نان: بادشاہوں اور اشرافیہ کا ’مہنگا پکوان‘ عام آدمی کے دسترخوان تک کیسے پہنچا

بی بی سی اردو  |  Dec 31, 2025

جنوبی ایشیا میں مقبول نرم نان جسے مکھن میں تیار کردہ چکن کے ساتھ بہت شوق سے کھایا جاتا ہے اس خطے کی سب سے مشہور سوغاتوں میں سے ایک ہے۔

چکن ہی نہیں بلکہ نان کو اور بہت سی اشیا کے ساتھ بھی کھایا جاتا ہے اور یہ خطے میں دسترخوان کا ایک لازمی جزو ہے جس کی بہت سی مختلف اقسام بھی ہیں اور ذائقے بھی۔ حقیقت یہ ہے کہ جس چیز کے ساتھ نان رکھ دیا جائے، اس کی لذت دوبالا ہو جاتی ہے۔

اور شاید اسی لیے یہ دنیا بھر میں مشہور ہو چکا ہے۔ حال ہی میں پنیری گارلک نان ’ٹیسٹ ایٹلس‘ کی سب سے بہترین بریڈز میں سے ایک شمار کیا گیا۔ اسے تازہ مکھن کو گرم نان کے اوپر لگا کر تیار کیا جاتا ہے اور پھر اس پر لہسن کے ٹکڑے چھڑکے جاتے ہیں۔ اس فہرست میں آلو نان بھی شامل ہے۔

لیکن شاید یہ بات بہت سے لوگوں کے لیے نئی ہو کہ ہر خاص و عام کی پسند نان جو اب ریسٹورنٹس سے لے کر عام تندور پر بھی دستیاب ہوتا ہے ایک زمانے میں صرف مسلمان بادشاہوں کے دسترخوان کی ہی زینت ہوا کرتا تھا۔ تو پھر شاہی باورچی خانے سے نان ہمارے دسترخوان تک کیسے پہنچا؟

نان کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟ یہ تاریخ کچھ دھندلی اور غیر واضح ہے لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ روٹی کا ابتدا قدیم فارس سے ہوئی کیوں کہ یہ نام فارسی زبان سے نکلا ہے۔ زمانہ قدیم میں فارسی باشندے پانی اور آٹے کی مدد سے روٹی بناتے تھے جسے تپتے ہوئے پتھروں پر پکایا جاتا تھا۔

13ویں اور 16ویں صدی میں ہندوستان کی فتوحات کے ساتھ یہ روٹی برصغیر پہنچی کیوں کہ مسلمان فاتحین اپنے ساتھ پکوانوں کی روایت بھی ساتھ لائے جبکہ مغربی اور وسطی ایشیا سے تعلق رکھنے والے لوگ تندور ساتھ لائے۔

علاالدین خلجی اور محمد بن تغلق کے دور حکومت کی دستاویزی روایت سنانے والے امیر خسرو نے اپنی تصانیف میں دو مختلف قسم کے نان کا تذکرہ کیا ہے جن میں نان تنوک اور نان تنوری شامل ہیں۔

سلطنت دلی کے دور میں نان زیادہ تر کباب اور قیمے کے ساتھ کھائے جاتے تھے۔ شاہی باورچیوں نے نت نئے طریقے متعارف کروائے اور نان کی تیاری میں خمیر استعمال کرنا شروع کیا جو اس زمانے میں ایک بلکل نئی چیز تھی۔

یعنی نان نہ تو سستا تھا، نہ ہی اس کی تیاری کے لیے درکار اجزا آسانی سے دستیاب تھے اور طریقہ بھی عام نہ تھا۔

یوں نان ایک ایسی آسائش بن گئی جو صرف اشرافیہ کو ہی حاصل تھی۔مغل دور میں یہی رواج رہا جو تین صدیوں تک چلا۔

بٹر چکن کس نے ایجاد کیا؟ دہلی کے دو خاندانوں میں قانونی جنگ چھڑ گئیکراچی کا مشہور ’پراٹھا رول‘ جس کا جنم ایک گاہک کی جلد بازی کے نتیجے میں ہوا18 کرسیوں سے شروع ہونے والے راولپنڈی کے معروف ’سیور فوڈز‘ کی کہانی’الریاض‘: پاکستان کے سرحدی گاؤں کی خاص برفی جو انڈین فوجی بھی کھاتے ہیں

