بلوچستان کا ’سرپلس بجٹ‘ پیش، ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کا اعلان

اردو نیوز  |  Jun 21, 2024

بلوچستان حکومت نے مالی سال2024-25  کے لیے 930 ارب روپے سے زائد کا سرپلس بجٹ اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کر دیا ہے۔

بجٹ کا 65 فیصد تنخواہوں اور دیگر غیرترقیاتی اخراجات پر خرچ ہو گا۔

صوبائی حکومت نے گریڈ ایک سے گریڈ 16 تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد، اس سے اوپر درجے کے سرکاری افسران کی تنخواہوں میں 22 فیصد جبکہ پنشن میں 15 فیصد اضافےکا اعلان کیا ہے۔

اس کے علاوہ نئے بھرتی ہونے والے سرکاری ملازمین کے لیے پنشن پالیسی تبدیل کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

بلوچستان کے وزیر خزانہ میر شعیب نوشیروانی نے جمعے کو سپیکر عبدالخالق اچکزئی کی زیرصدارت ہونے والے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں صوبے کے آئندہ مالی سال کا بجٹ پیش کیا۔

بجٹ میں صوبے کی آمدن کا تخمینہ 955 ارب روپے جبکہ اخراجات کا تخمینہ 930 ارب روپے لگایا گیا ہے، اس طرح 25 ارب روپے سرپلس ہوں گے۔

وفاق سے محصولات کی مد میں 726 ارب روپے  ملیں گے۔ صوبے کی اپنی آمدن کا تخمینہ  124 ارب روپے لگایا گیا ہے۔

غیرترقیاتی اخراجات کی مد میں 609 ارب مختص کیے گئے ہیں۔ اس رقم میں سے زیادہ تر تنخواہوں پر خرچ ہو گی۔قرضوں کی ادائیگی، اسٹیٹ ٹریڈنگ وغیرہ پر 44 ارب روپے  خرچ کیے جائیں گے۔

وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت فنانس بل پیش کر کے ٹیکسوں پر نظرثانی کرے گی تاکہ محصولات میں اضافہ ہو سکے۔

ان کا کہنا تھا کہ چھ ہزار سے زائد ترقیاتی منصوبوں کے لیے 321 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جن میں سے 73 ارب روپے وفاقی منصوبوں پر خرچ ہوں گے۔ صوبہ 219 ارب روپے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرے گا۔

صوبائی وزیر خزانہ شعیب نوشیروانی نے اپنی بجٹ تقریر میں بتایا کہ سب سے زیادہ تعلیم کے لیے 146 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جو پچھلے سال کے مقابلے میں 52 فیصد زیادہ ہے۔

یونیورسٹیوں کی گرانٹ دگنی کرکے پانچ ارب روپے کر دی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان کے کل بجٹ کا 12 فیصد یعنی 118 ارب روپے سکول تعلیم پر خرچ ہوں گے۔‘

انہوں نے بتایا کہ صحت کے لیے 87 ارب روپے رکھے گئے ہیں جن میں سے 20 ارب  صحت کے شعبے کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے رکھے گئے ہیں۔ صحت کارڈ پروگرام پر ساڑھے پانچ ارب روپے، ہسپتالوں کے لیے نئی مشینری کی خریداری پر دو ارب 80 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ نصیرآباد میں سندھ حکومت کے تعاون سے گمبٹ کے طرز پر جگرکے امراض کے لیے ہسپتال تعمیر کیا جائےگا۔کوئٹہ میں این سی آئی وی ڈی کی طرز پر ہسپتال کو اپ گریڈ کیا جائےگا۔کوئٹہ کے تین بڑے ہسپتالوں کو نیم خودمختار بنایا جائے گا۔

وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے کہا ’بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار 70 فیصد منظور شدہ سکیمیں ترقیاتی بجٹ کا حصہ بنائی گئی ہیں‘ (فوٹو: پی آئی ڈی، بلوچستان)شعیب نوشیروانی کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے تدارک کے لیے 10 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ پی ڈی ایم اے کا بجٹ 315 فیصد بڑھا کر ایک ارب 90 کروڑ سے سات ارب 90 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ امن وامان کے لیے 93 ارب 12 کروڑ  مختص کیے گئے ہیں ۔ امن وامان کے غیرترقیاتی بجٹ کو 53 فیصد بڑھایا گیا ہے۔بلدیات کے لیے 43 ارب روپے رکھے گئے ہیں جن میں سے پانچ ارب 20 کروڑ روپے  ترقیاتی منصوبوں کے لیے ہوں گے۔

مواصلات و تعمیرات کے لیے 68 ارب، زراعت کے لیے 23 ارب 80 کروڑ روپے، ماہی گیری کے لیے 6 ارب 80 کروڑ، امور حیوانات کے لیے آٹھ ارب 91 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔

نئے بھرتی ہونے والے سرکاری ملازمین کے لیے نئی پنشن سکیم متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔

