رجب بٹ پر تشدد کے الزام میں وکلا کے خلاف مقدمہ درج: ’کراچی بار نے جو عزت کمائی اسے چند وکلا کے غیرقانونی رویے سے نقصان پہنچا‘

بی بی سی اردو  |  Dec 30, 2025

سندھ کے شہر کراچی میں یوٹیوبر رجب بٹ پر حملے کا مقدمہ 20 سے زائد وکلا کے خلاف درج کر لیا گیا ہے جس میں تشدد اور لوٹ مار کے الزامات بھی عائد کیے گئے ہیں۔

رجب بٹ کے وکیل بیرسٹر اشفاق احمد کی مدعیت میں سٹی کورٹ تھانے پر دائر مقدمے میں مؤقف اختیار کیا ہے کہ وہ 29 دسمبر (پیر) کو اپنے مؤکل رجب علی بٹ کے ہمراہ تھانہ حیدری میں دائر مقدمے میں ضمانت کے لیے سٹی کورٹ آئے تھے اور جب تقریباً صبح نو بجے وہ ویسٹ بلڈنگ پہنچے تو اچانک (رجب بٹ کے خلاف دائر کردہ) مقدمے کے مدعی ایڈووکیٹ ریاض علی سولنگی نے اپنے دیگر 20 وکلا ساتھیوں کے ہمراہ حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں رجب بٹ کو شدید چوٹیں آئیں۔

ایف آئی آر میں بیرسٹر اشفاق احمد نے دعویٰ کیا کہ حملہ آوروں نے انھیں اور اُن کے دیگر وکلا ساتھیوں کو بھی ہراساں کیا اور اس دوران اُن کے مؤکل رجب بٹ کے ہاتھ میں موجود بیگ بھی زبردستی چھین لیا گیا جس میں تین لاکھ روپے موجود تھے۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ بعدازاں ریاض علی سولنگی ایڈووکیٹ نے وہ بیگ واپس کیا مگر اس میں رقم موجود نہیں تھی۔

ایف آئی آر میں مزید الزام عائد کیا گیا ہے کہ حملہ آور وکلا نے رجب بٹ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دیں۔

یاد رہے کہ رجب بٹ پر احاطہ کچہری میں تشدد کی ویڈیوز گذشتہ روز سے پاکستان کے سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔

ان ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چند وکلا نے رجب بٹ کو گریبان سے پکڑ رکھا ہے اور وکیل کے لباس میں ملبوس ایک شخص کہہ رہا ہے کہ اِس (رجب) نے ایک ویڈیو میں کہا تھا کہ یہ (وکلا) برساتی مینڈکوں کی طرح نکل آتے ہیں اور یہ کہ اِن کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ویڈیو میں موجود شخص مزید کہتا ہے کہ وکلا نے آج انھیں کراچی کی مہمان نواز دکھائی ہے۔

اسی موقع پر بنائی گئی مزید ویڈیوز پر وکلا میں لباس میں ملبوس اشخاص رجب بٹ پر مکوں اور تھپڑوں کی بارش کرتے ہیں اور اسی دھینگا مشتی کے دوران اُن کا گریبان چاک ہو جاتا ہے۔

پیر کی صبح یہ ویڈیوز سامنے آنے کے بعد سندھ حکومت نے بھی اس معاملے کا نوٹس لیا تھا۔

صوبائی وزیر داخلہ ضیاالحسن لنجار نے کہا تھا کہ انھوں نے رجب بٹ پر تشدد کا معاملہ سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے ساتھ اٹھایا ہے۔

وزیر داخلہ کا مزید کہنا تھا کہ تشدد پر مبنی رویہ معاشرے کے لیے اچھا نہیں ہے اور یہ کہ وکلا کا کام تحفظ دینا ہے نا کہ معاشرے کو عدم تحفظ میں مبتلا کرنا۔

پیر کو یہ واقعہ اُس وقت پیش آیا تھا جب کراچی میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز عدالت میں یوٹیوبر رجب بٹ کے خلاف اسلامی شعائر کی مبینہ توہین کے مقدمے کی سماعت ہونی تھی۔

تاہم یہ واقعہ پیش آنے کے بعد عدالت نے رجب بٹ کی درخواست ضمانت پر کارروائی بغیر کسی پیش رفت کے ملتوی کرتے ہوئے اُن کی عبوری ضمانت میں توسیع کر دی تھی اور اس درخواست پر مزید کارروائی 13 جنوری تک مؤخر کر دی تھی۔

رجب بٹ کے خلاف حیدری تھانے میں توہین مذہب کا مقدمہ درج ہے اور وہ اس مقدمے میں عبوری ضمانت پر ہیں۔

یاد رہے کہ رواں سال مارچ میں رجب بٹ کے خلاف لاہور میں بھی پیکا ایکٹ اور مذہبی جذبات مجروح کرنے کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

لاہور کے تھانہ نشتر کالونی میں درج مقدمے میں رجب بٹ کی چند ویڈیوز کا حوالہ دیتے ہوئے الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے اپنے بیانات سے دفعہ 295 اے اور 295 سی کی خلاف ورزی کی ہے۔

