کیا سعودی عرب میں نیوم سمیت اربوں ڈالر کے تعمیراتی منصوبوں کو محدود کیا جا رہا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jun 30, 2024

'وہ کہتے رہیں گے اور ہم انھیں غلط ثابت کرتے رہیں گے۔'

یہ بات جولائی سنہ 2023 میں نشر ہونے والی ایک ٹی وی دستاویزی فلم میں سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اس وقت کہی تھی جب ان کے وسیع تعمیراتی منصوبوں کے بارے میں شکوک و شبہات ظاہر کیے گئے تھے۔

بہر حال اس پروگرام کے تقریباً ایک سال بعد سعودی عرب کے تعمیراتی منصوبوں کے بارے میں ظاہر کیے گئے وہ شکوک و شبہات کچھ حد تک درست ثابت ہو رہے ہیں۔

حالیہ مہینوں میں سعودی عرب نے نیوم شہر سے متعلق اپنے وسیع صحرائی ترقیاتی منصوبے کو بظاہر محدود کیا ہے۔ یہ ان کے وژن 2030 کا مرکزی منصوبہ سمجھا جاتا ہے۔

یہ خلیجی ریاست سعودی عرب کے حکمران شہزادہ محمد بن سلمان کے اقتصادی تنوع کا پروگرام ہے جس کا مقصد ملک کی معیشت کا تیل پر انحصار ختم کرنا ہے۔

نیوم کے ساتھ ساتھ سعودی عرب 13 دیگر بڑی تعمیراتی سکیمیں یا 'گیگا پروجیکٹس' بھی چلا رہا ہے اور ان پر آنے والے اخراجات ایک کھرب ڈالر بتائے جاتے ہیں۔

ان میں دارالحکومت ریاض کے مضافات میں ایک تفریحی شہر، بحیرہ احمر پر موجود متعدد جزیروں پر لگژری ریزورٹس اور دیگر سیاحتی اور ثقافتی مقامات کی ترقی شامل ہے۔

لیکن تیل کی کم قیمتوں نے حکومتی محصولات کو متاثر کیا ہے جس سے ریاض کو ان منصوبوں کا از سر نو جائزہ لینے اور فنڈنگ کی نئی حکمت عملیوں کو تلاش کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔

Getty Imagesمحمد بن سلمان ملک کی معیشت کو متنوع بنانے کا منصوبہ رکھتے ہیںجلد ہی کوئی فیصلہ متوقع ہے

حکومت سے وابستہ ایک مشیر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ منصوبوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور جلد ہی کوئی فیصلہ متوقع ہے۔

انھوں نے کہا کہ 'فیصلہ متعدد عوامل پر مبنی ہوگا۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ انھیں دوبارہ ترتیب دیا جائے گا۔ کچھ پروجیکٹس منصوبے کے مطابق آگے بڑھیں گے جبکہ کچھ تاخیر کا شکار ہو سکتے ہیں یا ان کا دائرہ کم ہو سکتا ہے۔'

سنہ 2017 میں 500 ارب ڈالر کی لاگت سے نیوم کے پروجیکٹ کا اعلان کیا گیا تھا جس کے تحت ملک کے شمال مغرب میں واقع صحرائی علاقے میں 10 مستقبل کے شہروں کی تعمیر کا منصوبہ تھا۔

ان میں سب سے زیادہ حوصلہ مندانہ یا بڑا پروجیکٹ 'دی لائن' شہر کی تعمیر تھی اور اس نے ساری دنیا کے اخباروں جگہ بنائی تھی۔ دی لائن ایک قطار میں آباد شہر ہوگا جس میں دو ملحقہ، متوازی فلک بوس عمارتیں ہوں گی جو 500 میٹر بلند ہوں گی اور سلطنت کی سرکاری عمارت سے بھی اونچی ہوں گی۔

یہ عمارتیں ایک دیوار کے طور پر نظر آئیں گی کیونکہ ان کی مشترکہ چوڑائی صرف 200 میٹر ہوگی جس میں ان کے درمیان کا فاصلہ بھی شامل ہے۔

اصل منصوبہ یہ تھا کہ وہ دیوار نما عمارتیں 170 کلومیٹر تک پھیلی ہوئی ہوں گی اور وہ 90 لاکھ لوگوں کا مسکن ہوں گی۔

لیکن اس منصوبے کی تفصیلات سے واقف لوگوں اور پریس میں لیک معلومات کے مطابق پروجیکٹ کے ڈویلپر پہلے ماڈیول کے حصے کے طور پر اب سنہ 2030 تک صرف 2.4 کلومیٹر مکمل کرنے پر توجہ مرکوز کریں گے۔

نئے تعمیراتی پروجیکٹس کی خصوصیات

جب دی لائن کے منصوبے کا پہلی بار اعلان کیا گیا تھا تو اسے ’کاربن اخراج سے پاک قطار والے شہر‘ کے طور پر بیان کیا گیا تھا جو شہری زندگی کی نئی تعریف کرے گا، جس میں رہائشیوں کے لیے پارک، آبشار، اڑن ٹیکسیاں، اور روبوٹ خادمائیں شامل ہیں۔

