15 سال کوما میں گزارنے کے بعد وفات پانے والی فاخرہ احمد: ’ایسا لگتا تھا وہ مجھے مسکراتے ہوئے دیکھ رہی ہے‘

بی بی سی اردو  |  Jul 01, 2024

’میں جب صبح کے وقت اس کے پاس پہنچتی تو اکثر مجھے اس کے چہرے اور آنکھوں میں دیکھ کر ایسے لگتا کہ وہ میری راہ دیکھ رہی ہے اور جیسے ہی میں اس کے پاس پہنچتی تو مجھے لگتا کہ وہ خوشی محسوس کر رہی ہے۔‘

جب فاخرہ کوما میں چلی گئیں تو بظاہر لگتا تھا کہ وہ کسی کا انتظار کر رہی ہیں۔ ’اس کو تو نہیں پتا ہوگا کہ اس کی بیٹی مر چکی ہے۔ پتا نہیں وہ کیا سوچتی ہوگی۔‘

فوزیہ عظیم طاہر اپنی بیٹی فاخرہ احمد کے بارے میں بی بی سی سے بات کر رہی تھیں جو تقریبا 15 سال تک کوما میں رہیں اور 29 جون کو ملتان کے نشتر ہسپتال کے ترجمان راؤ نوشاد احمد کے مطابق ان کی طبی موت کا اعلان کر دیا گیا۔

واضح رہے کہ سنہ 2009 میں ڈیلیوری کے وقت فاخرہ احمد ہسپتال میں زیرعلاج تھیں جب وہ کوما میں چلی گئی تھیں۔ جس بچی کو انھوں نے جنم دیا تھا، اس کی دو روز بعد وفات ہوگئی تھی۔

اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں پاکستان کی سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیتے ہوئے واقعے کی انکوائری کروائی تھی جس کے مطابق فاخرہ کی موت ایک نجی ہسپتال کے ڈاکٹروں اور طبی عملے کی غفلت کا نتیجہ تھا۔

فاخرہ احمد کے والد قاضی اسماعیل طاہر کا کہنا ہے کہ یہ 15 سال ’ہمنے کس اذیت میں گزارے اور ہم پر کتنی مشکلات آئیں، یہ الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔‘

وہ 15 سال جو ایک ذہین طالب علم اور بینکر نے کوما میں گزارے

کوما کی حالت میں جانے سے قبل فاخرہ احمد ایک نجی بینک میں کام کرتی تھیں اور ان کے کئی تحقیقاتی مقالے بھی شائع ہو چکے تھے۔

فاخرہ کے والد قاضی اسماعیل طاہر، جو ایک سرکاری ملازم تھے، اس وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ جب وہ زچگی کے لیے اپنے والدین کی گھر آئیں تو اس وقت بھی وہ ایک تحقیقاتی مقالہ لکھنے کے بعد اسے پوسٹ کروانے کا کہہ رہی تھیں۔

اسماعیل کہتے ہیں کہ چار بہن بھائیوں میں سب سے بڑی بیٹی فاخرہ بچپن سے ہی پڑھائی میں لائق تھیں۔ ایک وقت پر انھوں نے مزید تعلیم حاصل کرنے کے دوران بینک میں نوکری بھی جاری رکھی اور بینکر بننے کے خواہشمند طلبہ کو پڑھایا بھی۔

فاخرہ کی دونوں بہنیں اور ایک بھائی ڈاکٹرز ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر روشناس احمد یاد کرتے ہیں کہ ’مجھے اتنا یاد ہے کہ جب وہ ماں بننے کے لیے ہمارے گھر آئی تھی تو اس وقت شاید میں نویں کلاس میں تھا۔‘

’میرے امتحان ہونے والے تھے۔ اس وقت بھی وہ نہ صرف مجھے پڑھا رہی تھیں بلکہ باقاعدہ چیک رکھتی تھیں کہ میں امتحان کے لیے تیار ہوسکا ہوں کہ نہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ فاخرہ احمد ہی تھیں جن کی بدولت آج میں ڈاکٹر ہوں۔‘

نشتر ٹیچنگ ہسپتال ملتان کی سٹاف نرس زبیدہ نے تقریباً 12 سال تک آئی سی یو وارڈ میں کام کیا ہے اور اس عرصے میں فاخرہ احمد بھی ان کی زیرِ نگرانی رہی ہیں۔

زبیدہ بتاتی ہیں کہ ان سمیت دیگر سٹاف کی فاخرہ کے ساتھ ’اُنسیت پیدا ہو گئی تھی۔‘

’فاخرہ آنکھیں تو کھول سکتی تھی مگر حرکت نہیں کر سکتی تھی۔ وہ بہت کم سوچ اور سمجھ سکتی تھی۔ وہ کروٹ بھی نہیں بدل سکتی تھی۔ اکثر ہم وارڈ میں ہوتے تو کبھی کبھار وہ آنکھیں گھما کر ہمیں دیکھتی تھی۔‘

