ڈاکٹر رفیع محمد چودھری: پاکستانی ایٹمی پروگرام کے ’حقیقی خالق‘ جنھیں محمد علی جناح نے خط لکھ کر پاکستان مدعو کیا

بی بی سی اردو  |  Jul 01, 2024

’ڈاکٹر رفیع محمد چودھری پاکستان میں سائنس، فزکس کے سرخیل بلکہ پاکستانی ایٹمی پروگرام کے ’حقیقی خالق‘ تھے۔‘ ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے یہ بات لاہور میں تب کہی جب وہ 1998 میں پاکستان کے انڈیا کے جواب میں کیے گئے ایٹمی تجربات کی داد سمیٹ رہے تھے۔

یکم جولائی کو یعنی آج کے دن 1903 میں مشرقی پنجاب کے ضلع روہتک کے ایک گاؤں کہنور میں پیدا ہونے والے رفیع محمد چودھری وائسرائے روفس آئزکس کے وظیفے پر دلی سے 140 کلومیٹر دور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں پڑھنے گئے۔

یہیں ایم ایس سی فزکس میں اول آئےاور تمام سائنسی مضامین میں سب سے زیادہ نمبر لینے پرطلائی تمغے حاصل کیا۔

ان کامیابیوں سے متاثر ہو کر بھوپال کے نواب حمید اللہ خان نے انھیں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی وظیفے پر پڑھنے بھیجا۔ وہیں کیونڈش لیبارٹری میں ماہر طبیعات مارک اولیفانٹ نے چودھری کو نیوکلیئر فزکس پڑھنے کی طرف مائل کیا۔

سنہ 1932 میں رفیع محمد چودھری نے کیمسٹری میں نوبیل انعام یافتہ سائنس دان ارنسٹ ردرفورڈ کی نگرانی میں نیوکلیئر فزکس میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

خالد محمود عاصم کی تحقیق ہے کہ کیونڈش کا یہ ایک شاندار دور تھا کیونکہ وہاں اس دوران ایٹم اور نیوکلیئر فزکس میں بہت پیش رفت ہوئی۔

’کیونڈش لیبارٹری میں اس وقت سر جے جے تھامسن، لارڈ ردر فورڈ، آسٹن ولسن، کک روفٹ والٹن، اور سر جیمز چیڈویک جیسے سائنس دان کام کرتے تھے۔ ڈاکٹر رفیع محمد چودھری ہمیشہ اس بات پر فخر کرتے کہ وہ کیونڈش کے سنہری دور میں ردر فورڈ کے طالب علم تھے۔‘

تیس سال کی عمر میں ڈاکٹر رفیع چودھری برطانوی ہندوستان لوٹے اور لاہور کے اسلامیہ کالج میں فزکس پڑھانا شروع کی۔ سنہ 1935 سے1938 تک وہ یہیں شعبہ فزکس کے چیئرمین رہے۔

1938 میں وہ شعبہ طبیعات کے سربراہ بن کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی چلے گئے۔ اسی دوران ان کی شادی نور جہاں چودھری سے ہو گئی جن سے ان کے ہاں تین بیٹیاں اور سات بیٹے پیدا ہوئے۔

وہ اولیفانٹ کی دعوت پر برمنگھم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس میں بطور نوفلیڈ فیلو کام کرنے کے لیے دوبارہ برطانیہ گئے۔

برطانوی میگزین ’ڈاروینین' کے مطابق سنہ 1947 کے موسم بہار میں ڈاکٹر چودھری برمنگھم میں اولی فانٹ کی لیبارٹری میں ایک سال گزارنے کے بعد کہنور واپس آئے۔

’تقسیم کے تناظر میں بڑھتے تشدد کی وجہ سے مسلمانوں نے نئے بنے پاکستان کی جانب ہجرت شروع کر دی تھی۔ ڈاکٹر چودھری نے اپنے خاندان کو سڑک کے ذریعے علی گڑھ (روہتک سے 225 کلومیٹر) منتقل کرنے کا فیصلہ کیا، جبکہ ان کے سسرالی خاندان نے روہتک سے ٹرین کے ذریعے پاکستان جانے کا انتخاب کیا۔‘