بجٹ میں ایک لاکھ بے روزگار مگر ہنرمند نوجوانوں کو بلاسود قرض دینے، نوجوانوں کو ہنرمند بنانے کے لیے بلوچستان سکلز ڈویلپمنٹ پروگرام کے لیے دو ارب روپے خرچ کرنے اور نئے مالی سال میں تین ہزار نئی سرکاری نوکریاں دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔

کوئٹہ اور تربت میں ایک ارب روپےکی لاگت سے بس سروس شروع کی جائے گی۔ ادبی میلوں سمیت ثقافتی سرگرمیوں کے لیے 25 کروڑ روپے جاری کیے جائیں گے۔

صوبائی حکومت نے بجٹ سے سویلین شہداء کے بچوں، اقلیتوں اور ہر ضلعے میں میٹرک بورڈ میں پوزیشن لینے والے دس دس طلبہ کے لیے دو ارب روپے کی لاگت سے نئی سکالر شپ مہم شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔

وزیرخزانہ نے بتایا کہ ریکوڈک کے منصوبے کی رائلٹی کی پیشگی ادائیگی شروع ہو چکی ہے اور اب تک صوبے ایک ارب 40 کروڑ روپے مل چکے ہیں۔ آئندہ مالی سال بھی دو ارب پچیس کروڑ روپے ملیں گے۔

اپوزیشن کا احتجاج اور واک آؤٹ

اجلاس کے دوران اپوزیشن جماعت بی این پی عوامی کے رکن اسمبلی اسد بلوچ نے احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بجٹ متعلقہ صوبائی محکمے کی بجائے وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں بنایا گیا جس کا کام بجٹ بنانا نہیں، ترقیاتی بجٹ بھی فارم 47 کی طرح ہے، اس میں اپوزیشن کو دیوار سے لگایا گیا ہے جبکہ من پسند افراد کو نوازا گیا ہے۔‘

’صوبائی حکومت  ترقیاتی بجٹ کے 90 ارب روپے خرچ ہی نہیں کر سکی جس کی وجہ سے وہ لیپس ہو گئے۔اس بجٹ کو ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیلنج کریں گے۔‘

بجٹ پیش ہونے کے بعد صوبائی اسمبلی کے احاطے میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز احمد بگٹی کا کہنا تھا کہ ’یہ مخلوط صوبائی حکومت کا پہلا بجٹ ہے جس پر ہم نے بڑی محنت کی ہے۔ تعلیم کو پہلی ،صحت کو دوسری اور موسمیاتی تبدیلیوں کوتیسری ترجیح دی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس، سی ٹی ڈی اور لیویز دہشت گردی کی جنگ میں فرنٹ لائن فورسز ہیں، وفاق کے ساتھ مل کر  ان کے استعداد کار کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ سول فورسز کی تنخواہیں پنجاب کے برابر کی جائیں۔‘

ریکوڈک سمیت بلوچستان کے کسی بھی معاملے پر سمجھوتہ نہیں کریں گے: وزیراعلیٰ

وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ 220 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ میں بلوچستان جو پاکستان کا 43 فیصد ہے کی ضروریات کو پورا نہیں کیا جا سکتا۔ وفاق کے بغیر بلوچستان کی ترقی ناممکن ہے۔

’بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار 70 فیصد منظور شدہ سکیمیں ترقیاتی بجٹ کا حصہ بنائی گئی ہیں۔ اگلے برس سو فیصد پر لے جائیں گے۔ یکم جولائی سے ہی پہلا ٹینڈر ہو گا تاکہ ترقیاتی بجٹ خرچ کرنے کے عمل کو تیز کیا جا سکے۔ بجٹ منظور ہوتے ہی تمام وزراء اور سکریٹری صاحبان بلوچستان کی تحصیلوں میں نظر آئیں گے اور ترقیاتی عمل کی نگرانی کریں گے۔‘

وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ ترقیاتی بجٹ خرچ کرنے کی شرح بہت کم ہے، ہم نے اسے کم از کم 70 سے 80 فیصد تک لے جانے کا ہدف رکھا ہے ۔ جو محکمے رقم خرچ کرنے میں تاخیر سستی کریں گے، ان سے فنڈز لے کر تیز رفتار کام کرنے والے محکموں کو دیے جائیں گے۔

وفاقی حکومت کے منصوبوں کے لیے 73 ارب روپے کو بلوچستان کے بجٹ میں ظاہر کرنے سے متعلق سوال پر وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی  نے واضح جواب نہیں دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم بھی وفاق کا حصہ ہیں۔ریکوڈک سمیت بلوچستان کے کسی بھی معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اپنا ایک روپیہ بھی وفاق کو نہیں دیإ گے۔ گیس ڈویلپمنٹ سرچارج کسی کو نہیں بخش رہے۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے تحت گیس ڈویلپمنٹ سرچارج کی قیمت وصول کر رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بلوچستان کے گیس ذخائر کے حوالے سے معاہدے کی مدت پوری ہو گئی ہے، اسے جولائی میں توسیع دیں گے جس سے 50 ارب روپے ملیں گے۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More