ایرانی جوہری پروگرام کے تناظر میں پاکستان، پرویز مشرف اور ڈاکٹر عبدالقدیر کا تذکرہ: پوتن، بُش ملاقاتوں میں کیا بات ہوئی؟

بی بی سی اردو  |  Dec 26, 2025

Getty Images

روس کے صدر ولادمیر پوتنکو خدشات تھے کہ ایران کے جوہری پروگرام میں پاکستان مبینہ طور پر معاونت کر سکتا ہے اور پوتن نے سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش سے سنہ 2001 اور سنہ 2005 میں ہونے والی اپنی دو ملاقاتوں میں اس ضمن میں اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔

امریکہ میں نیشنل سکیورٹی آرکائیو نے سابق امریکہ صدر جارج ڈبلیو بش اور روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان سنہ 2001، سنہ 2005 اور سنہ 2008 میں ہونے والی ملاقاتوں کی معلومات جاری کر دی ہیں۔

مختلف ادوار میں ہونے والے اِن ملاقاتوں میں انسدادِ دہشت گردی، یوکرین، جوہری عدم پھیلاؤ، القاعدہ، عراق میں امریکہ اور اتحادی افواج کا حملہ اور نیٹو کے معاملات زیر بحث آئے تھے۔

صدر بش اور پوتن کے مابین ہونے والی تینوں ملاقاتوں میں ہونے والی بات چیت یا مکالمہ حرف با حرف جاری کیا گیا ہے۔

ان ملاقاتوں میں دونوں صدور کے مابین ایران کے تناظر میں ہونے والی گفتگو میں پاکستان، اُس وقت کے فوجی صدر جنرل پرویز مشرف اور پاکستان کے جوہری سائنسدان عبدالقدیر خان کے معاملے پر بھی سرسری بات چیت ہوئی۔

پہلی ملاقات: ’پاکستان کے بارے میں خدشات ہیں، وہ جوہری ہتھیار رکھنے والی جُنتا ہے‘

امریکہ کی نیشنل آرکائیو نے 16 جون 2001 میں سلوانیہ کے برڈو محل میں صدر بش اور صدر پوتن کے مابین ہونے والی پہلی ملاقات کا ٹرانسکرپٹ جاری کیا ہے۔

یہ ملاقات دوپہر دو بج کر 50 منٹ پر شروع ہوئی اور شام چار بج کر 10 منٹ تک جاری رہی۔

اس ملاقات میں امریکی سیکریٹری خارجہ کونڈی لیزا رائس بھی موجود تھیں جبکہ ولادیمیر پوتن کے ساتھ اُن کی سکیورٹی کونسل کے سیکریٹری شریک تھے۔

ایک گھنٹے 20 منٹ تک جاری رہنے والی ملاقات میں دونوں صدور نے روس اور امریکہ کے مابین قریبی سٹریٹجک تعلقات کے فروغ میں دلچسپی کا اظہار کیا۔

ملاقات میں ایران، شمالی کوریا اور نیٹو کی توسیع پر بات ہوئی ہے اور دونوں ممالک کے صدور نے امریکہ اور روس کے مابین ہتھیاروں سے متعلق معاہدے اور جوہری عدم پھیلاؤ پر بات کی۔

روس کے صدر پوتن اور امریکی صدر کے مابین ہونے والی پہلیملاقات میں ایران کے جوہری ہتھیاروں کے تناظر میں دو بار پاکستان کا ذکر ہوا اور صدر پوتن نے ایران کے جوہری پروگرام میں پاکستان کی معاونت پر تشویش ظاہر کی۔

اس حوالے سے ہونے والی بات چیت ذیل میں بیان کی جا رہی ہے:

صدر پوتن: میں ایران کے لیے میزائل ٹیکنالوجی کی مخالفت کروں گا۔ اس علاقے میں کچھ ایسے ملک ہیں جو اس سے پیسے کمانا چاہتے ہیں اور میں نے یہ بھی سُنا ہے کہ آپ (صدر بُش) ایران سے تعلقات معمول پر لا رہے ہیں؟

