی نیرو گوہل نے کہا کہ 2016 میں سریندر ورما نے پیرول کے لیے درخواست دی تھی۔ ان کی درخواست قبول کر لی گئی تھی اور سریندر کو 28 دنوں کے لیے ضمانت مل گئی تھی۔
اے سی پی نیرو گوہل کے مطابق سریندر پیرول کی مدت کے دوران فرار ہو گیا تھا۔ اس کی وجہ سے اس کے خلاف سچن پولیس سٹیشن میں ’جیل قانون‘ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا اور تب سے مفرور تھا۔
پولیس نے 42 سالہ سریندر کو پکڑنے کے لیے خصوصی آپریشن شروع کیا تھا جو پیرول پر رہا ہونے کے دوران فرار ہو گئے۔
اے سی پی گوہل نے کہا کہ ’سب سے پہلے، ہم نے سریندر کے گاؤں کے لوگوں سے کچھ تفصیلات حاصل کرنے کے بعد ایک ٹیم تشکیل دی۔ ٹیم کو جانچ کے لیے سریندر کے آبائی گاؤں بیوہرا گاؤں بھیجا گیا تھا۔ ہم یوپی پولیس سے بھی رابطے میں تھے۔‘
’برین میپنگ ٹیسٹ‘: پولیس نے چار سال بعد اپنی ہی بیوی کے قاتل کو کیسے پکڑا؟اندھے قتل کا معمہ: وہ ’لاپتہ‘ لڑکی جس کی لاش قاتل نے قالین میں لپیٹ کر دفنا دی تھیڈاکٹر وردہ کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم ’اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے‘ ہلاک، ایبٹ آباد پولیس کا دعویٰثنا یوسف کا قتل: ’بہن کو آواز آئی کہ شاید کوئی غبارہ پھٹا ہے‘
دوسری جانب مفرور ہونے کے بعد سے سریندر کو خدشہ تھا کہ ایک دن پولیس انھیں ڈھونڈتی ہوئی آئے گی اس لیے پیرول کے دوران فرار ہونے کے بعد انھوں نے اپنے والدین اور بھائی سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔
پولیس کے مطابق اتر پردیش میں سریندر کا گاؤں چھوٹا ہے، اس لیے انھوں نے کچھ رشتہ داروں سے تفصیلی پوچھ گچھ کی۔
پتہ چلا کہ سریندر بیوہرا سے تھوڑے فاصلے پر کاروی میں رکشہ چلا رہا تھا۔ یہاں پولیس نے کچھ رکشہ ڈرائیوروں سے بات کی۔
جب پولیس نے رکشہ چلانے والوں کو سریندر کی تصویر دکھائی تو ایک رکشہ چلانے والے نے بتایا کہ سریندر یہاں الیکٹرک رکشہ چلاتا تھا۔ اب اس نے دوسری شادی کر لی تھی اور اپنی بیوی کے ساتھ کرائے کے مکان میں رہ رہا تھا۔ اور اس کا ایک بیٹا بھی ہے۔
چھ ماہ قبل وہ شنکر پور گاؤں میں اپنی بھابھی کی شادی میں بھی گیا تھا۔ پولیس نے سریندر کی دوسری بیوی کے بھائی سے پوچھ گچھ کی تو پتہ چلا کہ وہ گروگرام میں گھاٹ کے قریب مزدوری کرتا تھا۔ پولیس کے پاس اب اس کی بیوی کا فون نمبر اور پتہ بھی تھا۔
سریندر کو روزانہ صبح چائے کے ساتھ بسکٹ کھانے کی عادت تھی۔ چنانچہ پولیس نے سادہ کپڑوں میں اس کے گھر کے قریب دو دن تک پہرہ لگا دیا۔
اسی دوران 14 نومبر کو سریندر اپنے بیٹے کے ساتھ بسکٹ خریدنے آئے تو پولیس نے انھیں پکڑ لیا۔ سریندر کو اتر پردیش سے سورت لایا گیا تھا اور عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔
قاتل کو پیرول کب ملتا ہے؟
ایک قاتل کو پیرول کب مل سکتا ہے، اس بارے میں ایڈوکیٹ آشیش شکلا نے کہا کہ ’قتل کے مقدمے میں سزا کاٹنے والے قاتل کو دو طریقوں سے پیرول مل سکتا ہے۔‘
’ایک اگر قاتل کے خاندان میں کوئی شدید بیمار ہے یا اس کی کوئی معقول وجہ ہے، تو وہ اپنے وکیل کی مدد سے ہائی کورٹ میں درخواست دے سکتا ہے۔ اگر عدالت درخواست قبول کر لیتی ہے، تو اسے پیرول مل سکتا ہے۔‘
’دوسرا تب جب کوئی قیدی اپنی سزا کے چند سال مکمل کر لیتا ہے تو جیل سپرنٹنڈنٹ مقررہ فارم کو پُر کر کے پیرول کے لیے درخواست دے سکتا ہے۔ ‘
’اس کے بعد وہ جیل میں مجرم کے رویے، دوسرے قیدیوں کے ساتھ برتاؤ وغیرہ کے بارے میں اپنی رائے دیتا ہے اور پولیس اس کی تصدیق کرتی ہے۔ ‘
’اگر پولیس اور جیل سپرنٹنڈنٹ مطمئن نہیں ہو پاتے تو مجرم کی پیرول کی درخواست مسترد ہو جاتی ہے۔‘
’برین میپنگ ٹیسٹ‘: پولیس نے چار سال بعد اپنی ہی بیوی کے قاتل کو کیسے پکڑا؟ڈاکٹر وردہ کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم ’اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے‘ ہلاک، ایبٹ آباد پولیس کا دعویٰثنا یوسف کا قتل: ’بہن کو آواز آئی کہ شاید کوئی غبارہ پھٹا ہے‘اندھے قتل کا معمہ: وہ ’لاپتہ‘ لڑکی جس کی لاش قاتل نے قالین میں لپیٹ کر دفنا دی تھیشادی کے دن ’دلہن‘ کا قتل، خون آلود پائپ اور ہتھیلی پر لکھا ہوا مبینہ قاتل ’ساجن‘ کا نام’62 لاکھ روپے کا سونا‘ جس کے لیے خاتون نے اپنے شوہر اور بہن کے ساتھ مل کر اپنی سہیلی کو مبینہ طور پر قتل کر دیا