نیہا ورمانی جنوبی ایشیا کی تاریخ پر نظر رکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’نان بائی ایک خاص باورچی ہوا کرتا تھا جو روٹی کے ساتھ تجربے کرتے رہے۔ مثال کے طور پر نان ورقی ایک پتلی تہوں والی روٹی تھی جبکہ نان تنگی ایک چھوٹی روٹی تھی جو سالن کا شوربہ جذب کر لیتی تھی۔‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ کئی نان کے نام بھی اس باورچی خانے پر رکھے گئے جہاں انھیں ایجاد کیا گیا۔ نیہا ورمانی کے مطابق بسکٹ جیسی ’باقر خانی‘ کا نام باقر نجم سائنی کے نام کی وجہ سے پڑا جو جہانگیر اور شاہ جہان کے دربار میں اعلیٰ منتظم ہوا کرتے تھے اور ان کے باورچی خانے میں ہی اس کی ایجاد ہوئی۔

پھر سکھوں کے دور سے ہوتا ہوا برصغیر انگریزوں کے ہاتھ میں چلا گیا اور تب اگرچہ نان اشرافیہ کو دستیاب رہا لیکن انگریز مسافروں کے ساتھ مغرب کی جانب بھی سفر کرتا چلا گیا۔ ہندوستان میں اسے گوشت کے ساتھ ساتھ مقامی مسالوں سے تیار کردہ پکوانوں کے ساتھ بھی استعمال کیا جانے لگا۔

نیہا کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ تکنیک سادہ ہوتی چلی گئی اور بنیادی ترکیب عام آدمی تک بھی پہنچی جیسی ہم آج ریسٹورنٹس میں دیکھتے ہیں۔

اب میدے، دہی اور خمیر کو ملا کر گوندھا جاتا ہے اور پھر ہاتھ سے اسے نان کی شکل دے کر تندور میں پکا لیا جاتا ہے۔ اکثر اس پر گھی یا مکھن کی تہہ لگائی جاتی ہے۔ لیکن نان کی کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔

1990 اور 2000 کی دہائی میں انڈیا سمیت بیرون ملک نان پر نئے تجربات ہوئے۔ شیف سویر سران یاد کرتے ہیں کہ کیسے نیو یارک کے ریسٹورنٹ میں انھوں نے نان میں مشروم اور پالک کا تجربہ کیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ غیر ملکی افراد کے لیے نان کو دلچسپ بنانے کا طریقہ تھا۔‘ یہ رجحان جنگل میں آگ کی طرح پھیلا اور اب دنیا بھر میں نان طرح طرح کی شکل میں ملتا ہے اور اس میں مختلف اجزا شامل ہوتے ہیں۔

سویر کا کہنا ہے کہ اب آپ کو ہانگ کانگ میں پنیر والا نان بھی ملے گا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ نان ’دنیا کے لیے انڈیا کا عظیم تحفہ ہے۔‘

لیکن ان کی رائے سے مورخین شاید مکمل طور پر متفق نہیں ہوں گے کیوں کہ نان جنوبی ایشیا سمیت مشرق وسطی کے پکوانوں کا بھی حصہ ہے۔

18 کرسیوں سے شروع ہونے والے راولپنڈی کے معروف ’سیور فوڈز‘ کی کہانی’الریاض‘: پاکستان کے سرحدی گاؤں کی خاص برفی جو انڈین فوجی بھی کھاتے ہیںبٹر چکن کس نے ایجاد کیا؟ دہلی کے دو خاندانوں میں قانونی جنگ چھڑ گئیڈونر کباب کی ’ایجاد‘ پر تنازع: یورپ کا مشہور رول پہلے ترکی میں بنا یا جرمنی میں؟کراچی کا مشہور ’پراٹھا رول‘ جس کا جنم ایک گاہک کی جلد بازی کے نتیجے میں ہوا’کوٹھے کی مٹھائی‘: ترکیہ کا مشہور پکوان جسے ’قدرتی ویاگرا‘ مانا جاتا ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More