خالد محمود عاصم کی تحقیق ہے کہ ’قیام پاکستان کے فوراً بعد اولیفانٹ نے بانی پاکستان محمد علی جناح کو ایک خصوصی خط میں نوزائیدہ ملک میں سائنس، خصوصاً ایٹمی اور نیوکلیئر فزکس کی تدریس و تحقیق کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا۔‘

انھوں نے لکھا کہ ’اس پروگرام کے کامیاب اطلاق کے لیے پورے برصغیر میں ڈاکٹر رفیع چودھری سے بہتر کوئی مسلمان سائنس دان نہیں ہے اور انھیں فوری طور پر پاکستان بلانے پر زور دیا۔‘

بانی پاکستان محمد علی جناح نے اولیفانٹ کے دلائل کے پیش نظر ڈاکٹر رفیع محمد چودھری کو خط لکھ کر پاکستان آنے کی دعوت دی۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے وزارت تعلیم کو حکم نامہ جاری کیا جس کے تحت پروفیسر رفیع محمد چودھری کو گورنمنٹ کالج لاہور میں شعبہ فزکسکی سربراہی کی پیش کش کی گئی۔

جب انڈیا کے وزیراعظم جواہر لال نہرو کو اس بات کا علم ہوا تو انھوں نے پروفیسر رفیع چودھری کو نیشنل فزکس لیبارٹری میں ڈپٹی ڈائریکٹر شپ کی پیشکش کی، مگر انھوں نے یہ پیشکش ٹھکرا دی۔

برطانوی میگزین ڈاروینین نے لکھا ہے کہ حکومت پاکستان کے دعوت نامہ پر ڈاکٹر رفیع چودھری اپنےخاندان سمیت 1948 کے موسم گرما میں پاکستانی پنجاب کے علاقے عارف والا کے قریب ایک گاؤں میں اپنے سسرال چلے گئے۔ پھر لاہور آ کر گورنمنٹ کالج لاہور جوائن کر کے علی گڑھ یونیورسٹی سے استعفا دے دیا۔

ڈاکٹر رفیع چودھری کے کہنور ہی میں پیدا ہونے والے بیٹے ڈاکٹر منور چودھری اپنے والد کی مادرِ علمی کیونڈش لیبارٹری سے منسلک ہیں۔

ای میل کے ذریعے بات چیت میں ڈاکٹر منور چودھری نے مجھے بتایا کہ ان کے والد اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ ہندوستان کی تقسیم کے بعد نئے ملک پاکستان میں مسلمانوں کا مستقبل زیادہ محفوظ ہے۔

’چنانچہ 1948 میں انھوں نے مسلم علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ فزکس کی پروفیسری اور سربراہی چھوڑ دی، جہاں وہمستحکم حیثیت میں تھے اور گورنمنٹ کالج لاہور کے فزکس کے شعبہ کی پروفیسری اور سربراہی کے لیے حکومت پاکستان کی دعوت قبول کی۔‘

ڈاروینین میں ڈاکٹر منور چودھری ہی پر چھپے مضمون میں ان کے والد کا ذکر یوں کیا گیا ہے: ’اس کے بعد ڈاکٹر رفیع چودھری کو لاہور میں گالف روڈ پر ایک خاص رہائشی علاقے میں ایک بڑا سرکاری مکان الاٹ کیا گیا۔ اس علاقےمیں اعلیٰ سرکاری افسران اور وزرا رہتے تھے۔‘

منور چودھری کے مطابق وہ ایک خیال رکھنے والے والد تھے اور چاہتے تھے کہ ان کے تمام بچے لاہور میں بہترین تعلیم حاصل کریں۔

