رواں سال مقبوضہ مغربی کنارے میں بسنے والے فلسطینیوں کے لیے سب سے پر تشدد سال ثابت ہوا ہے۔
جولائی 2023 میں اسرائیلی فوج کی طرف سے جنین کیمپ کے علاقے میں کی گئی اسرائیلی کارروائی کو گذشتہ کئی دہائیوں کی سب سے بڑی کارروائی قرار دیا جا رہا ہے۔
اسرائیل یہ دعویٰ کرتا ہے کہ جنین کیمپ کے علاقے سے اس کے شہریوں پر حملے ہو رہے تھے جبکہ فلسطینیوں کا مؤقف ہے کہ وہ اپنی زمین کو اسرائیل کی جانب سے کی جانے والے تجاوزات سے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق اسرائیل کی یہ آبادکاریاں غیر قانونی ہیں۔
جنین کیمپ میں ہونے والی بڑی کارروائی کے بعد سیاہ لباس میں ملبوس اور بندوقیں اٹھائے فلسطینی مظاہرین اسرائیلی اقدامات کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔
ان کا غصہ صرف اسرائیل پر نہیں ہے بلکہ فلسطین کی موجودہ انتظامیہ کے خلاف بھی تھا۔
Getty Images
مظاہرین یہ نعرے بھی لگا رہے تھے کہ اسرائیل سے لڑنے سے پہلے فلسطینی انتظامیہ کے خلاف لڑو، کیونکہ یہ بیکار ہے۔
30 سال قبل اوسلو امن معاہدے کے تحت فلسطینی اتھارٹی (پی اے) کا قیام عمل میں آیا تھا۔
مظاہرین فلسطینی اتھارٹی کے رہنما محمود عباس کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔ محمود عباس کو ’ابو مازن‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور وہ فلسطینی عوام میں کافی غیر مقبول ہو چکے ہیں۔
87برس کے محمود عباس کی صحت بدستور خراب ہے اور یہ واضح نہیں ہے کہ ان کی جگہ کون لے گا اور اگر قیادت کی تبدیلی صحیح طریقے سے نہ ہوئی تو علاقے میں افراتفری اور تشدد پھیل سکتا ہے۔
اس تحریر میں ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ فلسطینی قیادت کا مستقبل کیا ہے؟
فلسطینی اتھارٹی کیسے بنی؟
فلسطینی صحافی دالیا ہتوکا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جب محمود عباس اقتدار چھوڑیں گے تو ایسے رہنما کی ضرورت ہو گی جو فلسطین کے مستقبل کے لیے وژن اور منصوبہ بندی رکھتا ہو۔ دالیا کے نزدیک اِس وقت اس پائے کا کوئی لیڈر موجود نہیں ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’مجھے یاد ہے میں نے 2005 کے انتخابات میں پہلی بار ووٹ ڈالا تھا۔ یہ بہت دلچسپ اور اہم دور تھا۔ لوگ خوش تھے کہ انھیں جمہوری عمل میں حصہ لینے کا موقع مل رہا ہے۔‘
لیکن یہ 17 سال پرانی بات ہے، محمود عباس کے اقتدار میں آنے کے بعد فلسطینیوں کو دوبارہ ووٹنگ کا موقع نہیں ملا اور اس دوران محمود عباس نے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔
دالیا ہتوکا نے اس بارے میں کہا کہ ’گذشتہ چند سالوں کے دوران انھوں نے تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔
سنہ 1993 میں پی ایل او (پیلسٹینین لبریشن آرگنائزیشن) نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا، اب وہ پی ایل او کے سربراہ ہیں۔
اس کے علاوہ الفتح تنظیم بھی فلسطینی انتظامیہ کا حصہ ہے۔ محمود عباس الفتح کے سربراہ بھی ہیں۔ جیسا کہ ایک نوجوان نے حال ہی میں مجھ سے کہا کہ وہ ہر چیز کے صدر ہیں۔‘
