آن لائن کھانا، فضلے کا ڈھیر اور ایک کرسی: وہ شخص جس نے تین سال تک خود کو گھر میں بند رکھا

بی بی سی اردو  |  Jul 02, 2025

Getty Images

انڈین ریاست مہاراشٹر کے مغربی ساحل پر واقع شہر نوی ممبئی سے ایک 55 سالہ ایسے شخص کی کہانی سامنے آئی جس نے ڈپریشن میں آ کر خود کو تین سال تک کے لیے گھر میں بند کر لیا۔

متاثرہ شخص، جن کی شناخت ظاہر نہیں کی جا رہی، بیرونی دنیا سے کسی تعلق یا رابطے کے بغیر صرف آن لائن کھانے کا آرڈر دے کر ہی زندہ رہے۔

بتایا گیا ہے کہ ان کے خاندان کے تین قریبی افراد کی موت سے اس کا ذہنی توازن متاثر ہو گیا تھا۔

بی بی سی اردو کے فیچرز اور تجزیے براہ راست اپنے فون پر ہمارے واٹس ایپ چینل سے حاصل کریں۔ بی بی سی اردو واٹس ایپ چینل فالو کرنے کے لیے کلک کریں

سوشل ورکرز کی انتھک کوششوں کے بعد انھیں بچا تو لیا گیا تاہم ابھی بھی وہ علاج کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔

اس کیس نے ممبئی جیسے بڑے شہر میں تنہائی اور ڈپریشن کے مسئلے کو دوبارہ بحث کا موضوع بنا دیا ہے۔

’گھر گندگی کا ڈھیر اور کرسی کے علاوہ کوئی بھی فرنیچر نہیں‘BBCگندگی میں اٹا گھر

سوشل اینڈ ایوینجیکل ایسوسی ایشن فار لو (سیل نامی سماجی تنظیم) کے کارکن اس فلیٹ میں داخل ہوئے تو اندر کا منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔

یہ گھر گندگی کا ڈھیر تھا جس کی سالوں سے صفائی نہیں کی گئی تھی۔ گھر انسانی فضلے سے بھرا ہوا تھا اور ایک کرسی کے علاوہ کسی بھی فرنیچر سے خالی تھا۔

تنظیم کے رکن کے ایم فلپ نے کہا کہ ’لگتا ہے کہ کسی نے ان کا زیادہ تر فرنیچر لے لیا ہو گا۔ وہ صرف اسی کرسی پر سوتے تھے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ان کی ٹانگ میں شدید انفیکشن ہے اور انھیں مکمل اور فوری طبی امداد کی ضرورت تھی۔ انھیں فی الحال ہمارے آشرم میں رکھا گیا ہے۔‘

ذاتی مصائب کے سماجی اثراتBBC

متاثرہ شخص کے والد ہسپتال میں کام کرتے تھے جبکہ ان کی والدہ انڈین فضائیہ کی ٹیلی کمیونیکیشن برانچ میں کام کرتی تھیں۔

ان دونوں کی موت گزشتہ چھ سال کے دوران ہوئی جبکہ 20 سال پہلے ان کے بڑے بھائی نے بھی خود کشی کر لی تھی۔ ان صدمات نے انھیں ذہنی طور پر تباہ کر دیا۔

ایک مقامی رہائشی اور سوسائٹی کے صدر وجے شیبے کہتے ہیں کہ ’وہ شاذ و نادر ہی دروازہ کھولتے تھے۔ وہ کچرا بھی نہیں اٹھاتے تھے۔‘

انھوں نے اپنے والدین کی فکس ڈیپازٹ کی رقم اپنے اکاؤنٹ میں منتقل کر دی تھی اور انھیں وہ اخراجات کے لیے خرچ کر رہے تھے۔

’میرا کوئی نہیں‘

سماجی تنظیم کے آشرم پہنچنے کے بعد متاثرہ شخص سے جب بی بی سی نے بات کی تو انھوں نے کہا کہ ’میرا کوئی نہیں۔ میرے والدین، میرا بھائی نہیں رہے۔ میری صحت بھی خراب ہے تو مجھے نوکری ملنے کا کوئی امکان نہیں۔‘

ڈاکٹر پریانکا مہاجن ایک ماہر نفسیات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جب کسی کا قریبی عزیز گزر جاتا ہے تو یہ قدرتی بات ہے کہ مایوسی اور ڈپریشن ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اس صدمے سے نکل آتے ہیں لیکن کچھ کے لیے یہ بہت دیرپا اور گہرا ہوتا ہے۔‘

’جب ڈپریشن زیادہ ہوتا ہے تو متاثرہ فرد اپنے آپ کو مکمل طور پر معاشرے سے کٹا ہوا اور تنہا سمجھنے لگتا ہے۔‘

ہارمونی فاؤنڈیشن کے بانی ڈاکٹر ابراہام متھائی کا کہنا ہے کہ ’یہ افسوسناک بات ہے کہ ایک شخص کو اتنے پرہجوم شہر میں تنہا چھوڑ دیا گیا۔ خوش قسمتی سے انھیں مدد مل گئی لیکن ایسے بہت سے لوگوں کی لاشیں بدبو کی وجہ سے بازیاب ہوتی ہیں۔‘

مقامی حکام اور سماجی تنظیموں نے جلد ہی ان سے متعلق معلومات اکھٹا کیں تاہم سماجی کارکنوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے حکومتی اور سماجی سطح پر مزید آگاہی اور مداخلت کی ضرورت ہے۔

بے چینی آپ کی صحت پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے اور اس سے بچنے کا کیا طریقہ ہے؟کیا ڈپریشن کے بارے میں اب تک کیے جانے والے سائنسی دعوے بے بنیاد تھے؟ذہنی صحت اور یاداشت کو بہتر رکھنے کے لیے دہی اور ہلدی سمیت چھ بہترین غذائیں کون سی ہیں؟سفید لباس، ہٹلر کے قول اور پیچیدہ خودکشی کا نوٹ: 17 سالہ لڑکی کی موت کا معمہ جسے سلجھانے کے لیے پولیس کو ماہرین کی مدد لینا پڑیانڈیا کا ’کوچنگ کیپیٹل‘ اور طلبا کی خودکشیاں: ’اپنی موت کا میں خود ذمہ دار ہوں، کسی کو پریشان مت کرنا‘ہجوم میں بھی تنہائی: کیا واقعی اردگرد موجود لوگ آپ کے اکیلے پن کا باعث بنتے ہیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More