برطانیہ کا امیگریشن میں کمی لانے کے لیے سخت ویزا شرائط کا اعلان

اردو نیوز  |  Dec 05, 2023

برطانیہ نے قانونی ذرائع سے آنے والے تارکین وطن کی تعداد کم کرنے اور ہنرمند کارکنان کی کم سے کم اجرت بڑھانے کا اعلان کیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق برطانیہ میں تارکین وطن کی بڑھتی ہوئی تعداد وہاں کے سیاسی منظرنامے پر گذشتہ دس سال سے اثرانداز ہو رہی ہے جو 2016 کے یورپی یونین سے علیحدگی کے ووٹ کا ایک اہم عنصر تھا۔

برطانوی وزیراعظم رشی سوناک اس معاملے سے نمٹنے کے لیے اپنے عزم کا اظہار کر چکے ہیں تاہم کاروباری اداروں اور ٹریڈ یونینز نے اس اقدام کو نقصان دہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے نجی شعبے اور سرکاری ہیلتھ سروس کے لیے چیلنجز میں اضافہ ہوگا جو پہلے ہی افرادی قوت کی کمی کا شکار ہیں۔

گذشتہ ماہ کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ سال 2022 میں برطانیہ میں تارکین وطن کی سالانہ تعداد ریکارڈ سات لاکھ 45 ہزار تک پہنچ گئی تھی اور تب سے یہ تعداد برقرار ہے۔ 

برطانیہ آنے والے زیادہ تر تارکین کا تعلق انڈیا، نائجیریا اور چین سے ہے۔

وزیر داخلہ جیمز کلیورلی کا کہنا ہے کہ نئے اقدامات کے نتیجے میں تارکین کی تعداد کم ہو کر تین لاکھ ہو سکتی ہے۔

وزیراعظم رشی سوناک نے کہا کہ ’امیگریشن بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ اس کو کم کرنے کے لیے ہم خاطر خواہ اقدامات کر رہے ہیں۔‘

دوسری جانب وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ حکومت ہنرمند افراد کے لیے کم سے کم اجرت 26 ہزار 200 پونڈ سے بڑھا کر 38 ہزار 700 کر رہی ہے تاہم صحت کے شعبے سے منسلک اور سماجی کارکن اس آسائش سے مستثنیٰ ہوں گے۔

حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے دیگر اقدامات میں غیرملکی ہیلتھ ورکرز کو اپنے اہل خانہ کو برطانیہ ساتھ لانے سے روکنا ہے۔

اس کے علاوہ تارکین وطن کی جانب سے ہیلتھ سروسز کو استعمال کرنے پر کی جانے والی ادائیگی کو 66 فیصد بڑھایا جائے گا جبکہ فیملی ویزا لگوانے کے لیے کم سے کم آمدنی کی حد کو بھی بڑھایا جا رہا ہے۔

برطانوی حکومت کے ان اقدامات سے کاروباری مالکان کے ساتھ نئے تنازعات پیدا ہونے کا امکان ہے جو پہلے ہی افرادی قوت کو بھرتی کرنے کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More