’تاہم وہ اپنی تدریس اور تحقیق میں اس قدر مصروف تھے کہ انھیں بچوں میں سے کسی کی تربیت کے لیے وقت نہیں ملا۔ اس کے باوجود ہر بچے کی تعلیمی کارکردگی پر گہری نظر رکھتے تھے۔‘

’میرے علاوہ میرے سات بہن بھائیوں نے فزکس میں ایم ایس سی کیا۔ ایک بھائی نے کیمسٹری میں ایم ایس سی کیا اور ایک بھائی اظہر چودھری ایف ایس سی کے بعد شارٹ سروس کمیشن پر فوج میں بھرتی ہوئے اور وہیں بی ایس سی کیا۔ دو بھائی فوت ہو چکے ہیں۔‘

ڈاکٹر رفیع چودھری کے پوتے اور اظہر چودھری کے بیٹے عثمان چودھری اپنے دادا کی زندگی اور ان کے کارناموں پر فلم بنا رہے ہیں۔

’رفیع: دی ان ٹولڈ سٹوری‘ نامی اس فلم کا ٹیزر یوٹیوب پر موجود ہے۔ اداکار عفان وحید، سونیا حسین اور دیگر اداکار اس ٹیزر میں انگریزی، اردو اور رانگڑی زبانوں میں ڈاکٹر رفیع چودھری کو درپیش ملک کے انتخاب کی اسی کشمکش کی عکاسی کرتے دکھائی دیتے ہیں جس سے وہ تب گزرے ہوں گے۔

مجھ سے گفتگوکے دوران امریکہ میں مقیم ڈاکٹر رفیع چودھری کے 41 سالہ سافٹ ویئر انجینیئر پوتے کا کہنا تھا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کی صحیح عکاسی کرنا چاہتے ہیں۔

’مقصد یہ بتانا ہے کہ سائنس اور اسلاممتضاد نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ چلتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں بہت چھوٹا تھا جب میرے دادا کی وفات ہوئی۔ خاندان، رشتہ داروں، ساتھیوں اور شاگردوں سے بات کر کے ڈیٹا اکٹھا کیا۔‘

فِکشن اور بائیوگرافی پر مبنی اس فلم کو بنانے کے لیے وہ اس وقت فنڈ ریزنگ کر رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ یہ فلم اگلے برس ریلیز کر دی جائے۔

فیروز حسن خان اپنی کتاب ’ایٹنگ گراس: دی میکنگ آف پاکستانی بم‘ میں لکھتے ہیں کہ تقسیم کے موقع پر قومی طاقت کے دیگر عناصر کی طرح برصغیر کا سائنسی سرمایہ بھی یکساں طور پر تقسیم نہیں کیا گیا تھا۔

'کونسل برائے سائنسی اور صنعتی تحقیق ہندوستان بھر میں کئی تجربہ گاہوں کی نگرانی کرتی تھی۔ تاہم کونسل اور تجربہ گاہیں سبھی تقسیم کی لکیر کے بعد انڈیا کی جانب رہیں۔‘

’پاکستان کی ایٹمی کوششوں کی پہلی دہائی کیمبرج سے تعلیم یافتہ تین طبیعیات دانوں نذیر احمد، ڈاکٹر رفیع محمد چودھری اور ڈاکٹر عبدالسلام کی کہانی ہے۔ اگر رفیع چودھری بنیادی طور پر ایک ماہر تعلیم تھے، تو ڈاکٹر عبدالسلام ایک سائنسدان تھے تو تیسرے رکن ایک منتظم تھے۔ انھیں ادارے بنانا تھے اور پاکستانی سائنسدانوں کی اگلی نسل کی شناخت بنانا اور ان کی تربیت کرنا تھی۔‘

’سنہ 1954 میں ڈاکٹر رفیع محمد چودھری نے جوہری تحقیق کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ فزکس میں ہائی ٹینشن لیبارٹری کی بنیاد رکھی۔‘

