انڈیا کا وہ نوجوان جو خشک ڈیم میں مرتے جانوروں کے لیے ’مسیحا‘ بن گیا

بی بی سی اردو  |  Jun 20, 2024

’ہمروزانہ جانوروں کو مرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے، بہت سے لوگوں نے ہمیں پاگل کہا لیکن ہم نے یہ کام جاری رکھا۔‘

یہ کہنا ہے کہ انڈیا کی شمالی ریاست پنجاب سے تعلق رکھنے والے 22 سالہ ملکیت سنگھ کا جو ان نوجوانوں میں شامل ہیں جو حالیہ موسم گرما میں جنگلی حیات کو گرمی کی شدت سے محفوظ رکھنے کے لیے پانی فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔

پنجاب سمیت شمالی انڈیا میں گذشتہ کئی ہفتوں سے شدید گرمی پڑ رہی ہے اور ان علاقوں میں درجہ حرارت 45 سے 47 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا ہے جس سے پانی کے قدرتی ذرائع خشک ہو رہے ہیں۔

چندی گڑھ اور موہالی کے درمیان واقع پڈچھ ڈیم مکمل طور پر خشک ہو چکا ہے، اس کی خشک زمین پر کئی فٹ پڑیں گہری دراڑیں اس کی کہانی بیان کرتی ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ گرمیوں میں پانی کے لیے بھٹکتے ہوئے 600 سے زائد جنگلی جانور اب تک مر چکے ہیں۔ ان جانوروں میں ہرن، سانبر اور گائیں شامل ہیں۔

ڈیم کے کناروں پر پانی کی تلاش میں آنے والے کئی جانور خشک زمین کے باعث پڑنے والے شگاف میں دھنس جاتے ہیں جہاں وہ گرمی کی شدت اور آوارہ کتوں کے حملوں سے ہلاک ہو جاتے ہیں۔

یہ ڈیم آس پاس کے دیہاتوں کے زرعی استعمال کے لیے بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ یہاں کی مقامی آبادی اور جانوروں کے لیے پانی کا واحد ذریعہ بھی تھا۔

دو دہائیوں سے بنے اس ڈیم میں کیچڑ اور گارے کی وجہ سے اس کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بہت کم ہو گئی ہے۔ رواں برس گرمی میں اضافے کے باعث یہ ڈیم اب مکمل طور پر خشک ہو چکا ہے اور یہاں کیچڑ اور گارے میں دھنس کر جانور ہلاک ہو رہے ہیں۔

ملکیت سنگھ کا کہنا ہے کہ ’اس ڈیم میں جگہ جگہ جانور مردہ پائے گئے ہم یہ سب کچھ نہیں دیکھ سکتے تھے، اور علاقے کے مزید جانوروں کو مرنے سے بچانے کے لیے ہم نے اس ڈیم میں اپنی مدد آپ کے تحت پانی ڈالنے کا بندوبست کیا اور ٹینکر کی مدد سے یہاں پانی ڈالنا شروع کر دیا۔‘

BBCایک کے بعد ایک اور یوں قافلہ بنتا گیا

ملکیت سنگھ کا کہنا ہے کہ قریبی گاؤں کے کچھ نوجوان بھی ڈیم کے قریب ورزش کرنے کے لیے آتے تھے۔

’جب انھوں نے ایک اکیلے لڑکے کو اس ڈیم میں پانی ڈالتے دیکھا، تو وہ بھی میری مدد کو آ گئے پھر بس لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور ہم سب کے سب مل کر ٹینکرز کی مدد سے اس میں پانی بھرنے لگے۔‘

ملکیت سنگھ کہتے ہیں کہ ’شروع میں ان کے پاس صرف دو ہی ٹینکرز تھے جن کی مدد سے دن بھر میں وہ 15 سے 20 چکر لگاتے تھے۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ اب یہاں انڈیا میں مکینیکل مشینری بنانے والی ایک بڑی کمپنی جے سی بی کے ساتھ مل کر اس کام میں 15 سے 20 ٹینکر ڈیم میں پانی ڈالنے میں مصروف ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ جے سی بی کی مدد سے جانوروں کے لیے تالاب تیار کیے گئے ہیں، تاکہ جانوروں کو پانی فراہم کیا جا سکے۔

جے سی بی کا کہنا ہے کہ وہ بارشوں کے ہونے اور ڈیم میں پانی بھرنے تک اپنی خدمات فراہم کرتے رہیں گے۔

سوشل میڈیا سے بھی مدد ملی

ملکیت کا کہنا ہے کہ انھوں نے سوشل میڈیا پر ویڈیوز بھی پوسٹ کیں اور لوگوں نے اس کام میں ان کی مالی مدد کی۔

