پاکستان میں مقیم افغان شہری: ’گھر سے نکلتا ہوں تو خوف رہتا ہے پولیس گرفتار نہ کر لے‘

بی بی سی اردو  |  Oct 02, 2023

Getty Images

’میں کئی دن سے روزگار کے سلسلے میں سبزی منڈی نہیں جا سکا۔ گھر سے نکلتا ہوں تو یہی خوف ہوتا ہے کہ کہیں پولیس گرفتار نہ کر لے۔ چار سال پہلے باقاعدہ ویزا پر پاکستان آیا تھا مگر پھراس کی معیاد ختم ہو گئی اور پھر دوبارہ ویزا نہیں لگ سکا اور اب میں قانون کی نظر میں غیرقانونی شہری ہوں۔‘

افغانستان کے صوبہ جلال آباد سے تعلق رکھنے والے نسیم (فرضی نام) چار سال پہلے اپنے بیوی بچوں، ایک بھائی، بھابھی، ان کے بچوں اور اپنے والد کے ہمراہ پاکستان آئے تھے۔

نسیم کے مطابق ان کا ویزا ختم ہونے کے بعد کچھ عرصہ معاملات ٹھیک چلے مگر پھر حال ہی میں غیرقانونی طور پر رہنے والے افراد کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

نسیمگذشتہ ہفتے اپنے بھائی کے ہمراہ رکشے میں سبزی منڈی جا رہے تھے جب ایک عارضی پولیس چیک پوسٹ پر انھیں روکا گیا۔

’پولیس نے شناختی دستاویزات طلب کیں۔ میرے بھائی نے اپنی دستاویزات تو نہیں دکھائیں مگراپنی اہلیہ کا پاکستانی کارڈ دکھایا جس پر شوہر کے خانے میں ان کا نام لکھا ہوا تھا۔ پولیس نے کچھ سوالوں کے بعد اسے چھوڑ دیا مگر مجھے کہا گیا کہ تھانے چلنا ہو گا کیونکہ تم غیرقانونی ہو۔‘

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ گذشتہ ایک ہفتے کے دوران اسلام آباد کی حدود سے 400 سے زائد ایسے افغان باشندوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن کے پاس پاکستان میں رہنے کے لیے درکار مکمل دستاویزات نہیں تھیں اور وہ غیرقانونی طور پر ملک میں مقیم تھے۔

پولیس کے مطابق یہ گرفتاریاں شہر میں واقع کچی بستیوں اور مختلف ہوٹلوں سے کی گئی ہیں جہاں مقیم افغان خاندان ویزا کی معیاد ختم ہونے کے باوجود قیام پذیر تھے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ان میں سے کچھ افراد تو وہ ہیں جن کی پاکستان میں قیام کے لیے درکار قانونی دستاویزات نامکمل تھیں اور وہ بہت عرصے سے ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم تھے تاہم بہت سے ایسے افراد بھی ہیں جو افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد ویزا حاصل کر کے پاکستان پہنچے تھے مگر بعدازاں وہ ویزا کی تجدید نہیں کروا سکے تھے۔

Getty Images

اگر پاکستان میں مقیم غیر قانونی طور پر رہنے والے افغان باشندوں کے خلافکارروائیوں کی بات کی جائے تو اسلام آباد کی حد تک یہ کارروائیاں اس مبینہ فیصلے کے سامنے آنے کے بعد کی گئی ہیں کہ حکومت ملک میں غیرقانونی طور پر مقیم لاکھوں افغان شہریوں کو مرحلہ وار واپس بھیجے گی۔

اگرچہ اس ضمن میں اب تک کوئی باضابطہ اور تحریری نوٹیفکیشن تو جاری نہیں ہوا تاہم رپورٹس کے مطابق وزارت داخلہ نے اس سلسلے میں ایک سمری منظور کی ہے۔

وزارت داخلہ کے مطابق وفاقی دارالحکومت سمیت ملک کے دیگر شہروں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اُن افغان باشندوں کے خلاف کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں جو مبینہ طور پر شدت پسند اور جرائم پیشہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں رہنے کے لیے درکار کوئی دستاویزی ثبوت نہیں رکھتے ہیں۔

ان حالات اور پس منظر کے تناظر میں اب واپس آتے ہیں نسیم کے پریشان کن شب و روز کی جانب۔