شہر میں سڑکیں یا کاریں نہیں ہوں گی بلکہ یہ آپس میں منسلک پیدل چلنے والے لوگوں پر مشتمل ہوگا۔ اس میں انتہائی تیز رفتار ٹرین بھی شامل ہے، جس سے شہر میں کہیں بھی زیادہ سے زیادہ 20 منٹ کے اندر پہنچا جا سکتا ہے۔

مستقبل کے شہر کی بیان کردہ خصوصیات میں سے پہلے مرحلے کا حصہ کتنی چيزیں ہوں گی یہ واضح نہیں ہے۔

دی لائن کے ساتھ نیوم کے پروجیکٹ میں ایک اور پہلو تیرتا ہوا صنعتی شہر اور ایک پہاڑی سکِی ریزورٹ بھی شامل ہے جو سنہ 2029 میں ہونے والے ایشیائی سرمائی کھیلوں کی میزبانی کرے گا۔

نیوم: سعودی شہزادے کا 90 لاکھ شہری بسانے کا جدید منصوبہ ’دیوانے کا خواب‘ کیوں؟تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ: سعودی کمپنی آرامکو کو 161 ارب ڈالر کا ریکارڈ منافعنیوم: سعودی شہر کی زمین کے لیے سعودی اہلکاروں کو شہریوں کے’قتل تک کی اجازت‘ دی گئی

نیوم کے ایڈوائزری بورڈ میں شامل سابق بینکر علی شہابی کا کہنا ہے کہ وژن 2030 کے تحت منصوبوں کے لیے طے کیے گئے اہداف کو دانستہ طور پر 'زیادہ حوصلہ مندانہ سطح پر ڈیزائن' کیا گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ 'اس کا مقصد زیادہ حوصلہ مندانہ ہونا تھا کیونکہ یہ بات واضح تھی کہ وقت پر اس کا کچھ حصہ ہی مکمل ہو سکتا ہے۔ لیکن وہ حصہ بھی اہم ہوگا۔'

نیوم پروجیکٹ کو محدود کرنا سعودی حکومت میں مالیاتی چیلنجز کی عکاسی کرتا ہے۔

سعودی حکومت اپنے خودمختار مالیاتی ادارے پبلک انویسٹمنٹ فنڈ (پی آئی ایف) کے ذریعے ہی نیوم کے منصوبوں کے اخراجات اٹھا رہی ہے۔

نیوم کی تعمیر کی سرکاری لاگت یعنی 500 ارب امریکی ڈالر ہی اپنے آپ میں پورے سال کے وفاقی بجٹ سے 50 فیصد زیادہ ہے۔ لیکن تجزیہ کاروں کا اندازہ ہے کہ مکمل منصوبے پر عمل درآمد کے لیے بالآخر دو کھرب ڈالر سے زیادہ کی لاگت آئے گی۔

Getty Imagesحکومتی بجٹ خسارے کا شکار

سعودی عرب کا حکومتی بجٹ سنہ 2022 کے آخر سے خسارے میں ہے اور یہ اس وقت سے ہے جب سے دنیا کے سب سے بڑے تیل برآمد کنندہ نے تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافے کے لیے پیداوار میں کمی کرنا شروع کی ہے۔ حکومت نے رواں سال 21 ارب ڈالر کے خسارے کی پیش گوئی کی ہے۔

پی آئی ایف کو اس کا اثر محسوس ہو رہا ہے۔ یہ تقریباً 900 بلین ڈالر کے اثاثوں کو کنٹرول کرتا ہے، لیکن ستمبر تک اس کے پاس صرف 15 بلین ڈالر کے نقد ذخائر تھے۔

سعودی عرب میں آئی ایم ایف کے سابق سربراہ اور اب عرب خلیجی ریاستوں کے انسٹی ٹیوٹ میں وزٹنگ فیلو ٹم کالن کہتے ہیں کہ سعودی عرب کے لیے نیوم اور دیگر بڑے پیمانے پر منصوبوں کے لیے سرمایہ اکٹھا کرنا مستقبل میں ایک اہم چیلنج ہے۔

مسٹر کالن کا کہنا ہے کہ 'پی آئی ایف کو ان منصوبوں کے لیے درکار سطح تک فنڈز فراہم کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔'

سعودی حکومت فنڈز کے حصول کے لیے دیگر راستوں کے استعمال کی طرف دیکھ رہی ہے۔

اس ماہ کے شروع میں اس نے اپنی قومی تیل کمپنی آرامکو میں تقریباً 11.2 بلین ڈالر کے حصص فروخت کیے ہیں۔ توقع ہے کہ ان میں سے زیادہ تر رقم پی آئی ایف کو جائے گی کیونکہ جب سنہ 2019 میں یہ کمپنی عوام کی حصے داری کے لیے کھول دی گئی تھی تو اسے ہی سب سے زیادہ فائدہ ہوا تھا۔