توہین مذہب کے حوالے سے رجب بٹ کے خلاف درج مقدمات کے پس منظر میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے رجب بٹ کے وکیل عرفان نقوی نے کہا تھا کہ کچھ لوگ اس معاملے کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

رجب بٹ پاکستان کے ایک مشہور یوٹیوبر ہیں جو اپنی روزمرہ زندگی پر وی لاگز کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کے یوٹیوب پر 60 لاکھ سے زیادہ سبسکرائبرز ہیں۔

وہ حال ہی میں پنجاب اور سندھ میں اپنے خلاف دائر توہین مذہب کے مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے برطانیہ سے واپس پاکستان آئے ہیں۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

سوشل میڈیا پر رجب بٹ پر تشدد کی ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد بہت سے صارفین نے وکلا کی جانب سے تشدد کا رویہ اختیار کرنے پر ناراضی کا اظہار کیا اور اس کی مذمت کی۔ یاد رہے کہ پاکستانی عدالتوں میں وکلا کے ہاتھوں پولیس، صحافیوں اور سائلین پر تشدد کی ویڈیوز سامنے آنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔

’ایکس‘ پر صحافی مطیع اللہ جان نے لکھا کہ ’کراچی بار نے حالیہ آئینی بحران میں اصولی موقف اپنا کر جو نام اور عزت کمائی تھی، چند وکلا کے غیر آئینی اور غیر اخلاقی رویے نے اُسے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ احاطہ عدالت میں رجب بٹ پر چند وکلا کی طرف سے کیا گیا تشدد اور اُن کے وکیل کو ہراساں کیا جانا انتہائی قابل مذمت فعل ہے۔ ایسے وکلا کے رویے پر سندھ بار کونسل کو از خود کاروائی یا کم از کم ایک وضاحتی بیان ضرور جاری کرنا چاہیے۔ اس ویڈیو میں واضح ہے کہ ایک وکیل صاحب اپنے ایک سینئیر وکیل کے ساتھ کیا سلوک روا رکھے ہوئے ہیں۔‘

پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے رہنما میاں عباد فاروق نے لکھا کہ ’اِس ملک میں نہ تو کوئی قانون باقی رہا ہے اور نہ کوئی آئین باقی رہا ہے۔ کالے کوٹ (یعنی وکلا) کی عزت ہم سب پر فرض ہے، لیکن کالا کوٹ کسی بھی شہری کو اس طرح ہراساں کرنے اور تشدد کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ آپ ایک نہتے شخص کو درجنوں کے جتھوں سے پٹوائیں، عدالتیں عوام کو تحفظ دینے کے لیے بنی ہیں نہ کہ وہاں پر تشدد کیا جائے۔‘

انھوں نے حکام سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے کا نوٹس لیں۔

سابق رُکن پارلیمان جمشید دستی نے ’ایکس‘ پر لکھا کہ ’رجب بٹ کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے۔ ایک بڑا یوٹیوبر بننے تک کا اُن کا سفر قابلِ فخر ہے، مگر بدقسمتی سے کچھ لوگ اور وکلا اس کی کامیابی برداشت نہیں کر سکے۔‘

صارف کامران نے تشدد کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ وکیل ہیں یا بدمعاش ہیں۔ نہ یہ کسی قانون کو مانتے ہیں نہ کسی فورس کو مانتے ہیں اور نہ کسی جج کو، اِن کی اپنی ہی دنیا ہے۔۔۔‘

رجب بٹ کے وکیل میاں اشفاق نے لکھا کہ ’وکلا کا یہ غیر پیشہ ورانہ رویہ اور قانون کو ہاتھ میں لینا ملک بھر میں وکلا کی شناخت و ساکھ کو انتہائی کمزور کر رہا ہے۔‘

انھوں نے مزید لکھا کہ ’آئے روز وکلا خود فریقین بن کر اس طرح اگر پرائیوٹ سائلین پر عدالتوں کے احاطوں میں مسلسل حملہ آور ہوں گے تو ان کی عزت میں بے پناہ مسلسل کمی مزید ہو گی۔ یہ ایک افسوناک پہلو ہے، جس کی کسی پڑھے لکھے معاشرے میں کوئی گنجائش نہیں۔‘

رجب بٹ اور ندیم مبارک کی 10 روزہ راہداری ضمانت منظور: ’ڈی پورٹ نہیں کیا گیا، مقدمات کے فیصلے تک پاکستان میں رہوں گا‘یوٹیوبر رجب بٹ کے خلاف مقدمہ، 295 نامی پرفیوم اور سدھو موسے والا کا بھی ذکر’کبھی سو تو کبھی دو سو ڈالر آئے‘: پاکستان میں صحت سے متعلق یوٹیوب چینل 2024 میں اتنا مقبول کیوں رہا؟رجب بٹ اور شادی پر شیر کے بچے کا تحفہ: 50 ہزار جرمانہ اور ’ہر ماہ شکار کے خلاف ویڈیو بنانی ہو گی‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More