صبح صبح رشتے، شادیاں، گھریلو جھگڑے، مختلف ٹوٹکے اور رقص کے ساتھ ساتھ کسی کی تعریف تو کسی کی برائی یہ ساری چیزیں سن کر ماضی کے ہر بڑے ٹی وی چینلز پر چلنے والے مارننگ شوز کی یاد آتی ہے۔یہ 2005 سے 2013 تک کا دور تھا جب مارننگ شوز کے ذریعے بہت سے اداکاروں کو میزبان بننے کا موقع ملا، ان مارننگ شوز میں جہاں مخلتف موضوعات پر گفتگو ہوتی تھی اور معروف شخصیات بطور مہمان بلائے جاتے تھے، وہیں ان کا بنیادی مقصد صرف ریٹنگ حاصل کرنا تھا چاہے اس کے لیے کسی کو زبردستی رُلانا ہو یا ہنسانہ ہو، کسی پر تنقید کرنی ہو یا کسی کی بے انتہاہ تعریف کرنی ہو۔ ان دنوں حسیب حسن کی ہدایتکاری میں بننے والا ڈرامہ ’جنت سے آگے‘ میڈیا انڈسٹری سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے مسائل کے گرد گھومتا ہے، ڈرامے میں مارننگ شو کی میزبان کو دکھایا گیا ہے کہ کس طرح میڈیا کی وجہ سے اس کی زندگی بدلتی ہے اور ڈرامے کی کہانی سے جو سبق ملتا ہے اسے اگر ایک محاورے میں بیان کریں تو یوں ہوگا کہ ’دور کے ڈھول سہانے۔‘اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے حسیب حسن نے بتایا کہ ڈرامے کے سارے کردار فرضی ہیں، لیکن ایسا نہیں ہے کہ حقیقت سے بلکل منافی ہیں۔ ماضی میں بہت کچھ اچھا ہوا تو بہت ایسا بھی ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔عمیرہ احمد کے تحریر کردہ ڈرامے کی کاسٹ میں کبریٰ خان، گوہر رشید، صبور علی، طلحہ چوہور اور رمشا خان شامل ہیں۔ڈرامے میں مارننگ شو میزبان کے لیے کبریٰ خان کو کاسٹ کرنے کے سوال پر حسیب کا کہنا تھا کہ ایسی کئی اداکارائیں ہیں جنہوں نے ماضی میں اداکاری کے ساتھ ساتھ مارننگ شوز بھی کیے، لیکن ان میں سے کسی کی بھی اداکاری یا فین فالوونگ اتنی نہیں تھی جتنی ہمیں اس ڈرامے کے مرکزی کردار کے لیے ضرورت تھی اور کبریٰ نے یہ کردار بخوبی ادا کیا۔ڈرامے کی کہانی سے متعلق انہوں نے کہا کہ اس ڈرامے میں آپ کو سمجھ آئے گا کہ ضروری نہیں جو چیز جیسی نظر آتی ہو ویسی ہی ہو، وہ دھوکہ بھی ہوسکتی ہے ۔ڈرامے کی کہانیڈرامے کی اب تک 8 قسطیں نشر کی جا چکی ہیں۔ اس کی مرکزی کہانی جنت خان کے گرد گھومتی ہے جو ایک مارننگ شو کی میزبان ہیں۔ جنت کا کردار اداکارہ کبرٰی خان نے ادا کیا ہے۔ جنت کا شو ناظرین میں کافی مقبول ہوتا ہے، جبکہ اس کے مقابلے میں ایک اور شو ہوتا ہے جس کی میزبان عائلہ خان (عائشہ جہانزیب) ہیں، عائلہ کے شو کو وہ ریٹنگ حاصل نہیں ہوتی ہے جیسی جنت کے پروگرام کو ملتی ہے۔ اسی وجہ سے وہ ’جنت جہاں‘ سے نہ صرف حسد کرتی ہے بلکہ نفرت بھی کرتی ہے۔جنت کے لاکھوں مداحوں میں سے ایک تبسم مغل ایسی مداح ہے جو جنت سے جنون کی حد تک عشق کرتی ہے (فوٹو: شوبز ہٹ)جنت کے لاکھوں مداحوں میں سے ایک تبسم مغل ایسی مداح ہے جو جنت سے جنون کی حد تک عشق کرتی ہے، تبسم (رمشا خان) ہر حال میں جنت کا شو دیکھتی ہے اس کے بارے میں سوچتی رہتی ہے اور جنت جیسی زندگی گزارنے کے خواب دیکھتی ہے۔ اس کی ہمیشہ سے یہی خواہش ہوتی ہے کہ کسی طرح جنت سے ملاقات ہو جائے اسی لیے وہ جنت کے شو میں جانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے، لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو پاتی۔ اس کو دل و جان سے چاہنے والا اس کا منگیتر بھی اس کی یہ خواہش پوری کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے، لیکن وہ بھی ناکام ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے تبسم اپنے منگیتر کو بھی دھتکار دیتی ہے۔بی ایس سی کی طالبہ تبسم اپنے والد کی ریٹائرمنٹ کے بعد خود کام کر کے اپنی تین بہنوں اور اکلوتے بھائی کا سہارا بننا چاہتی ہے۔ وہ بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی تھی، لیکن اس کے ذہن پر جنت کی چمک دمک کا سایہ اتنا شدید تھا کہ وہ جنت کے گھر ملازمہ بننے کو بھی تیار ہوجاتی ہے، جس کے بعد نہ صرف اس کی جنت سے ملاقات ہو جاتی ہے بلکہ وہ جنت کا وہ رخ دیکھتی ہے جو ٹی وی پر نظر والی زندگی سے بلکل مختلف ہوتا ہے۔ٹی وی سکرین پر نظر آنے والی جنت دیکھنے والوں کی نظر میں پُر طیعش زندگی گزار رہی ہوتی ہے، لیکن ذاتی زندگی میں وہ بہت اکیلی ہوتی ہے اور یہ بات اس کو اندر ہی اندر کھا رہی ہوتی ہے، لوگ اس کی گھریلو زندگی سے بہت متاثر ہوتے ہیں کہ یہ اپنی زندگی سے کتنی خوش ہے، لیکن اس کا شوہر اس کو پسند نہیں کرتا جس کی وجہ سے ڈپریشن میں مبتلا رہتی ہے، مگر وہ یہ نہیں سمجھ پاتی کہ اس ناپسندیدگی کی ذمہ دار بھی وہ کہیں نہ کہیں خود ہی ہے۔جنت کے گھر پر کام کرتے ہوئے تبسم کے خیالات تبدیل ہو جاتے ہیں اور وہ جنت کی طرح امیر ہونے خواب دیکھتی ہے۔ ایک منظر میں وہ جنت سے کہتی ہے کہ میں آپ کی طرح بننا چاہتی ہوں جس پر جنت کہتی ہے کہ ’مجھ جیسا نہ بننا میرے پاؤں میں وہ کانٹے ہیں جو دوسروں کو پھول لگتے ہیں۔‘ڈرامے کی کہانی پر اعتراضپاکستان میں مارننگ شو کے بانی کا ذکر کریں تو وہ مستنصر حسین تارڑ ہیں جنہوں نے پاکستان ٹیلی ویژن نیٹ ورک پر مارننگ شو کی ابتداء کی، یہ ایک منفرد نوعیت کا شو تھا، لیکن پرائیوٹ چینلز کے آنے کے بعد سب سے پہلے مارننگ شو کا آغاز مقبول ڈراموں میں مختلف کردار ادا کرنے والی اداکارہ نادیہ خان نے کیا۔ ابتدا میں ان کے شو نے نہ صرف مقبولیت کے جھنڈے گاڑھے بلکہ ناظرین کی جانب سے شو کے مواد کو بھی خوب سراہا جاتا تھا۔پھر یوں ہوا کہ دیگر چینلز نے بھی ہوا کے رخ پر چلتے ہوئے مارننگ شو کا آغاز کیا اور یہاں سے ریٹنگ کی جنگ چھڑ گئی اور اسی ریٹنگ کے چکر میں کچھ ایسی چیزیں بھی نشر ہونے لگیں جسے ناصرف عوام نے ناپسند کیا بلکہ ان شوز کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ڈرامہ ’جنت سے آگے‘ کی پہلی دو قسطوں میں ہی ماضی کے مارننگ شوز کی تاریخ دہرائی گئی تو اداکارہ و میزبان نادیہ خان کو بلکل اچھا نہ لگا، ایک پروگرام میں انہوں سے ڈرامے کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اس ڈرامے کی کہانی سے خوش نہیں ہیں۔نادیہ خان نے دعویٰ کیا کہ ’یہ شو مکمل طور پر منفی بیانیہ پر مبنی ہے۔