'انھیں سائنسی برادری میں ’استادوں کے استاد‘ کا خطاب ملا۔ جب ان کے ایک طالب علم منیر احمد خان نے بعد ازاں 1986 میں ان کا تعارف صدر ضیا الحق سے کروایا تو فوجی آمر نے ہاتھ اٹھا کر رفیع چودھری کو پاکستان کی ایٹمی ترقی میں نمایاں کردار ادا کرنے پر سلیوٹ کیا۔‘

ہارون شعیب کے مطابق ڈاکٹر چودھری کے شاگرد ڈاکٹر این ایم بٹ یاد کرتے ہیں کہ کس طرح وہ عام طور پر کم از کم دو گھنٹے مسلسل لیکچر دیتے تھے اور دن میں 12 گھنٹے کام کرتے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ڈاکٹر رفیع چودھری شام کو دیر گئے لیبارٹری سے باہر آتے اور طلبہ کے ہجوم میں گھرجاتے اور اس وقت ان کی خوشی دیدنی ہوتی تھی، جیسے وہ ایک نئے دن کا آغاز کر رہے ہوں۔‘

’وہ طلبہ کے ساتھ بہت ہمدردی رکھتے تھے اور ضرورت مند طلبہ کی مالی مدد بھی کرتے تھے۔ لیکن طلبہ کی معمولی سی خدمت بھی قبول نہ کرتے۔ وہ روزانہ چھ میل تک باقاعدگی سے پیدل چلتے تھے اور ان کی روزانہ کی خوراک میں تھوڑی سی اُبلی سبزیاں اور دن بھر میں اکثر چائے شامل تھی۔‘

خوارزمی سوسائٹی اور انٹرایکٹ کلب کے زیراہتمام پیر 30 نومبر 1998 کو اپنے لیکچر میں ڈاکٹر ثمر مبارک مند نے ڈاکٹر چودھری کو پاکستانی ایٹمی پروگرام کا ’حقیقی خالق‘ قرار دیا تھا۔

’ہائی ٹینشن لیبارٹریز میں ایک ایٹم ایکسلریٹر لگایا گیا اور حقیقی اعلیٰ سطحی تحقیق ممکن ہوئی۔ اس لیبارٹری سے تربیت حاصل کرنے والے متعدد طلبہ پاکستان اور بیرون ملک اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔

انھوں نے طبیعیات دانوں کی ایک ٹیم تیار کی جو اب پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی قیادت کر رہی ہے۔

ڈاکٹر مبارک مند کا کہنا تھا کہ ’ان کے ابتدائی شاگردوں میں سے ایک ڈاکٹر طاہر حسین تھے جو میرے استاد ہیں اور دوسرے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے موجودہ چیئرمین (ڈاکٹر اشفاق احمد) تھے۔‘

ڈاکٹر مبارک مند کی اس بات کی تصدیق چاہی تو ڈاکٹر منور چودھری کا کہنا تھا: ’ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی بات بالکل درست ہے۔ سنہ 1947 میں قیام پاکستان کے بعد زیادہ تر ہندو اساتذہ انڈیا چلے گئے اور پاکستان میں فزکس کے اساتذہ اور سائنسدانوں کی شدید کمی تھی۔ انھوں نے حالات کو بہتر بنانے کے لیے اس چیلنج کو قبول کیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’انھوں نے حکومت پاکستان کو ایک نئی لیبارٹری بنانے کی تجویز پیش کی جہاں علم میں سب سے آگے جوہری اور جوہری طبیعیات پر تحقیق کی جائے گی۔ حکومت نے ان کی تجویز اور اس نئی لیبارٹری کو قبول کر لیا، جسے انھوں نے ’ہائی ٹینشن اینڈ نیوکلیئر ریسرچ لیبارٹری‘ کہا۔ (ہائی ٹینشن کا مطلب ہے ہائی وولٹیج، جو چارج شدہ ذرات کو تیز کرنے کے لیے درکار ہے)۔‘