جب دستاویزات نامکمل ہونے پر پولیس نے انھیں روکا تو خود نسیم اور ان کے بھائی نے پولیس اہلکاروں کی خوب منت سماجت کی، جس پر پولیس اہلکاروں نے انھیں جانے دیا مگر ساتھ تنبیہ کی کہ ’آج کل بہت سختی ہے، گھر سے مت نکلنا۔‘

نسیم بتاتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد وہ ڈر گئے کہ کہیں انھیں جیل میں نہ ڈال دیا جائے یا زبردستی واپس نہ بھیج دیا جائے کیونکہ ان کے بیوی بچے پشاور کی ایک بستی میں مقیم ہیں۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے والد بیمار اور ہسپتال میں داخل ہیں مگر گرفتاری کے خوف کی وجہ سے وہ انھیں دیکھنے ہسپتال بھی نہیں جا پاتے۔

’بہت دنوں سے میں اسی ڈر سے گھر سے نہیں نکلا۔ سبزی منڈی کام کے لیے نہیں گیا۔ صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ مجھ پر اب بے تحاشہ قرض چڑھ چکا ہے۔‘

طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ایک لاکھ 17 ہزار مزید پناہ گزین پاکستان آئے: رپورٹ BBCفائل فوٹو

یورپی یونین کے ادارہ برائے پناہ گزین (ای یو اے اے) کی مئی 2022 میں ریلیز ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت لگ بھگ 30 لاکھ افغان شہری رہائش پذیر ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ان میں سے 14 لاکھ وہ ہیں جو ’پی او آر‘ کارڈ (پروف آف رجسٹریشن) ہولڈر ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہساڑھے آٹھ لاکھ وہ ہیں جن کے پاس افغان سٹیزن کارڈ (اے سی سی) ہے جبکہ سات لاکھ 75 ہزار کے لگ بھگ ایسے ہیں جن کے پاس کوئی دستاویزی ثبوت نہیں ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق اگست 2021 میں افغانستان پر طالبان کے حکومت قائم ہونے کے بعد سے فروری 2022 کے دوران اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کی جانب سے جاری کردہ دستاویزات کی بنیاد پر لگ بھگ ایک لاکھ 17 ہزار نئے پناہ گزین پاکستان میں داخل ہوئے۔

’غیر قانونی طور پر مقیم افراد کو ان کے سفارتخانوں کے تعاون سے واپس بھیجا جائے گا‘Getty Images

وزارت داخلہ کے ایک افسر کے مطابق خفیہ اداروں کی جانب سے وزارت داخلہ کو بھیجی جانے والی ایک رپورٹ میں انکشاف سامنے آیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد چھ لاکھ کے قریب افغان شہری ویزا لے کر اور باضابطہ سرحد عبور کر کے پاکستان میں داخل ہوئے تھے۔

وفاقی دارالحکومت کی پولیس نے جب غیرقانونی طور پر رہنے والے غیر ملکیوں کے خلاف مہم شروع کی تو اس حوالے سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے احکامات کی روشنی میں غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو ان کے سفارتخانوں کے تعاون سے ان کے ملک واپس بھیجا جائے گا۔

اس پریس ریلیز میں عوام سے بھی کہا گیا ہے کہ وہ ایسے غیرملکی افراد کی نشاندہی کریں جو غیرقانونی طور پر ان کے علاقے میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ اس بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غیرقانونی طور پر مقیم غیرملکیوں کو ملازمت، پناہ اور غیرقانونی مدد فراہم کرنا قابل دست اندازی پولیس جرم ہے۔

گذشتہ دنوں جب سٹیٹ اینڈ فرنٹئیر ریجن کے سیکریٹری سے ایک تقریب میں جب اس ضمن میں سوال کیا گیا کہ کیا افغان باشندوں کو ان کے ملک واپس بھیجا جا رہا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے عناصر کو کیسے برداشت کیا جا سکتا ہے جو پاکستان مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہوں، پاکستان کی سلامتی اولین ترجیح ہے مگر اس کے ساتھ اس معاملے سے جڑے انسانی پہلو کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔‘

یاد رہے کہ غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو ان کے ملک واپس بھیجنے سے متعلق اقدامات پہلی مرتبہ نہیں کیے جا رہے ہیں۔ ماضی میں بھی اس نوعیت کی کارروائیاں کی گئیں مگر یہ معاملہ مکمل طور پر کبھی حل نہیں ہو سکا۔