صدر بش: نہیں، یہ درست نہیں ہے۔ کانگریس ایسا کبھی نہیں ہونے دے گی۔

صدر پوتن: لیکن امریکہ کی جانب سے میک فارلینڈ ایرانی پارلیمنٹ سے رابطے میں ہیں۔

صدر بش: یہ صحیح نہیں ہے۔

صدر پوتن: لیکن جرمنی نے ایران کے ساتھ 28 ڈی ایم کی کریڈٹ لائن کھول لی ہے، ایران کے لیے چیزیں کُھل رہی ہیں، روایتی نوعیت کے ہتھیاروں کی تجارت ایک معمول کی تجارتی سرگرمی ہے۔ حساس معاملات میں ایرانی ماہرین نے ہمارے ماہرین کے لیے کئی سوال چھوڑے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ انھیں جوہری ہتھیار چاہییں۔ میں نے اپنے لوگوں سے کہا کہ انھیں ایسا کچھ نہ بتائیں۔ اور میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم مشترکہ طور پر عراق کے ساتھ کام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

’میں کیوبا پر بات کرنا چاہتا ہوں کہ میں وہاں کیوں گیا تھا۔ انھوں نے ہمیں ایک بیکار جوہری پلانٹ بھیجا تھا، جس کے ہم نے تین کروڑ ّڈالر ادا کیے تھے۔ وہ بالکل اچھا نہیں تھا۔ اسی لیے میں کیوبا گیا۔

مجھے پاکستان کے بارے میں خدشات ہیں۔ وہ جوہری ہتھیار رکھنے والی جُنتا ہے۔ وہاں بھی جمہوریت نہیں ہے اور وہاں تو مغربی (ممالک) کوئی تنقید نہیں کرتے۔ انھیں اس بارے میں بات کرنی چاہیے۔

صدر بش: مجھے یہ جان کر اچھا لگا کہ جو آپ کو درپیش خطرات ہیں وہ امریکہ اور روس میں ٹکراؤ کا باعث نہیں ہیں۔

اِسی بات چیت میں صدر پوتن نے کہا کہ روس نے امریکہ کو، یہاں تک کے سرد جنگ کے دنوں میں بھی، خطرہ نہیں سممجھا۔ پوتن نے مزید کہا کہ چین کے معاملے پر امریکہ نے 50 سال پہلے جو کہا تھا ہم نے اسے سنجیدہ لیا تھا اور ہم اسے محتاط انداز میں دیکھ رہے۔

اس کے جواب میں صدر بش نے اپنی پوزیشن کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ سرد جنگ کا زمانہ، شکوک و شبہات، مقابلہ کرنے اور ایک دوسرے کو ختم کرنے کا دور تھا۔ جس پر پوتن نے کہا کہ سرد جنگ کو ختم کرنے کا کام آپ نے بہت اچھے طریقے سے کیا۔

کیا ڈاکٹر عبدالقدیر خان دنیا کے سب سے خطرناک آدمی تھے؟’خطروں کا سوداگر‘: پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام ایران کے جوہری پروگرام سے کیوں جوڑا جاتا ہے؟

صدر بش نے یورپ میں ولادیمیر پوتن کی ساکھ کی تعریف کی۔ اپنی بات چیت کے دوران انھوں نے کہا کہ ’یورپ میں آپ کی ساکھ اچھی ہے، لیکن آپ آزاد میڈیا کے بارے میں کوئی فیصلہ کیوں نہیں کرتے؟‘

صدر پوتن: مجھے پاکستان اور افغانستان پر بات ختم کرنے دیں۔ افغانستان میں جنگ جاری ہے۔ یہ ہماری بنیادوں کو ہلا رہا ہے۔ وہاں اسامہ بن لادن موجود ہے۔ ہم نے تعاون کرنا شروع کیا تھا لیکن افغان ورکنگ گروپ کا پتا لگنے سے وہ ختم ہو گیا۔ روس اور امریکہ کے تعاون کی مخالفطاقتوں نے یہ کیا ہے۔ میں نے اس مسئلے کی وجہ سے اپنے کئی ایجنٹس کھو دیے ہیں۔

اسی ملاقات کے دوران صدر پوتن نے امریکی صدر سے افغانستان میں طالبان کے بارے میں بھی پوچھا۔

