ساحل سمندر پر ایک خاموش اور قدرِ سُست دن اور ایسے میں آپ کے ہاتھ میں ہو مشروب کا ایک گلاس۔ دوستوں کے ساتھ چہل قدمی پر جائیں، ایک خوبصورت پہاڑ کی چوٹی پر جہاں سے آپ خوبصورت نظارے کر سکیں۔
ایک نئے شہر کا رخ کریں، ایسا شہر جس کے بارے میں آپ پہلے کُچھ نہ جانتے ہوں اور وہ لذیذ کھانے کھائیں جو آپ نے کبھی نہ کھائے ہوں اور سونے پر سہاگہ یہ کہ آپ کو ان تجربات سے لطف اندوز ہونے کے لیے اپنے پیسے لگانے کی ضرورت نہیں۔
کورونا کی وبا کے دور کے بعد بہت سی باتیں اور چیزیں تبدیل ہو چُکی ہیں مگر ایک سہولت جو آج موجود بھی ہے اور سب سے نمایاں بھی: وہ یہ کہ ’ملازمین کو دنیا کو دیکھنے کے لیے دیا جانے والا وافر بجٹ۔‘
اکثر اس طرح کے منصوبے یا پروگرامز اُن کمپنیوں میں شروع ہوئے جو لوگوں کو سفری سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ ائیر بی این بی نامی کمپنی کے ملازمین کو ہر سال ’ٹریول کریڈٹ‘ کی مد میں دو ہزار ڈالر ملتے ہیں اور ایکسپیڈیا نامی کمپنی اپنے ملازمین کو سالانہ 1,250 سے 1,750 ڈالر کے درمیان سفری اخراجات کی مد میں فراہم کرتی ہے۔
اب مزید اداروں کی جانب سے بھی اسی کی پیروی ہونے لگی ہے۔ ڈیجیٹل کمپنی کیلینڈی اپنے ملازمین کو ہوٹل میں رہائش، پروازوں اور گاڑی کے کرائے کی ادائیگی کے لیے سالانہ ایک ہزار ڈالر بطور وظیفہ پیش کر رہی ہے۔ سافٹ ویئر کمپنی ’بیمبو ایچ آر‘ اپنے ملازمین کو سالانہ دو ہزار ڈالر کا وظیفہ صرف اس لیے پیش کرتی ہے کہ وہ اپنی چھٹیاں بہترین طریقے سے گزار سکیں۔
ویانا یونیورسٹی آف اکنامکس اینڈ بزنس میں انوویشن اینڈ سٹریٹجی کے پروفیسر مائیکل کونیگ اس رجحان کو کام کی دنیا کی موجودہ حالت سے منسوب کرتے ہیں، جو کہ غیر یقینی معیشت کے باوجود بھی دنیا بھر میں ایک ’منڈی‘ بنی ہوئی ہے۔
وہ کمپنیاں جو یہ غیرمعمولی مراعات پیش کرتی ہیں وہ اس ٹیلنٹ کو اپنی طرف متوجہ اور برقرار رکھ سکتی ہیں جس کی وہ تلاش کر رہے ہیں۔ یہ مراعات اکثر ملازمین کی کم ہوتی وفاداری کو بھی بڑھانے کا باعث بنتی ہیں۔
مائیکل کونیگ کہتے ہیں کہ ’ ملازمت دینے والے اس حکمت عملی کو عقلمندی سے استعمال کرتے ہوئے اسے اپنے ملازمین کو خوش کرنے اور انھیں ادارے کے ساتھ وفادار رکھنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’پیغام یہ ہے کہ آجر واقعی سطحی اقدامات سے ہٹ کر اپنے ملازمین کی فلاح و بہبود کا خیال رکھتے ہیں۔ یہ ایسی چیز ہے جس کے فائدے بلاشبہ طویل مدت کے لیے دکھائی دیتے چلے جاتے ہیں۔‘
بھرتی کریں اور برقرار رکھیں
برطانیہ کے الیانزا مانچسٹر بزنس سکول میں نفسیات اور صحت کے پروفیسر کیری کوپر کا کہنا ہے کہ ’اپنے ملازمین کی فلاح و بہبود میں دلچسپی رکھنے والے ادارے اور کمپنیوں کے لیے یہ سمجھنا خاص طور پر اہمیت کا حامل ہے کہ جو بھرتیاں انھوں نے کیں ہیں انھیں وہ برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’برطانیہ میں مثال کے طور پر بریگزٹ (یورپی یونین سے علیحدہ ہونے کے بعد) کے نتیجے میں مشرقی یورپ میں بہت سے لوگوں کا تو نقصان ہوا ہی مگر اس کی ساتھ ساتھ بعض آجروں کو بھی بعض شعبوں میں ہنر مند ملازمین کو بھرتی کرنے میں دشواری کا سامنا اب بھی ہے اور وہ اس طرح کی متعدد مراعات پر غور کر رہے ہیں یا انھیں استعمال کر رہے ہیں۔‘
