’یوکرین کے مقابلے میں غزہ میں زیادہ ملبہ ہے‘: خان یونس سے ان بموں کو ہٹانے کی دوڑ جو ابھی پھٹے ہی نہیں

بی بی سی اردو  |  Apr 20, 2024

Getty Imagesجنگ کے دوران شہری خان یونس سے نکل گئے تھے

اپریل کے اوائل میں اسرائیلی فوج کی جانب سے اپنے زیادہ تر فوجیوں کے انخلا کے بعد سے جنوبی غزہ کے شہر خان یونس کے کھنڈرات پر بمباری کی تصاویر دنیا بھر میں نشر اور شیئر کی گئی ہیں۔

بے گھر ہونے والے فلسطینی اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں اور جو کچھ ممکن ہے اسے بچانے کی کوشش کر رہے ہیں، انھیں ایک اور خطرہ درپیش ہے۔۔۔ وہ گولہ بارود جو ابھی پھٹا نہیں ہے۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ انسانی امور (یو این او سی ایچ اے) نے خان یونس کا جائزہ لیا۔

ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ خان یونس کی سڑکیں اور عوامی مقامات ایسے گولہ باورد سے بھرے ہوئے ہیں جو ابھی پھٹے نہیں ہیں اور ان سے شہریوں کو شدید خطرات لاحق ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ٹیم کو 450 کلوگرام وزنی بم مرکزی چوراہوں اور سکولوں کے اندر پڑے ہوئے ملے۔ فوجی ماہرین کا اندازہ ہے کہ اسرائیل کی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) نے تنازعے کے آغاز سے اب تک دسیوں ہزار بم گرائے ہیں۔

UNOCHA/Themba Linden

غزہ میں اقوام متحدہ کی ایک خصوصی ٹیم موجود ہے جو ریاست فلسطین میں اقوام متحدہ کی مائن ایکشن سروس کے نام سے جانا جاتا ہے۔

چارلس برچ اقوام متحدہ کے اس ادارے کے سربراہ ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’یوکرین کے مقابلے میں غزہ میں زیادہ ملبہ ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ بڑے پیمانے پر طیاروں کی جانب سے پھینکے گئے بموں سے لے کر دیسی ساختہ راکٹوں تک ہر چیز ہر قسم کا دھماکہ خیز ہتھیار موجود ہے۔

برچ نے کہا کہ ان کا اندازہ ہے کہ 10 فیصد گولہ بارود پھٹتا نہیں ہے۔

انھوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل فضائی حملوں کا استعمال زیر زمین ڈھانچوں یا سرنگوں کو نشانہ بنانے کے لیے کرتا ہے۔

اسرائیل پر حماس کے حملے سے قبل یو این ایم اے ایس نے غزہ کی پٹی سے ’21 دفن شدہ بموں‘ کو ہٹانے کا کام تقریباً مکمل کر لیا تھا، جو عسکریت پسند گروپ اور اسرائیل کے درمیان گذشتہ تنازعات کی باقیات ہیں۔

ہر بم کو ہٹانے میں ایک مہینہ لگا لیکن پھر سب کچھ بدل گیا۔

برچ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے وقت شمالی غزہ میں تھے۔ عسکریت پسندوں نے کم از کم 1200 اسرائیلیوں کو ہلاک کیا اور 250 سے زائد افراد کو یرغمال بنا کر غزہ واپس لے گئے۔

اسرائیل کی جوابی کارروائی تیز تھی۔ وزیر دفاع یواو گالنٹ نے کہا کہ جنگ کے پہلے 26 دنوں کے دوران آئی ڈی ایف نے غزہ شہر پر 10 ہزار بم اور میزائل گرائے۔

برچ نے کہا کہ ’یہ ایک بہت ہی سنگین صورتحال تھی۔ مارچ کے اواخر میں انسانی حقوق کے گروہوں اور صدر جو بائیڈن کی جماعت کے مطالبوں کے باوجود واشنگٹن پوسٹ اور خبر رساں ادارے روئٹرز نے خبر دی تھی کہ امریکہ نے 1800 ایم کے 84کے 900 کلو گرام سے زائد بم اور 500 ایم کے-82 کے تقریباً 500 پاؤنڈ بم اسرائیل کو منتقل کرنے کی منظوری دی ہے۔

ان بڑے بموں کو پہلے بھی غزہ میں فضائی حملوں سے جوڑا جاتا رہا ہے جن میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوتی رہی ہیں۔

حماس کے زیرِ انتظام وزارت صحت کے مطابق غزہ میں اب تک کم از کم 33 ہزار 970 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

بمباری کی شدت

اسرائیلی فضائیہ یا آئی ڈی ایف نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ وہ حملوں میں کون سے ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔

تاہم یہ نتیجہ اخذ کرنا غلط نہیں کہ ہوائی جہازوں پر ہتھیاروں کی جو تصاویر وہ سوشل میڈیا پوسٹس میں شیئر کرتے ہیں وہ وہی ہتھیار ہیں جو وہ اس جنگ میں حملوں میں استعمال کر رہے ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل سے تعلق رکھنے والے ہتھیاروں کے ماہر برائن کاسٹنر کا کہنا ہے کہ تباہی کے پیمانے کے مطابق اسرائیل نے غزہ میں 900 کلو گرام وزنی ایم کے-84 بم گرائے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ایم کے 84 بموں کا وزن تقریباً 900 کلوگرام ہے، جس میں سے نصف دھماکہ خیز مواد ہے اور باقی آدھا سٹیل ہے، اور وہ سینکڑوں میٹر دور شہریوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ لہٰذا انھیں کسی دوسری جگہ لے جایا جائے اور انھیں بحفاظت ٹھکانے لگایا جائے۔‘