یہ فروخت تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کے درمیان ہوئی ہے۔ گذشتہ سال جولائی میں، قیمتوں کو بڑھانے کی کوشش میں سعودی عرب کی قیادت میں اوپیک پلس تیل پیدا کرنے والے ممالک کے گروپ نے پیداوار کو کم کر دیا تھا۔

ریاض نے رضاکارانہ طور پر اپنی سپلائی میں 10 لاکھ بیرل یومیہ کی کمی کی ہے۔ تاہم، اس ماہ اوپیک پلس نے اپنے فیصلے میں تبدیلی کی ہے اور وہ اکتوبر سے بتدریج پیداوار میں اضافہ کرنے والے ہیں۔

فنڈز کے لیے مختلف ذرائع کا استعمال

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطابق سعودی عرب کو اپنے بجٹ میں توازن برقرار رکھنے کے لیے ایک بیرل تیل کی قیمت 96.20 ڈالر رکھنے کی ضرورت ہے۔ خام تیل کی معیاری شکل برینٹ کی قیمت تقریباً 80 ڈالر فی بیرل کے آس پاس رہ رہی ہے۔

سعودی عرب نے پی آئی ایف میں فنڈنگ کے بہاؤ کو برقرار رکھنے کے لیے سرکاری بانڈز کی فروخت پر بھی انحصار کیا ہے۔ دوسرا چیلنج یہ ہے کہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری بھی امید سے بہت کم رہی ہے، جو ریاض کی نجی کمپنیوں اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں سے فنڈز حاصل کرنے کی جدوجہد کو دکھاتی ہے۔

مسٹر کالن کا کہنا ہے کہ 'سرمایہ کاروں کو ایسے منصوبوں میں آنے کے لیے قائل کرنا بہت مشکل ہو گا جنھیں وہ حد سے زیادہ حوصلہ مندانہ سمجھتے ہیں۔ اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آپ کی لاگت کی واپسی بالآخر کہاں سے ہوگی۔'

سعودی عرب اقتصادی تنوع کی حکمت عملی کے ایک حصے کے طور پر سیاحت، کان کنی، تفریح اور کھیل جیسے شعبوں میں بھی رقم خرچ کر رہی ہے۔

حالیہ برسوں میں سعودی عرب نے 2027 میں فٹبال کا ایشین کپ، 2029 میں ایشین ونٹر گیمز، اور ورلڈ ایکسپو-2030 جیسے کئی بڑے بین الاقوامی مقابلوں کے لیے میزبانی کے حقوق حاصل کیے ہیں۔

سعودی عرب نے سنہ 2034 کے فیفا ورلڈ کپ کے لیے بولی لگانے والے واحد ملک کے طور پر بھی ابھرا ہے۔ اور ان تمام منصوبوں کے لیے آنے والے سالوں میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔

مسٹر شہابی کو امید ہے کہ جیسے جیسے بین الاقوامی ایونٹس قریب آتے جائيں گے حکومت انھیں ترجیح دے گی۔ انھوں نے کہا کہ 'جن پراجیکٹس کو پورا کرنے کے لیے ہمارے پاس مخصوص ڈیڈ لائن ہے، ان پر ان کی نوعیت کے مطابق ترجیح دی جائے گی۔'

اپریل میں ریاض میں منعقدہ ورلڈ اکنامک فورم کے ایک خصوصی اجلاس میں ملک کے وزیر خزانہ محمد بن عبداللہ الجدعان نے کہا کہ حکومت نے کسی چیز کو 'انا' کا مسئلہ نہیں بنایا ہے اور وہ ضرورت کے مطابق اپنی معیشت کو تبدیل کر کے اپنے وژن 2030 کے منصوبے کو ایڈجسٹ کرے گی۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم راستہ بدلیں گے، ہم کچھ پراجیکٹس کو آگے بڑھا دیں گے، ہم کچھ پراجیکٹس کی سطح کو کم کریں گے، ہم کچھ پراجیکٹس کو تیز کریں گے۔'

محمد بن سلمان کا وژن 2030: مستقبل کے جدید شہر کے بعد دنیا کے سب سے بڑے ایئرپورٹ کی تعمیر کا منصوبہ کیا ہے؟نیوم: سعودی شہزادے کا 90 لاکھ شہری بسانے کا جدید منصوبہ ’دیوانے کا خواب‘ کیوں؟مستقبل کے عمارت نما جدید شہروں میں زندگی کیسی ہو گی؟تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ: سعودی کمپنی آرامکو کو 161 ارب ڈالر کا ریکارڈ منافعسعودی عرب کا تیل کے کنویں پر ہوٹل اور صحرا میں شہر بسانے کا خواب کب پورا ہوگا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More