افغانستان کے خلاف نسیم شاہ کے چھکے ہوں یا کراچی میں محمد آصف کے چھکے، شائقین کرکٹ میدان میں چھکوں چوکے کی برسات سے خوف لطف اندوز ہوتے ہیں۔
دنیائے کرکٹ میں شاہد آفریدی، جے سوریا، یووراج سنگھ، کرس گیل، اے بی ڈی ویلیئرز اور اب پاکستان کے نوجوان بیٹر محمد رضواناور آصف علی چھکوں جبکہ کپتان بابر اعظم چوکوں کی وجہ سے مشہور ہیں۔
میچ کے آخری اوورز میں چند گیندیں کھیلنے کیلئے آنے والے محمد آصف چند گیندوں پر فلک شگاف چھکے لگا کر شائقین کے دل موہ لیتے ہیں لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ بلند و بالا چھکے لگانے والے یہ بلے بنتے کیسے ہیں۔ اگر نہیں جانتے ہیں ہم آپ کو بتاتے ہیں۔
کرکٹ میں بلے بازوں کی اجارہ داری کے باعث بیٹ کے وزن، موٹائی اور چوڑائی کے حوالے سے بحث چلتی رہتی ہے تاہم قانون کے مطابق بلے کی لمبائی 38 انچ یا 965 ملی میٹر سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس کی چوڑائی 4اعشاریہ 25 انچ یا 108 ملی میٹر تک ہوتی ہے، اس کا اولین درج شدہ استعمال 1624ء میں ہوا تھا۔
کرکٹ کے بلے کی جدید شکل کو جیک ہوبس نے 1930ء میں متعارف کرایا گیا تھا۔ جس کی اس وقت کی بناوٹ کو کسی بھی کرکٹ کھیلنے والے نے کبھی چیلنج نہیں کیا اور موجودہ جدید دور میں بھی کرکٹ بلے اسی ڈیزائن کی طرز پر تیار کیے جاتے ہیں۔
کرکٹ بیٹ کے کئی نمونے تاریخ میں سامنے آچکے ہیں تاہم جدید طور پر ایک شکل میں عمومًا اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ 1979ء سے ایک ایک قانون موجود رہا ہے کہ کرکٹ کے بلے صرف لکڑی سے بننے چاہیے۔
کرکٹ کا بلا یا بیٹ مخصوص قسم کی لکڑی سے بنتا ہے، کرکٹ بیٹ دو حصے میں بنایا جاتا ہے، پہلے درخت کے تنے کو کاٹ کر بلا بنایا جاتا ہے پھر الگ سے دستہ اس میں فٹ کیا جاتا ہے اور اسی دستے سے بلا پکڑ کر کھلاڑی بلند و بانگ چھکے لگاتے ہیں۔