ایسے میں ایک سوال یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ کیا پاکستان میں ہونے والی شدت پسندی کی کارروائیوں اور اس کے بعد پاکستان کی جانب سے افغان سرزمین کے اس میں مبینہ طور پر استعمال ہونے جیسے بیانات در بیانات کا بھی اس معاملے سے کچھ لینا دینا ہے۔

یاد رہے کہ پاکستانی حکام کا دعویٰ ہے کہ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران پاکستان کی سرزمین پر ہونے والے تحریک طالبان پاکستان کے حملوں کے تانے بانے افغانستان سے ملے ہیں۔

اس ضمن میں فوجی حکام اور سویلین رہنماؤں نے متعدد مرتبہ افغان طالبان کو تنبیہ کی ہے کہ وہ افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکیں۔

’30 لاکھ افغان باشندوں کو ملک سے نکالنا اتنا آسان نہیں‘BBCفائل فوٹو

افغان اُمور کے ماہر صحافی اور تجزیہ کار طاہر خان کے سامنے جب یہ سوال رکھا گیا کہ ماضی کی حکومتوں کی طرف سے بھی کہا گیا کہ غیرقانونی طور پر مقیم افغان باشندوں کو ان کے ملک واپس بھیج دیا جائے گا تو کیا اس بار اس پر عمل درآمد ہو گا؟

طاہر خان کا کہنا تھا کہ 30 لاکھ افغان باشندوں کو ملک سے نکالنا اتنا آسان نہیں ہو گا کیونکہ پاکستان اس ضمن میں بین الاقوامی قوانین کا بھی پابند ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’نگراں وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کی طرف سے بھی ایسے بیانات آتے رہے ہیں جن میں یہ کہا جاتا رہا ہے کہ وہ غیرقانونی طور پر ملک میں بسنے والے غیرملکیوں کو کسی طور پر بھی پاکستان میں نہیں رہنے دیں گے۔‘

طاہر خان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کی خبریں سوشل میڈیا پر ان اکاؤنٹس سے چلائی گئیں جن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ انھیں ریاست کی حمایت حاصل ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’افغان کمشنر عباس خان نے ایک حالیہ ملاقات کے دوران کہا تھا کہ جن افغان مہاجرین کو پی او آر کارڈ جاری کیے گئے ہیں، ان کے لیے جلد ہی نئی پالیسی بنائی جائے گی۔‘

افغانستان میں پاکستان کے سابق قونصل جنرلایاز وزیر کا کہنا تھا کہ غیرقانونی طور پر مقیم افغان شہریوں کو ملک بدر کرنے سے متعلق ابھی تک حکومت کی طرف سے کوئی نوٹیفکیشن تو جاری نہیں ہوا لیکن جس طرح پاکستان میں بسنے والے افغان باشندوں کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار کارروائیاں کرر ہے ہیں اس سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب حکومت نے ان کو اپنے ملک واپس بھیجنے کا پلان بنا لیا ہے۔

ایاز وزیر کے مطابق ’طالبان کے افعانستان میں اقتدار میں آنے کے بعد زیادہ تر وہ افغان باشندے پاکستان میں قانونی طور پر داخل ہوئے تھے جو وہاں پر غیرملکی کمپنیوں اور اداروں کے لیے کام کرتےتھے اور ان افراد کو یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ پاکستان پہنچ کر ان کے ویزوں کا مرحلہ شروع کر دیا جائے گا، مگر بیشتر کیسز میں ایسا نہیں ہو گا۔‘

ایاز وزیر کا دعویٰ ہے کہ بہت سے افغان باشندوں نے پاکستان کے مختلف اداروں میں کام کرنے والے حکام کے ساتھ ملی بھگت کرکے پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ تک حاصل کر رکھے ہیں۔

’اتنیبڑی تعداد میں افغان باشندوں کو ان کے ملک واپس بھیجنا آسان نہیں ہو گا بلکہ اس کے لیے ایک تفصیلی اور مکمل پلان کی ضرورت ہو گی۔‘

ایاز وزیر سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا حکومت پاکستان کا یہ اقدام افغان حکومت کو شدت پسندی کے معاملے پر دباؤ میں لانے کا ایک طریقہ ہے توانھوں نے کہا کہ وہ اس سے اتفاق نہیں کرتے۔

ان کا کہنا تھا کہ سنہ 2021 میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے چھ لاکھ کے قریب جو افعانی پاکستان آئے ہیں ان میں سے اکثریت انافراد کی ہے جو طالبان مخالف سمجھے جاتے ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More