صدر بش نے پوتن سے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ روس مغرب کا دشمن نہیں بلکہ اُس کا حصہ ہے اور انھوں نے اپنی ملاقات میں روس میں میڈیا کی آزادی پر بات کی جبکہ پوتن نے انسدادِ دہشت گردی اور سکیورٹی خدشات پر بات کی۔

اس ملاقات میں پوتن نے کہا کہ سویت یونین کے خاتمے کے بعد روس نے ہزاروں کلومیٹر کا علاقہ رضاکارانہ طور پر یوکرین کو دیا ہے۔ انھوں نے نیٹو میں روس کی رکنیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ انھیں اس معاملے پر ’تنہا‘ چھوڑ دیا گیا ہے۔

دوسری ملاقات: ’وہاں سینٹری فیوجیز سے پاکستانی یورینیم ملی ہے‘

امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش اور روس کے صدر کے مابین دوسری ملاقات امریکہ دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں ہوئی۔ یہ ملاقات 16 ستمبر 2005 کو ہوئی۔

نینشل آرکائیو کی جاری دستاویزات کے مطابق اوول آفس میں دوپہر کو ہونے والی یہ ملاقات دو بج کر 15 منٹ پر شروع ہوئی اور آدھے گھنٹے تک جاری رہی۔

امریکی صدر کے دفتر میں ہونے والی اس ملاقات میں ایران اور شمالی کوریا کے معاملے پر جوہری عدم پھیلاؤ کے لیے روس اور امریکہ کے مابین تعاون پر بات ہوئی۔

اس بات چیت کے دوران ایران اور شمالی کوریا کے معاملے پر دونوں ممالک کے صدور نے اپنی پوزیشن واضح کی۔امریکی صدر نے ایران کے حوالے سے پوتن کو بتایا کہ ’ہمیں جوہری ہتھیار رکھنے والے ایسے کئی مذہبی افراد نہیں چاہیے ہیں۔‘

ولادیمیر پوتن نے صدر بش کو ایران کے جوہری پروگرام کے بارے اپنے رائے اورخدشات سے آگاہ کیا اور ایران میں بوشہر ری ایکٹر پراجیکٹ کے توسیعی منصوبے میں روس کے کردار پر بات کی۔

یاد رہے کہ یہ ایران کا پہلا جوہری ری ایکٹر ہے جو ستر کی دہائی میں نصب کیا گیا تھا۔

ایران کے جوہری پروگرام کے معاملے پر صدر بش نے کہا کہ ایران کا معاملہ بہت پیچیدہ ہے وہ کسی بات پر متفق ہوتے اور پھر پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ہمارا ایران سے براہ راست رابطہ نہیں ہے لیکن دوسروں پر انحصار کرتے ہوئے ہم یہ کوشش کر رہے ہیں ایران کو ہتھیاروں کو کیسے دور رکھا جائے۔

انھوں نے کہا کہ ہم ملٹری آپریشن سے بچنا چاہیے ہیں لیکن اسرائیلی صدر شیرون چاہتے ہیں کہ ایران پر حملہ کیا جائے۔ انھوں نے کہا کہ ہمارے خیال میں سفارتکاری ہونی چاہیے لیکن شیرون سمجھتے ہیں کہ ایران پر اب حملہ کر دینا چاہیے اور بظاہر لگتا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے کوئی حملہ ہو جائے گا۔

جس کے جواب میں روسی صدر نے پوچھا کہ وہ کہاں حملہ کر سکتے ہیں؟

صدر بش: میرا خیال ہے کہ نطنز وہ جگہ ہے جہاں ایران افزودگی کر رہا ہے لیکن ہم اسرائیل کے لیے اسے ہدف نہیں بنا رہے ہیں۔

صدر پوتن: ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ لیب (لیبارٹری) میں کیا ہے، اور یہ کہاں ہیں۔ پاکستان کے ساتھ تعاون ابھی بھی جاری ہے۔

