جاپان سے بحری جہاز کی آمد میں تاخیر، پاکستانی شہری گاڑی سے کیسے محروم ہوا؟

اردو نیوز  |  Sep 28, 2024

سکندر خان نے حال ہی میں بیرون ملک سے پاکستان منتقل ہو کر نئی زندگی کا آغاز کیا ہے۔ اپنے نئے سفر میں انہوں نے 2020 ماڈل کی ہائبرڈ ٹیوٹا پریئس گاڑی بھی جاپان سے پاکستان منگوائی۔ ان کا مقصد مہنگے فیول سے بچنا تھا، لیکن ان کی یہ کوشش ایک پیچیدہ قانونی مسئلے میں بدل گئی۔سکندر نے دسمبر 2023 کے آخری ہفتے میں اپنی گاڑی کی بُکنگ کرائی، لیکن جاپان کی ہکاتا بندرگاہ سے بحری جہاز تاخیر سے روانہ ہوا، جس کے باعث ان کی گاڑی مقررہ وقت پر پاکستان نہیں پہنچ سکی۔ 

جب یہ گاڑی پاکستان کی بندرگاہ پر پہنچی تو اسے کسٹمز کی جانب سے روک دیا گیا کیونکہ ملکی قانون کے مطابق تین سال سے زائد پرانے ماڈلز کی گاڑیوں کی درآمد ملک میں ممنوع ہے۔سکندر خان نے کسٹمز حکام کو اس صورت حال سے آگاہ کیا اور واضح کیا کہ انہوں نے تمام قانونی تقاضے پورے کیے ہیں۔ تاہم ان کی درخواست پر کسٹمز نے کوئی توجہ نہ دی اور گاڑی کی کلیئرنس روک دی۔ سکندر نے مختلف فورمز پر مدد کے لیے رابطہ بھی کیا مگر کسی بھی جگہ سے کامیابی نہ ملی۔ تنگ آکر سکندر نے وفاقی ٹیکس محتسب سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس دوران انہوں نے وزارت تجارت کو بھی اپنی گاڑی کی کلیئرنس کے لیے درخواست دی۔ ان کی یہ کوششیں ابھی جاری تھیں کہ اچانک محکمہ کسٹمز کی جانب سے معمول کی نیلامی کی کال دی گئی اور سکندر کی گاڑی بھی نیلام کر دی گئی۔سکندر خان نے اپنے حق کے لیے وفاقی ٹیکس محتسب میں کیس پیش کیا۔ ان کی محنت رنگ لائی اور محتسب نے تمام فریقین کی بات سننے کے بعد محکمہ کسٹمز کی نیلامی کو مسترد کرتے ہوئے احکامات جاری کیے کہ سکندر خان کی گاڑی واپس ان کے حوالے کی جائے۔واضح رہے کہ پاکستان میں تین سال سے پُرانی گاڑی درآمد کرنے کی اجازت نہیں ہے، سکندر خان کی گاڑی چونکہ 2020 ماڈل کی تھی، اور ایک ماہ کی تاخیر کی وجہ سے اس گاڑی کو کراچی کی بندرگاہ پر روک لیا گیا تھا۔

 پاکستان میں تین سال سے پُرانی گاڑی درآمد کرنے کی اجازت نہیں ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان میں گاڑی کیسے درآمد کی جاتی ہے؟آل پاکستان موٹر وہیکل امپورٹرز ایسوسی ایشن کے رہنما محمد کامران نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں گاڑی درآمد کرنے کی کوئی پالیسی اس وقت موجود نہیں ہے، کوئی بھی ٹریڈر، ڈیلر یا شہری گاڑی امپورٹ نہیں کر سکتا۔ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں درآمد ہونے والی گاڑیاں یا تو گفٹ سکیم کے تحت آرہی ہیں یا پھر بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانی ملک واپس آنے پر اپنے ساتھ یہ گاڑیاں لا رہے ہیں۔‘’حکومت پاکستان کی جانب سے یہ سہولت ان اوورسیز پاکستانیوں کو دی گئی ہے جو بیرونِ ملک رہ کر ملک کے لیے زرِمبادلہ کما رہے ہیں، ان کے پاکستان آنے پر انہیں یہ اجازت دی گئی ہے کہ وہ اپنے استعمال کے لیے ایک گاڑی ساتھ لا سکتے ہیں۔‘محمد کامران کے مطابق پاکستان میں چلنے والی جاپانی گاڑیاں ان دو سکیموں کے تحت ہی ملک میں منگوائی جا رہی ہیں، پاکستان آنے والی ان گاڑیوں کو فروخت کرنے والوں سے شو روم مالکان گاڑیاں خریدتے ہیں۔‘

 پاکستان میں گاڑیاں گفٹ سکیم کے تحت آرہی ہیں یا اوورسیز پاکستانیز اپنے استعمال کے لیے لا رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

پاکستان میں گاڑیاں درآمد کرنے کی اجازت دینے کا مطالبہآل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین ایچ ایم شہزاد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت پاکستان کو گاڑیاں درآمد کرنے کی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔‘’پاکستان میں گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں بھی باہر سے تیار سامان لا کر صرف اسمبل ہی کر رہی ہیں، ان گاڑیوں کا معیار جاپانی گاڑیوں کے مقابلے میں کتنا بہتر ہے یہ تو کوئی بھی گاڑی چلانے والا بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پاکستان اب تک اپنی ضرورت کی گاڑیاں تیار کرنے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ ایسی صورت حال میں اگر حکومت درآمد کرنے کی اجازت دے تو شہریوں کو کم قیمت پر اچھی اور معیاری گاڑی میسر آ سکتی ہے۔‘ایچ ایم شہزاد کا مزید کہنا تھا کہ حکومت جہاں ملک میں گاڑیاں اسمبل کرنے والوں کو ٹیکس میں سہولت فراہم کر رہی ہے، وہیں امپورٹڈ گاڑیوں کے حوالے سے پالیسی میں بھی نرمی لانا ہو گی۔انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت قیمتیں اتنی بڑھ چکی ہیں کہ نئی گاڑیاں خریدنے والے بھی استعمال شدہ گاڑیوں کی خریداری میں دلچسپی لے رہے ہیں۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More