سنہ 1993 میں اسرائیلی وزیراعظم اسحاق رابن اور پی ایل او کے رہنما یاسر عرفات نے ایک امن معاہدے پر دستخط کیے جس میں ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر اتفاق کیا گیا تھا۔
اس معاہدے کے تحت غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کا پانچ سال کے لیے انتظام کرنے کے لیے فلسطینی انتظامیہ کو تشکیل دیا گیا تھا۔
اس دوران مستقل معاہدے پر بات چیت ہونی تھی پر وہ مذاکرات ناکام ہو گئے لیکن فلسطینی انتظامیہ اب بھی موجود ہے۔
معاہدے کا ایک متنازعہ مسئلہ یہ تھا کہ فلسطینی اتھارٹی سیکیورٹی انتظامات کو برقرار رکھنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ تعاون جاری رکھے گی۔
یہ اس بات کو بھی یقینی بنائے گی کہ مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور اسرائیل پر کوئی حملہ نہ ہو لیکن فلسطینیوں کو لگتا ہے کہ ان کی انتظامیہ اسرائیل کی خواہشات پر عمل پیرا ہے۔
Getty Imagesدالیا ہتوکا بتاتی ہیں کہ ’مجھے یاد ہے میں نے سنہ 2005 کے انتخابات میں پہلی بار ووٹ ڈالا تھا۔ یہ بہت دلچسپ اور اہم دور تھا۔‘
دالیہ ہتوکا کہتی ہیں کہ ’فلسطینی حیران ہیں کہ جب اسرائیلی فوج جنین اور ہیبرون میں کارروائی کرتی ہے، پناہ گزینوں کے کیمپوں پر حملے کرتی ہے تو فلسطینی سکیورٹی فورسز کہاں بیٹھی ہوتی ہیں؟ وہ اپنے مفادات کا تحفظ کیوں نہیں کرتیں؟ لوگوں کا خیال ہے کہ فلسطینی سکیورٹی فورسز صرف اسرائیل کی خواہشات پر عمل پیرا ہیں۔‘
لوگوں میں یہ تاثر بھی بڑھ رہا ہے کہ محمود عباس خطے کے دوسرے آمروں کی طرح بن چکے ہیں اور اقتدار سے چمٹے رہنا چاہتے ہیں۔
ڈالیا ہتوکا نے کہا کہ ’انھوں نے اپنے ممکنہ مخالف کو بے دخل کر دیا ہے۔ وہ مغربی کنارے، غزہ اور الفتح تنظیم کے اندر اپوزیشن کی آوازوں کو بھی دبا رہے ہیں۔
’فلسطینی پارلیمنٹ کو کئی سال قبل تحلیل کر دیا گیا تھا۔ ان کے احکامات کو چیلنج کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ یہ ایک مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ عدلیہ کو بھی نظر انداز کر دیا گیا ہے۔‘
ڈالیا ہتوکا کا خیال ہے کہ نوجوانوں میں مایوسی پھیل رہی ہے کیونکہ انھیں قیادت میں کوئی نیا منصوبہ یا نیا خیال نظر نہیں آتا۔ تنگ آ کر بہت سے نوجوان ہتھیار اٹھا رہے ہیں۔ خاص طور پر مہاجر کیمپوں میں بہت سے چھوٹے ملیشیا گروہ پنپ رہے ہیں۔
فلسطینیوں میں فلسطینی انتظامیہ کی کیا رائے ہے؟
رام اللہشپر میں فلسطینی سینٹر فار پالیسی ریسرچ میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر خلیل شقاقی کہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے کچھ نہیں کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہا ’آج 60 فیصد لوگ سمجھتے ہیں کہ فلسطینی انتظامیہ ایک بوجھ ہے۔ صرف 15 فیصد فلسطینیوں کا خیال ہے کہ صدر کو ہی رہنا چاہیے۔ اس وجہ سے وہ نہیں چاہتے کہ انتخابات ہوں۔‘
’نہ تو الیکشن ہو رہے ہیں اور نہ ہی قیادت کی تبدیلی پر کوئی بات ہو رہی ہے جس کی وجہ سے فلسطینی تحریک میں اقتدار کی کشمکش کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔‘
خلیل شقاقی کا کہنا ہے کہ فلسطینی میڈیا میں اس موضوع پر کھل کر بات نہیں کی جا رہی ہے۔ اس بارے میں بات صرف سوشل میڈیا اور علمی حلقوں میں ہو رہی ہے۔
تشویش کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ الفتح اور شدت پسند تنظیم حماس کے درمیان دراڑ پیدا ہو گئی ہے۔
شدت پسند گروہ حماس نے سنہ 2003 میں پارلیمانی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی، جس کے بعد برطانیہ، امریکہ اور یورپی یونین نے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے کر فلسطینیوں پر پابندیاں عائد کر دی تھیں اور غیر ملکی امداد روک دی تھی۔
غزہ میں شروع ہونے والے پرتشدد واقعات کے بعد محمود عباس نے حکومت کو تحلیل کر دیا۔ تب سے اب تک محمود عباس کی 'الفتح' پارٹی مغربی کنارے کا انتظام چلا رہی ہے اور غزہ کی انتظامیہ حماس کے ہاتھ میں ہے۔
Getty Images
خلیل شقاقی نے بی بی سی کو بتایا ’سب سے پہلے حماس نے خطے میں عدم استحکام پھیلایا۔ مغربی کنارے میں حالیہ تشدد کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ حماس کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ مغربی کنارے میں فلسطینی انتظامیہ کمزور ہو چکی ہے اور وہ موقعے سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔‘
’انھوں نے مغربی کنارے میں مسلح گروپس اور فوجی ڈھانچے بنانا شروع کر دیے ہیں جو ضرورت پڑنے پر اسرائیل پر حملہ کر سکتے ہیں اور اگر فلسطینی اتھارٹی نے انھیں روکنے کی کوشش کی تو اس کے ساتھ بھی وہ نمٹ سکتے ہیں۔ حماس عسکری اور سیاسی محاذ پر اپنی صلاحیتوں کو بڑھا رہی ہے۔ یہ فلسطینی انتظامیہ کے خلاف لوگوں کو پکڑ کر منظم کر رہی ہے۔‘
اقتدار کی تبدیلی کے دوران یہ چیزیں بہت اہم ہو سکتی ہیں۔ فلسطینی قانون کے مطابق اگر محمود عباس عہدہ چھوڑ دیتے ہیں یا عہدے پر رہتے ہوئے وفات کر جاتے ہیں تو پارلیمنٹ کے سپیکر کو عبوری صدر بنایا جائے گا اور انتخابات 60 دن کے اندر کروانا ہوں گے۔ محمود عباس ایسا نہیں چاہیں گے کیونکہ پارلیمنٹ کے سپیکر حزب اختلاف کی جماعت حماس کے رکن ہیں۔
خلیل شقاقی کا کہنا ہے کہ فی الحال کوئی پارلیمنٹ نہیں ہے کیونکہ موجودہ صدر نے سنہ 2018 میں پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا تھا۔ پارلیمنٹ کا سپیکر بھی نہیں ہے۔ اس لیے محمود عباس کی غیر موجودگی میں کیا ہوگا اس کا کوئی پلان نہیں ہے اور نہ ہی الیکشن کرانے کا کوئی پلان ہے۔ اس پر کوئی اتفاق رائے نہیں ہے کہ محمود عباس کی جگہ کس کو لینی چاہیے، جس کی وجہ سے ان کی عدم موجودگی اقتدار میں ایک خلا پیدا کر سکتی ہے جو پرتشدد ہو سکتی ہے۔
خلیل شقاقی کی رائے ہے کہ اگر مسلح گروہوں نے اقتدار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تو حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ موجودہ حالات میں فلسطینیوں کو کون متحد کر سکتا ہے؟
Getty Imagesیاسر عرفات سابق امریکی صدر بل کلنٹن اور اسرائیلی وزیر اعظم اسحاق روبن کے ساتھمحمود عباس کے جانشین کے بارے میں قیاس آرائیاں