انھوں نے کہا کہ پانی پہنچانے کے عمل کے دوران بعض اوقات ٹینکرز میں ڈیزل ڈلوانے کے لیے مالی امداد کی ضرورت پڑتی تھی جس کے بعد انھوں نے سوشل میڈیا پر اپیل کی۔

ان کا کہنا ہے کہ اس کے بعد کئی تنظیمیں اور آس پاس کے گاؤں کے لوگ پانی ڈالنے کے لیے آنے لگے۔

یہ بھی پڑھیےطوفانی بارش: خشک سالی کے بعد تیز بارش خطرے کا موجب کیوں؟’مجھے دیکھو تو رو دینا‘: یورپ میں نمودار ہونے والے پتھر جو غربت کی علامت ہیںکلائمیٹ چینج: 2021 میں شدید قدرتی آفات سے ہونے والا مالی نقصاننوجوانوں نے حالات بدل دیے

ان نوجوانوں میں شامل انکش کا کہنا ہے کہ جس جگہ ڈیم میں پانی چھوڑا جاتا تھا اُس جگہ تک پہنچنے کے لیے جانوروں کو ڈیم میں موجود دراڑوں سے گُزر کر جانا پڑتا تھا اور وہ اکثر ان میں پھنس جاتے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ کتے سانبر، ہرن جیسے جانوروں کو بھی نقصان پہنچاتے تھے، اس لیے انھوں نے جانوروں کو پانی فراہم کرنے کے لیے ایسی جگہوں پر تالاب بنائے کہ جہاں وہ جانور با آسانی پہنچ سکتے تھے۔

انکش کا کہنا ہے کہ اب اس علاقے کا ماحول ہی بدل گیا ہے۔ تاہم ان کے مطابق پانی لے جانا آسان نہیں تھا، بعض اوقات ان کے ٹریکٹر بھی پھنس جاتے اور ٹریکٹروں کو بھی کافی نقصان پہنچتا تھا۔

انکش کا کہنا ہے کہ اب جب مور اور دوسرے جانور صبح و شام پانی پینے آتے ہیں تو بہت اچھا لگتا ہے۔

پنتھ پور گاؤں کے اویناش بھی کچھ دنوں سے پانی کا ٹینکر لے کر یہاں پہنچ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جب ہمیں ویڈیو کے ذریعے معلوم ہوا تو ہم نے ٹریکٹر بھی اکٹھے کیے اور ان کے ساتھ ہاتھ بٹانا شروع کیا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ کسولی، جینتی اور دیگر گاؤں کے نوجوان بھی مدد کر رہے ہیں۔

انتظامیہ سے کیا شکایت

نوجوانوں کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے اس ڈیم پر توجہ نہیں دی۔ انکش کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے تالاب کی کھدائی میں تعاون فراہم کرنے کا وعدہ تو کیا مگر ابھی تک اس پر عمل نہیں ہوا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم حکومتی نمائندوں سے مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ ڈیم کی 40 سے 50 فٹ تک کھدائی کی جائے تاکہ بارش کا پانی یہاں رک سکے۔‘

اویناش کا کہنا ہے کہ وہ کئی سالوں سے یہاں آ رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ ڈیم کی دیکھ بھال نہیں ہو رہی اور اس پر کسی کی کوئی توجہ نہیں ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم انسان ہیں اور اپنے دکھ درد کا اظہار کرسکتے ہیں لیکن ان جانوروں کا کیا ہوگا، ہمیں ان کا خیال رکھنا ہوگا۔‘

پنجاب حکومت کے محکمہ آبپاشی کے چیف انجینئر (کینلز) نے بی بی سی کو تصدیق کی کہ ڈیم کی حالت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس سے کیچڑ اور گارا نہیں نکالا گیا۔ انھوں نے کہا کہ بارش کے پانی کے ساتھ اس ڈیم میں ریت اور کیچڑ اکٹھا ہو جاتا ہے جسے جلد ہٹا دیا جائے گا۔

پڈچھ ڈیم، جسے جینتی ڈیم بھی کہا جاتا ہے 1990 کی دہائی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ ایک عرصے سے اس کا شمار قدرتی تنوع، خوبصورتی اور نقل مکانی کرنے والے پرندوں کی آمد کی وجہ سے علاقے کے قدرتی مقامات میں ہوتا ہے۔

اس ڈیم کی اونچائی 22 میٹر ہے، یہ تقریباً 284 میٹر لمبا اور 146 میٹر چوڑا ہے۔

اسی بارے میںقرض میں ڈوبی تھر کی نصف سے زیادہ آبادیعالمی تنظیموں کی بندش: صحرائے تھر کا کیا ہو گا؟نازی جنگی جہازوں سے گمشدہ دیہات تک، خشک سالی نے یورپ کو کیا کیا دکھا دیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More