کوما کی حالت میں ایک انسان کسی چیز پر ردعمل نہیں دے پاتا مگر طبی عملہ یہ ضرور نوٹ کرتا رہا کہ ’کبھی ایک ہی طرف لیٹے لیٹے وہ تنگ ہوجاتی تو اس کے چہرے کے تاثرات بدل جاتے تھے۔ چہرے پر تکلیف کے تاثرات ہوتے تو ہم اس کی کروٹ بدل دیتے تھے جس سے اس کے چہرے کی تکلیف کم ہو جاتی تھی۔‘

زبیدہ کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ فاخرہ کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارا جائے مگر وہ کہتی ہیں کہ ’اس سارے عرصے کے دوران ان کی ماں اور خاندان نے حق ادا کیا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ فاخرہ کی والدہ نے ان 15 سالوں میں اپنا آرام، سکون، وقت اور سب کچھ اپنی بیٹی کو دینے کی کوشش کی۔ ’وہ ان کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی تھیں۔‘

مرتے وقت ہمارے دماغ میں کیا چل رہا ہوتا ہے؟مرنے سے قبل چند افراد کو اپنے وہ پیارے کیوں دکھائی دیتے ہیں جو پہلے ہی مر چکے ہوتے ہیں؟ قریب المرگ افراد کے تجرباتانصاف اور نئی زندگی دینے کی کوششیں

قاضی اسماعیل طاہر کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ آف پاکستان کی انکوائری، پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل ایوسی ایشن کی انکوائری، حکومت پنجاب کی انکوائری سب میں ثابت ہوا کہ نجی ہسپتال کے ڈاکٹروں اور عملے کی عفلت کے سبب فاخرہ کی یہ حالت ہوئی مگر آج تک مجھے کسی کے خلاف کارروائی کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ فاخرہ کی ڈیلیوری نارمل تھی مگر ان کو ’بے ہوشی کا انجیکشن لگایا گیا۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ہم سے نہ فاخرہ سے اس کی اجازت لی گئی تھی۔‘

’یہ انجیکشن کسی ماہر ڈاکٹر یا اس کی نگرانی میں نہیں لگا بلکہ ایک مِڈ وائف نے لگایا۔ تمام انکوائریز میں ثابت ہوا کہ حد سے زیادہ ڈوز دی گئی تھی۔‘

قاضی اسماعیل طاہر بتاتے ہیں کہ انکوائری رپورٹس میں یہ بھی ثابت ہوا کہ فاخرہ کا ’بلڈ پریشر چیک کرنے کے لیے کوئی مانیٹرنگ سسٹم نہیں تھا۔ جب وہ کومے میں چلی گئیں تو کافی دیر تک کسی کو پتا بھی نہیں چلا۔‘

’نجی ہسپتال میں ایمبولینس تک نہیں تھی۔ ایمبولینس بھی باہر سے منگوائی گئی۔‘

’میں ہر طرف ہاتھ پاؤں مار رہا تھا مگر کوئی پوچھتا ہی نہیں تھا۔ صورتحال یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ اس وقت نشتر ہسپتال انتظامیہ نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ مریض کو اتنے لبمے عرصے ہسپتال میں نہیں رکھا جا سکتا جس پر میں نے عدالت سے رجوع کر کے ریلیف حاصل کیا تھا۔‘

انکوائری رپورٹ میں کیا کہا گیا؟

2009 میں ہی سپریم کورٹ کے احکامات پر ایک تین رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل پائی جس کی سربراہی ایگزیکٹیو ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر ملتان ڈاکٹر افتخار حسین قریشی نے کرتے ہوئے رپورٹ میں لکھا کہ ’اس افسوس ناک واقعے کا آغاز اس وقت ہوا جب انیستھیزیا لگانے والے ماہر ڈاکٹر ٹیسٹ ڈوز لگانے کے بعد ہسپتال سے چلے گئے اور ایک مڈ وائف لیول پیرامیڈک، جس کے پاس انیستھیزیا لگانے کی مہارت نہیں تھی، نے ٹاپ اپ ڈوز دی جس کے بعد مریضہ کی حالت خراب ہونے پر گائناکولوجسٹ نروس ہو گئیں اور درست طریقے سے سی پی آر یعنی مصنوعی تنفس فراہم نہیں کر سکیں۔‘