‘ (فوٹو: انسٹاگرام نادیہ خان)نادیہ خان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے بہت اچھا کام کیا ہے اور جب کوئی اسے اتنا منفی انداز میں پیش کرتا ہے تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔‘انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’یہ شو مکمل طور پر منفی بیانیہ پر مبنی ہے، جو ہمیشہ سچ نہیں ہوتا، میں نے جو دو اقساط دیکھیں وہ بہت بورنگ تھیں اور دیکھنا ایسے مشکل ہو رہا تھا کہ جیسے سوئیاں چبھ رہی ہوں۔‘ڈرامے کے ہدایتکار کا ردعمل اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ہدایتکار حسیب حسن نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ معروف شخصیات کے پاس طاقت ہوتی ہے کہ وہ ٹی وی یا سوشل میڈیا کے ذریعے عوام کی ذہن سازی کریں، لیکن وہ اکثر بے احتیاطی برتتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ تنقید کریں ضرور کریں لیکن تخلیقی بات کریں اور اگر آپ سینیئر ہیں اور لوگ آپ کو سنتے ہیں تو اپنے الفاظ کا چناو بہتر انداز میں کریں۔ہدایتکار نے کہا کہ وہ تنقید کرنے والوں کو اہمیت دیتے ہیں، لیکن وہ تنقید بے معنی نہ ہو، ان ماننا ہے کہ کسی بھی پروگرام کو ریٹنگ دلانے کے لیے ڈراموں اور آرٹسٹوں کا نام بدتمیزی سے نہیں لینا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ تنقید کرنا پاکستان کے کلچر کا حصہ بن گیا ہے، چاہے کوئی چیز کتنی ہی اچھی ہو لوگ سوشل میڈیا پر اسے تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔حسیب حسن نے مزید کہا کہ ایک سینیئر اداکارہ نے ایک بار بتایا کہ ماضی میں ہونے والے مارننگ شوز میں لوگوں کو بلایا جاتا تھا، انہیں رلایا جاتا تھا اور ان سے مختلف کردار ادا کروائے جاتے تھے۔ جیسے جیسے ڈرامہ آگے بڑھ رہا ہے اس کے کرداروں کی نفسیات اور جذبات مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں (فوٹو: ایم ایم نیوز)خلاصہڈرامے کی اب تک نشر ہونے والی اقساط کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اگلی چند قسطیں کافی سنجیدہ مگر دلچسپ ہوں گی، کیونکہ جنت کے شوہر نعمان نے اپنی آفس میں کام کرنے والی زارا (صبور علی) کو اپنانے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کے بعد سے جنت اور نعمان میں کشیدگی بڑھتی چلی جائے گی۔ دوسری جانب ایسا لگتا ہے کہ آئندہ آنے والی اقساط میں کہانی کا اہم رخ جنت سے تبدیل ہو کر تبسم کی طرف گھوم جائے گا۔متوقع طور پر تبسم کی لالچ، اونچے خواب اور چوری اسے نیچا دکھائیں گے۔ نہ صرف یہ بلکہ گزرتے ڈرامے کے ساتھ اسے فاروق کی بے پناہ محبت کا بھی احساس ہو جائے گا۔ڈرامے میں کئی ایسے مناظر دکھائے گئے جو واقعی آپ کو ماضی کی یاد دلائیں گے جبکہ رمشا خان کو جس خوبصورتی کے ساتھ ایک مڈل کلاس فیملی کے طور دکھایا گیا وہ قابل تعریف ہے۔جیسے جیسے ڈرامہ آگے بڑھ رہا ہے اس کے کرداروں کی نفسیات اور جذبات مزید گہرے ہوتے جا رہے ہیں، یہ کہا جاسکتا ہے کہ عمیرہ احمد کی شاندار کہانی اور حسیب حسن کی ماہرانہ ہدایت کاری کے ساتھ یہ ڈرامہ اپنے ناظرین پر دیرپا نقوش بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔صرف یہی کافی ہے کہ یہ ڈرامہ حالیہ کچھ عرصے میں نشر ہونے والے ڈراموں سے یقیناً مختلف ہے، کیونکہ جیسے جیسے ڈرامے کی کہانی کھلتی جا رہی ہے اس میں تجسس کا عنصر بڑھتا جارہا ہے۔