اور اگرچہ یہ ایک عالمی رجحان ہے، سفری فوائد خاص طور پر امریکہ کے کارکنوں کے لیے پرکشش ہو سکتے ہیں، جہاں بامعاوضہ تعطیلات قانونی تقاضے نہیںاور جہاں 46 فیصد لوگ ایسے ہیں جو بامعاوضہ تعطیلات انگریزی اصطلاح میں ’پیڈ وکیشنز‘ نہیں لیتے۔
کوپر کہتے ہیں کہ ’بہت سی تنظیموں کے پاس چھٹی کا وقت بہت محدود ہوتا ہے، اس لیے وہ اپنی تعطیلات کے وقت کو بڑھا کر عملے کو اپنی طرف متوجہ اور برقرار رکھ سکتے ہیں۔‘
اس کے علاوہ، موجودہ اقتصادی ماحول میں، سفری بجٹ کا یہ اقدام پہلے سے کہیں زیادہ قیمتی ہے۔
کونیگ کہتے ہیں کہ ’دنیا بھر میں مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح سفر کو ایک حقیقی عیش و آرام کی چیز بناتی ہے۔ وہ کمپنیاں جو تعطیلات کے اخراجات پیش کرتی ہیں وہ اس کو سرے سے حل کرنے کی کوشش میں ہیں۔‘
ملازمین کے لیے یہ گرانٹ یا کریڈٹ بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ’کئی ممالک میں، یہ اخراجات بھی ٹیکس سے پاک ہیں اور آجر اور ملازم دونوں کے لیے خالص فائدہ تنخواہ پر انکریمینٹ سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے۔‘
سب کے لیے یکساں اہمیت کا نہ ہونا
ان مراعات کو ملازم اور آجر دونوں کے لیے ایک کامیابی کی حیثیت سے دیکھا جا سکتا ہے لیکن ٹورنٹو میں قائم فلاحی خدمات فراہم کرنے والے تیلس ہیلتھ میں ریسرچ اینڈ ویلنس کی سینئر نائب صدر پاؤلا ایلن کے مطابق یہ فوائد دوسروں کے مقابلے میں کچھ ملازمین کے لیے زیادہ قیمتی ہو سکتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’ملازمین جیسے کام کرنے والے والدین یا دیکھ بھال کرنے والوں کے لیے، سفر وہ چیز نہیں ہوسکتی جس کی انھیں ضرورت ہو۔ اس صورت میں تنظیمیں متبادل پر غور کر سکتی ہیں تاکہ ملازمین کو یہ محسوس نہ ہو کہ وہ بعض کو دوسروں پر ترجیحی فوائد دے رہے ہیں۔‘
جیسے جیسے فضائی سفر کے ماحولیاتی خدشات زیادہ ہوتے جاتے ہیں، کمپنیوں کو یہ بھی سوچنے کی ضرورت ہوگی کہ وہ اپنے ماحولیاتی اثرات پر غور کرتے ہوئے مفت سفری فوائد کی پیشکش کے درمیان کس طرح توازن قائم کرتی ہیں۔
ایلن کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’مالی ترغیبات کو کسی بڑے مسئلے سے بچنے کے لیے واش کلاتھ کے طور پر استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ اگر کام کی جگہ نفسیاتی طور پر صحت مند نہیں تو مالی مدد اس منفی اثر کو نہیں مٹا سکے گی۔‘
ایلن مزید کہتی ہیں کہ ’ہم کسی نہ کسی طریقے سے کمپنیوں کو اس رجحان میں شامل ہوتے ہوئے دیکھتے ہی رہیں گے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’خانہ بدوش‘ یا دور سے بیٹھ کر کام کرنے والے کارکنوں کے عروج کے ساتھ اور بعض کمپنیوں کی لچکدار کام کرنے والی پالیسیوں کے ذریعے ملازمین کو دنیا کے مختلف حصوں سے کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے، ملازمین میں سفر کرنے کی خواہش واضح طور پر ہے۔‘
مستقبل کی جانب نظر دوڑاتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ’آجر مالی بہبود کی حمایت کرنے اور مالی بہبود کو ذہنی تندرستی کے ساتھ تیزی سے جوڑنے پر زیادہ توجہ مرکوز کرنا شروع کر رہے ہیں۔‘
کونیگ اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’تنخواہ کے پیکج اور اس کے پیچھے چھپا پورا خیال اور منصوبہ اب بدلتا دیکھائی دے رہا ہے۔‘