رپورٹ میں لکھا گیا کہ ’گائناکولوجسٹ نے دوسرے ڈاکٹر کو بلانے میں قیتمی وقت ضائع کیا اور مصنوعی تنفس فراہم کرنے میں اسی تاخیر کی وجہ سے مریضہ کے دماغ کو شدید نقصان پہنچا۔‘

رپورٹ میں کہا گیا کہ ’ہسپتال کی یہ ذمہ داری تھی کہ ڈیلیوری کے پورے عمل کے دوران انیستھیزیا ماہر موجود رہتا‘ اور فاخرہ کی حالت کا ذمہ دار ڈاکٹروں کی غفلت سمیت ملتان کے نجی ہسپتال کی انتظامیہ اور سٹیک ہولڈرز کو قرار دیا گیا۔

عدالتی حکم پر انشورنس کی ادائیگی

قاضی اسماعیل طاہر کو اس بات کی خوشی ہے کہ سول سوسائٹی ان کے ساتھ کھڑی ہوگئی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’عدالت نے بینک کو ہدایت دی تھی کہ فاخرہ کی انشورنس کی رقم فوراً ادا کی جائے۔‘

انشورنش کے 23 لاکھ روپے میں مزید رقم ملا کر وہ فاخرہ کو لے کر چین کے ایک بڑے ہسپتال بھی گئے تھے۔ انھیں امید تھی کہ جدید ٹیکنالوجی سے ان کا علاج ممکن ہوسکے گا۔ ’مگر فاخرہ صحتیاب نہ ہوسکی جس کے بعد ہم لوگ واپس ملتان آ گئے۔‘

اس کے بعد فاخرہ کو دوبارہ ملتان کے نشتر ہسپتال داخل کروایا گیا۔ ان کے والد کے مطابق ان کا گھر چونکہ ہسپتال سے فاصلے پر تھا اس لیے انھوں نے وہ گھر چھوڑ کر ہسپتال کے قریب کرایہ پر ایک دوسرا گھر تلاش کیا۔

اس سارے عرصے میں فاخرہ کی والدہ ان کے لیے ہر وقت موجود رہتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’15 سال کے دوران میں صرف ایک مرتبہ اپنی والدہ کی وفات پر شہر سے باہر گئی تھی۔۔۔ اس کے مختلف کام ہوتے تھے جیسے پیمپر تبدیل کرنا، اس کے کپڑے دھونا، اس کو نہلانا۔‘

قاضی اسماعیل طاہر بتاتے ہیں کہ وہ صبح فاخرہ کے پاس جاتیں اور کافی دیگر تک وہاں رہنے کے بعد دوپہر کو تھوڑی دیر کے لیے واپس آتیں۔ ’شام کو پھر چلی جاتیں۔ رات کو فاخرہ کے کپڑے وغیرہ دھوتیں اور ان کی ضرورت کا سامان تیار کرتی تھیں۔ اس دوران کبھی ہمارے گھر ایک وقت کھانا پکتا اور کبھی نہیں پکتا تھا۔‘

جب فاخرہ ماں بننے کی تیاریاں کر رہی تھیں

فاخرہ کی والدہ فوزیہ عظیم طاہر کا کہنا تھا کہ فاخرہ کی شادی ارینج میرج تھی۔ انھوں نے شادی کے بعد بھی اپنی ملازمت جاری رکھی۔ ڈیلیوری سے قبل وہ اپنے والدین کے پاس آ گئیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اس دوران فاخرہ ’اکثر میرے ساتھ اپنے ہونے والے بچے کے بارے میں بات کرتی تھی۔ وہ کہتی تھی کہ وہ اس کو سب سے اچھے سکول میں داخل کروائے گی۔ اس کی بہت شاندار تربیت کرے گی۔ اس کو ایک کامیاب انسان بنائے گی۔ ایک ایسا انسان جس پر سب فخر کر سکیں۔‘

’وہ اکثر کہتی تھی کہ میں ملازمت کرتی ہوں اور ملازمت چھوڑنا تو ٹھیک نہیں ہوگا۔ پتا نہیں اچھے کی دیکھ بھال کیسے کروں گی۔‘

فاخرہ نے اپنی ڈیلیوری سے قبل بچے کے کپڑے اور دیگر سامان سمیت ہر چیز کی تیاری خود کی۔ ڈیلیوری کے لیے جاتے ہوئے وہ ’بہت خوش تھی کہ وہ ماں بننے جا رہی ہے۔‘