فلسطینی اور عرب امور کے تجزیہ کار احمد خالدی کا خیال ہے کہ سوال یہ نہیں ہے کہ محمود عباس کا جانشین کون ہوگا بلکہ یہ ہے کہ وہ محمود عباس کی انتظامیہ سے مختلف کیا کریں گے۔
محمود عباس کے جانشین کے لیے کچھ نام سامنے آ رہے ہیں، ان میں سے ایک حسین الشیخ ہیں جو محمود عباس کے قریبی ہیں۔ وہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں لیکن وہ بھی فلسطینی عوام میں غیر مقبول ہیں۔ محمود عباس کی 'الفتح' پارٹی کے کئی رہنما بھی اعلیٰ عہدے کے دعویدار ہیں۔
احمد خالدی کے مطابق ’محمود عباس کی جگہ لینے والے لیڈر کو عام لوگوں کی حمایت حاصل ہونی چاہیے اور اسے نہ صرف تکنیکی طور پر انتخابات میں کامیابی حاصل کرنی چاہیے بلکہ اسے عام فلسطینیوں کا حقیقی نمائندہ ہونا چاہیے۔ یاسر عرفات کی طرح جو کئی دہائیوں تک فلسطینیوں کے رہنما رہے اور انھیں عام لوگوں کی حمایت حاصل تھی۔‘
دو لیڈر ایسے بھی ہیں جنھیں عوامی حمایت حاصل ہے۔ ان میں سے ایک محمود عباس کے کٹر حریف مروان برغوثی ہیں جو انتفاضہ میں کردار ادا کرنے کی وجہ سے اسرائیلی جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے ہیں اور دوسرے محمد دحلان ہیں، جو ابوظہبی میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا ہیں۔ انھیں الفتح اور حماس دونوں ہی پسند کرتے ہیں ۔ لیکن کوئی ایسا لیڈر نہیں ہے جسے نہ صرف مقامی لوگوں کی بلکہ عالمی طاقتوں کی بھی حمایت حاصل ہو۔
Getty Imagesمحمد دحلان کو الفتح اور حماس دونوں ہی پسند کرتے ہیں
احمد خالدی کا کہنا ہے کہ زیادہ تر دعویدار اوسلو معاہدے کے دور کے ہیں، یعنی ان کی عمر 60 سال کے گرد ہے۔ ’بہت سے نوجوان رہنما جو انتہا پسند نہیں ہیں، مرکزی دھارے کی سیاست میں الگ تھلگ ہیں۔ وہ ایک سماجی کارکن ہیں۔ لیکن انھیں وسیع پیمانے پر عوامی حمایت حاصل نہیں ہے۔‘
غزہ اور مغربی کنارے میں کرائے گئے رائے عامہ سے پتا چلتا ہے کہ حماس، محمود عباس کی تنظیم 'الفتح' سے زیادہ مقبول ہے۔ اگر انتخابات ہوئے تو حماس کا امیدوار جیت جائے گا۔
احمد خالدی کا خیال ہے کہ ’فلسطینی انتظامیہ اور اسرائیل دونوں نہیں چاہتے کہ حماس اقتدار میں آئے۔ ایسا ہونے کا امکان نہیں لگتا، لیکن اگر ایسا ہوا تو اسرائیل پوری طاقت کے ساتھ سامنے آئے گا۔‘
فلسطینی سیاست میں تقسیم ہے لیکن معاشرے کا سیاسی مقصد عوام کو اکٹھا رکھنا ہے۔ جو بھی نیا لیڈر آئے گا اسے اس مقصد کو پورا کرنا ہوگا۔
احمد خالدی کا کہنا ہے کہ یہ ایک طویل عمل ہے اور نئے رہنما کو ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام اور اسرائیلی قبضے کے خاتمے کے لیے کام کرنا ہو گا لیکن ایسا نہیں لگتا کہ دونوں فریقین کے درمیان بات چیت کے ذریعے ان مسائل پر کوئی معاہدہ ہو گا۔
Getty Images حسین الشیخ، محمود عباس کے قریبی ہیں اور وہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیںفلسطینی ریاست کا مستقبل
پیلسٹینین انسٹیٹیوٹ فار پبلک ڈپلومیسی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر انیس عبدالرزاق کا خیال ہے کہ اسرائیل کے بارے میں بات کیے بغیر فلسطینی ریاست کی بات نہیں ہو سکتی۔
’ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جس پر اسرائیل کی حکومت ہے۔ یہ درست ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کی زندگیوں کو کنٹرول کرتا ہے۔
’فلسطینی اتھارٹی کے زیر کنٹرول علاقوں میں بھی درآمدات اور برآمدات جیسی اہم چیزوں پر اسرائیل کا کنٹرول ہے۔ یہاں تک کہ پیدائش اور موت کا اندراج بھی اسرائیل کے ہاتھ میں ہے۔‘
اسرائیل میں بنیامین نیتن یاہو انتہائی دائیں بازو کی مخلوط حکومت کی قیادت کر رہے ہیں جو اسرائیل کے مفادات میں کوئی تبدیلی نہیں چاہتی۔
انیس عبدالرزاق نے کہا کہ اسرائیل اور فلسطینی انتظامیہ کسی بھی قسم کی سیاسی تنظیم کو کامیاب ہونے نہیں دے سکتے۔ اس وجہ سے سائبر سرویلنس کے ذریعے تمام سرگرمیوں پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ گرفتاریاں ہو رہی ہیں اور سیاسی کارکنوں کو مارا جا رہا ہے۔ طلباء کو گرفتار کیا جا رہا ہے۔ انھیں ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے تاکہ کوئی طلبہ تنظیم نہ بنائی جا سکے۔
اگر عالمی برادری مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے سنجیدہ ہوتی تو وہ ان کارروائیوں کو روکنے کے لیے اقدامات کرتی اور اسرائیل کو اس کے لیے جوابدہ ٹھہراتی۔
’وہ استحکام کے نام پر فلسطینی انتظامیہ پر دباؤ بھی نہیں ڈال رہے‘
عرب دنیا کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات بتدریج بہتر ہو رہے ہیں اور وہ اب باقیوں سے الگ نہیں رہا۔ اس سے مسئلہ فلسطین پر بھی اثر پڑے گا۔
عبدالرزاق کہتے ہیں ’امریکہ کی پالیسی واضح ہے کہ وہ دوسرے ملکوں کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی ترغیب دے رہا ہے۔ امریکہ موجودہ صورتحال، جس میں فلسطینیوں کے حقوق اور مسائل کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے، کو ایک طرح سے جائز قرار دے رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات، بحرین اور سعودی عرب جیسے ممالک اسرائیل کے ساتھ ٹیکنالوجی، اسلحہ اور دیگر شعبوں میں تجارت بڑھا رہے ہیں۔ انھیں اپنے لوگوں یا فلسطینیوں کے مفادات اور حقوق کی فکر نہیں ہے۔‘
عبدالرزاق نے کہا کہ فلسطین کی 70 فیصد آبادی کی عمر 30 سال سے کم ہے، یعنی جب سے وہ پیدا ہوئے ہیں انھوں نے صرف محمود عباس کو اقتدار میں دیکھا ہے اور انھیں کبھی ووٹ دینے کا موقع نہیں ملا۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ نئی نسل سے کوئی نہ کوئی قیادت سامنے آئے۔
لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ فلسطینی قیادت کا مستقبل کیا ہے؟
یہ واضح نہیں ہے کہ فلسطینی سیاست میں محمود عباس کا جانشین کون بنے گا لیکن توقع یہ ہے کہ محمود عباس کے قریبی رہنماؤں میں سے کوئی ان کی جگہ لے گا اور تبدیلی لانے کی ذمہ داری اس کی ہوگی۔
ماہرین کا خیال ہے کہ پرامن قیادت کی تبدیلی انتخابات کے ذریعے ہی بہتر طریقے سے ہو گی لیکن انتخابات کا کوئی امکان نہیں ہے۔
قیادت کی تبدیلی پرامن طریقے سے نہ ہوئی تو تشدد اور انتشار بڑھ سکتا ہے۔ حتیٰ کہ فلسطینی انتظامیہ بھی گر سکتی ہے اور فلسطینیوں کا ایک آزاد ریاست کا خواب مزید دھندلا ہو سکتا ہے۔