غزہ جغرافیائی لحاظ سے چھوٹا ہے اس لیے یہ بہت مشکل ہو سکتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ پرہجوم علاقوں میں بغیر پھٹنے والے بموں کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگائے بغیر ملبے تلے چھوڑنا ایک بڑا خطرہ ہے۔

بی بی سی عربی ٹرینڈنگ نے آئی ڈی ایف سے پوچھا کہ ’انھوں نے غزہ کے کن علاقوں کو بغیر پھٹنے والے بموں سے پاک کیا ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ’معذرت لیکن ہم تفصیلات میں نہیں جائیں گے۔‘

Getty Imagesاسعائیلی بمباری کے دوران روزانہ جنازے ہو رہے ہیں

کاسٹنر نے کہا کہ حماس کی جانب سے داغے جانے والے راکٹوں کی ناکامی کی شرح زیادہ ہو سکتی ہے اور اگر وہ ملبے میں بغیر پھٹے رہ گئے تو یہ خطرہ بھی پیدا کر سکتے ہیں۔

انھوں نے حماس کی اسرائیلی بموں کو ری سائیکل کرنے کی صلاحیت پر بھی روشنی ڈالی۔ برچ نے کہا کہ طیارے کے بم جو پھٹتے نہیں ہیں اور زیر زمین پڑے رہتے ہیں ان کے لیے 10 سے 15 میٹر لمبا ایک شافٹ کھودنا پڑتا ہے۔

اس کے بعد دھماکہ خیز مواد کا ایک ماہر نیچے اترتا ہے، فیوز ہٹاتا ہے اور بم کو ٹھکانے لگا دیا جاتا ہے۔

تاہم برچ نے مزید کہا کہ غزہ میں اب زیادہ تر کام ’سطح پر ہتھیاروں‘ کو ہٹانے کا ہو گا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہمیں غزہ کے شمال میں جنگ کی باقیات کے دھماکہ خیز مواد سے آلودہ ہونے کے پیمانے کا کوئی اندازہ نہیں ہے کیونکہ ہم اس کا اندازہ کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

’یہ ایک بے مثال آپریشن ہے، شاید یورپ میں آخری بڑی روایتی جنگ کے بعد سے ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔‘

Getty Imagesملبے میں کھیلتے بچے جہاں بم ہو سکتے ہیں

برطانیہ کی غیر سرکاری تنظیم ہیومینیٹی اینڈ انکلوژن نے حال ہی میں صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے بم ڈسپوزل کے دو ماہرین کو جنوبی شہر رفح بھیجا تھا۔

ایک اندازے کے مطابق جنگ کے پہلے 89 دنوں کے دوران 45 ہزار بم گرائے گئے۔ تنظیم کے مطابق پھٹنے میں ناکامی کی اوسط شرح 14 فیصد ہے اور اس کا کہنا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ 6300 بم کام کرنے میں ناکام رہے ہوں اور بغیر پھٹے رہے ہوں۔

ایچ آئی کے لیے دھماکہ خیز ہتھیار ڈسپوزل ایکسپرٹ سائمن ایلمونٹ نے کہا ’جیسے جیسے غزہ کے حالات بدل رہے ہیں اور لوگ یہاں وہاں گھوم رہے ہیں۔ ہمیں سب سے بڑا خوف یہ ہے کہ جب وہ اپنے گھروں کو لوٹیں گے جو تباہ ہوگئے ہیں تو وہ اپنے اثاثوں کو دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اپنے گھروں میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے‘۔

’ہمیں یہ اطلاعاترقہ اور موصل جیسے دیگر شورش زدہ علاقوں سےملی ہیں جہاں خطرہ سب سے زیادہ ہے۔‘

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کا کہنا ہے کہ گھروں، ہسپتالوں، سکولوں، پانی اور صفائی ستھرائی کی سہولیات سمیت 80فیصد شہری بنیادی ڈھانچے کو یا تو تباہ کر دیا گیا ہے یا اسے شدید نقصان پہنچا ہے۔

عالمی بینک اور اقوام متحدہ کے ایک اندازے کے مطابق غزہ کی تعمیر نو پر 18.5 ارب ڈالر لاگت آئے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک آپریشن میں 26 ملین ٹن ملبے کو ہٹانے کی ضرورت ہوگی جس میں ایک دہائی نہیں تو کئی سال لگیں گے۔

یو این ایم اے ایس کا کہنا ہے کہ اسے آپریشن کی تیاری کے لیے 45 ملین ڈالر کی ضرورت ہے اور اسے اب تک صرف 5.5 ملین ڈالر موصول ہوئے ہیں۔

اسے امید ہے کہ جنگ ختم ہونے کے بعد مزید فنڈز دستیاب ہوں گے۔ غزہ میں اس وقت یو این ایم اے ایس کے 12 اہلکار موجود ہیں جو نہ پھٹنے والے ہتھیاروں کو صاف کر رہے ہیں تاکہ امدادی قافلے بھوکے لوگوں تک پہنچ سکیں اور فلسطینیوں کو اس طرح کے گولہ بارود کے خطرات سے آگاہ کر سکیں۔

اسرائیل کے ایران پر ’جوابی حملے‘ سے جڑے چند اہم سوالوں کے جواباسرائیل اور ایران میں سے عسکری اعتبار سے زیادہ طاقتور کون ہے؟ایران اور اسرائیل کے درمیان برسوں پرانی ’خونیں دشمنی‘ کی وجہ کیا ہے؟ایرانی حملے کو روکنے والا اسرائیل کا جدید ترین ’ایرو ایریئل ڈیفنس سسٹم‘ کیا ہے اور یہ کیسے کام کرتا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More