صدر بش: میں نے مشرف سے بات ہے اور اُنھیں بتایا ہے کہ ہم ایران اور شمالی کوریا کو (جوہری ہتھیاروں کی) منتقلی پر پریشان ہیں۔ انھوں نے عبدالقدیر خان کو جیل میں ڈال دیا ہے اور اُن کے کچھ دیگر ساتھی گھروں میں نظر بند ہیں۔ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ انھوں نے (گرفتار افراد نے) کیا بتایا ہے۔ میں مشرف سے اس پر بات کرتا رہوں گا۔

صدر پوتن:جتنا مجھے سمجھ میں آیا ہے کہ انھیں وہاں سنٹرل فیوجیز سے پاکستانی یورینیم ملی ہے۔

صدر بش: جی یہ وہ بات ہے جو ایران آئی اے ای اے کو بتانا بھول گیا ہے، یہ خلاف ورزی ہے۔

صدر پوتن: یہ (یورینیئم) پاکستان کی ہے۔ جس پر میں کافی پریشان ہوا ہوں۔

صدر بش: اس سے میں بھی پریشان ہوا ہوں۔

صدر پوتن: ہمارے بارے میں سوچیں۔

اسی ملاقات میں شمالی کوریا پر بھی بات چیت ہوئی۔

شمالی کوریا کے بارے میں بات کرتے ہوئے پوتن نے کہا کہ وہ شمالی کوریا گئے تھے اور کہا کہ وہ کمیونیسٹ پارٹی کے رُکن تھے اور کیمونزم کے نظریات پر یقین رکھتے تھے۔

اس ملاقات کے دوران دونوں صدور نے اسرائیل پر بھی بات کی اور صدر بش نے روس کے صدر کو ایک کتاب بھی تجویز کی۔

اوول ہاؤس میں ہونے والی اس ملاقات میں دونوں ممالک کی اہم وزرا اور سفیر بھی موجود تھے۔

تیسری اور آخری ملاقات

امریکہ کے صدر جارج ڈبلیو بش اور روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے مابین تیسری اور آخری ملاقات بحیرۃ اسود کے قریب سوچی کے علاقے میں صدر پوتن کی رہائش گاہ پر ہوئی۔

امریکہ کی نیشنل آرکائیو کی جانب سے جاری کی گئی تفصیلات کے مطابق یہ ملاقات 6 اپریل 2008 کو ہوئی۔ ملاقات صبح 10 بجے شروع ہوئی اور ایک گھنٹے تک جاری رہی۔

یہ ملاقات نیٹو کے سربراہی اجلاس کے فوراً بعد ہوئی اورنیٹو کے اس اجلاس میں جارجیا اور یوکرین کو نیٹو میں شمولیت کی دعوت دینے پر تنازع ہوا تھا، لیکن اس کے باوجود صدر بش اور صدر پوتن کے مابین ہونے والے ملاقات بظاہر شائستہ اور دوستانہ رہی۔

صدر پوتن نے یوکرین اور جارجیا کی نیٹو کی رکنیت کی سخت مخالفت کی۔ صدر پوتن نے اس ملاقات کے دوران کہا کہ روس یوکرین میں نیٹو مخالف قوتوں کی حمایت کرے گا اور یوکرین میں ’مسائل پیدا کرے گا‘ کیونکہ روس کو’فوجی اڈوں اور اتحاد کے بعد نئے فوجی نظام کی تعیناتی‘ پر تشویش ہے۔

جس کے جواب میں امریکی صدر نے روس کے خدشات بیان کرنے کے انداز پر صدر پوتن کی تعریف کی۔ پوتن نے پولینڈ اور جمہوریہ چیک میں میزائل دفاعی تعیناتیوں کے بارے میں روسی نقطہ نظر کی اچھی وضاحت کی۔

اس پوری گفتگو میں ایران کا ذکر پانچ مرتبہ ہوا تاہم پاکستان کا ذکر نہیں ہوا۔

کیا ڈاکٹر عبدالقدیر خان دنیا کے سب سے خطرناک آدمی تھے؟’خطروں کا سوداگر‘: پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام ایران کے جوہری پروگرام سے کیوں جوڑا جاتا ہے؟پاکستانی ایٹمی پروگرام کی کہانیایران کا جوہری پروگرام جو دہائیوں قبل امریکہ کی مدد سے شروع ہوا تھاایران کا جوہری پروگرام اس قدر متنازع کیوں ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More