فوزیہ عظیم طاہر بتاتی ہیں کہ جب فاخرہ کوما میں چلی گئیں تو بظاہر لگتا تھا کہ وہ کسی کا انتظار کر رہی ہیں۔ ’اس کو تو نہیں پتا ہوگا کہ اس کی بیٹی مر چکی ہے۔ پتا نہیں وہ کیا سوچتی ہوگی۔ اکثر اوقات جب میں ہسپتال میں اس کے کام کر رہی ہوتی تھی تو مجھے یہ فکر رہتی کہ وہ کیا سوچ رہی ہے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ فاخرہ کے شوہر کچھ دن تک اپنی بیمار بیوی کو دیکھنے ہسپتال آتے تھے مگر ’بعد میں اس نے آنا جانا بھی چھوڑ دیا تھا۔ وہ جوان بچہ تھا، اس نے اپنے مستقبل کا سوچا ہوگا۔ مگر بس اتنا خیال تو ضرور آتا ہے کہ وہ اس کے بچے کی ماں بنی تھی، ہماری تسلی کے لیے ہی پوچھ لیتا۔‘

وہ کہتی ہیں کہ فاخرہ کی موت کی اطلاع کے بعد ’اگر وہ دو جملے بھی بول دیتا تو ہمیں اچھا لگتا۔‘

دریں اثنا فوزیہ عظیم طاہر نے یہ بھی بتایا کہ ان کا خاندان ہر سال فاخرہ کی سالگرہ مناتا تھا اور دیگر تقاریب جیسے بہنوں کی شادیوں کے موقع پر بھی وہ زیادہ وقت فاخرہ کے بیڈ کے پاس گزارتے تھے۔

’ایسا لگتا تھا فاخرہ مجھے مسکراتے ہوئے دیکھ رہی ہے‘

فاخرہ کی والدہ فوزیہ عظیم طاہر بتاتی ہیں کہ اگرچہ ان کی بیٹی کوما میں تھی مگر اس دوران انھیں یہ بات اطمینان دیتی تھی کہ ان کی سانسیں چل رہی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’میں جب صبح کے وقت اس کے پاس پہنچتی تو اکثر مجھے اس کے چہرے اور آنکھوں میں دیکھ کر ایسے لگتا کہ وہ میری راہ دیکھ رہی ہے اور جیسے ہی میں اس کے پاس پہنچتی تو مجھے لگتا کہ وہ خوشی محسوس کر رہی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’کئی مرتبہ ایسا ہوتا کہ جب میں اس کے کام شروع کرتی تو وہ مجھے کچھ تکلیف میں نظر آتی مگر جب میں اس کے کام مکمل کر دیتی تو اس وقت مجھے محسوس ہوتا کہ وہ مجھے مسکراہٹ دے رہی ہے۔ اس کی مجھے اتنی خوشی ہوتی کہ میں بیان نہیں کر سکتی۔‘

فوزیہ عظیم طاہر کا کہنا تھا کہ کوما کے شروع میں ہی فاخرہ مختلف مسائل کا شکار ہوچکی تھی۔ اس کا مدافعتی نظام بالکل ختم ہوچکا تھا۔ وہ مختلف قسم کے انفیکشنز کا شکار ہوچکی تھی۔ ’جب وہ انفیکشن کا شکار ہوتی تو میں اس کی تکلیف محسوس کر لیتی تھی۔‘

پہلے وہ یہ دعا کرتی تھیں کہ فاخرہ کو ان کی زندگی واپس مل جائے اور پھر انفیکشنز سے حالت خراب ہوتی ہوئی دیکھ کر ’میں نے دعا کرنا شروع کر دی کہ اللہ کسی بھی رنگ میں اس کی تکالیف کو ختم کر دے۔‘

فاخرہ کے والد قاضی اسماعیل طاہر یہ پیغام دیتے ہیں کہ ’ہم یہ نہیں کہتے کہ سب ڈاکٹرز اور طبی عملہ لاپروائی کرتا ہے۔ مگر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اس پیشے میں لاپروائی اور غلطی کی گنجائش موجود نہیں ہے۔‘

’ہم چاہتے ہیں کہ پورے ملک کے ڈاکٹرز اور طبی عملہ ہماری 15 سال کی کہانی سنے۔‘ وہ چاہتے ہیں کہ اب آئندہ کوئی بھی اس درد اور تکلیف سے نہ گزرے جس سے ان کا خاندان گزرا ہے۔

موت سے چند لمحے قبل انسانی آنکھ کیا دیکھتی ہے؟ڈاکٹر کی غلطی جس نے معروف فٹبالر کو قریب 40 برس تک کوما میں رکھاایک دہائی سے 'بیہوش خاتون' کے بطن سے بچے کی ولادتتین ماہ تک کوما میں رہنے والی یوٹیوبر: ’ڈاکٹر نے کہا کہ تمھارا زندہ ہونا غیرمعمولی ہے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More