’ایم ایس سی فزکس کے طلبہ تقریباً 20 سے 30 کی تعداد میں جوہری فزکس میں تحقیقی کام کرنے کے لیے لیبارٹری آتے۔ تمام طلبہ کو پروجیکٹ تفویض کیے جاتے جن کی نگرانی وہ کرتے۔ ان نئے قابل سائنس دانوں نے یونیورسٹیوں اور راولپنڈی کے قریب نئے بننے والے پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں پوزیشنیں سنبھالیں۔ زیادہ تر ان ہی سائنسدانوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی ترقی میں مدد کی۔‘

یہ بھی پڑھیےکیا فزکس خدا کے وجود کو ثابت کر سکتی ہے؟کوانٹم فزکس کے ماہر جنھوں نے دنیا کو ’تمام برائیوں کی جڑ‘ کے بارے میں خبردار کیاڈاکٹر عبدالسلام یا منصور الخزینی، نام کا تنازع کیا ہے؟

ڈاکٹر منور چودھری کا کہنا ہے کہ ان کے والد کو تعلیم سے محبت تھی۔ زیادہ تر انھوں نے پوسٹ گریجویٹ کلاسوں میں لیکچر دیا، خاص طور پر جوہری اور جوہری طبیعیات پر۔ ان کا ہر لیکچر دو گھنٹے کا ہوتا تھا اور ہر سال وہ اپنے لیکچر کے نوٹس نئے سرے سے لکھتے تھے۔

ہائی ٹینشن لیبارٹری بہت تیزی سے بین الاقوامی سطح پر جانی پہچانی جانے لگی۔ جب غیر ملکی سائنس دان پاکستان کے دورے پر آتے تو اس لیبارٹری کو دیکھنے کی خواہش کرتے۔ سنہ 1958 میں پرنس فلپ نے اس لیبارٹری کا دورہ کیا اور بیس سے زیادہ تجربات کا مشاہدہ کیا۔ دورے کے اختتام پر یہ جملہ ضرور سنائی دیتا کہ ’یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ یہاں کیونڈش کی طرح کا ماحول ہے۔‘

بعد میں اس کا نام سنٹر فار ایڈوانسڈ سٹڈیز اِن فزکس رکھا گیا۔

پروفیسر ایم اکرام الحق نے لکھا ہے کہ پاکستان میں تجرباتی ایٹمی جوہری طبیعیات کے بانی اور پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے حقیقی معمار ڈاکٹر رفیع محمد چودھری آج تک ایک گمنام ہیرو بنے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر رفیع چودھریکو 1958 میں 55 سال کی عمر میں 600 روپے ماہانہ کی معمولی پنشن کے ساتھ ریٹائرمنٹ پر مجبور کر دیا گیا۔

Getty Imagesآسٹریلین ماہر طبعیات سرمارک اولیفنٹ

لیکن ڈاکٹر منور چودھریکا کہنا ہے کہ وہ فزکس ڈیپارٹمنٹ سے سرکاری قواعد کے مطابق 1958 میں 55 سال کی عمر کو پہنچنے پر ریٹائر ہوئے۔

’اس کے بعد وہ مختصر مدت کے لیے ہائی ٹینشن اور نیوکلیئر ریسرچ لیبارٹری کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ پھر انھیں 1965 تک توسیع دی گئی۔ اگر انھیں ملازمت جاری رکھنے کی اجازت نہ دی جاتی تو یہ لیبارٹری کے لیے تباہی ہوتی۔ ابھی بہت کچھ کرنا باقی تھا لیکن حکومت نے انھیں مزید توسیع نہیں دی، وہ اس پر ناخوش تھے۔‘

سنہ 1970کے اوائل میں انھوں نے پنجاب یونیورسٹی کے سنٹر فار سالڈ سٹیٹ فزکس میں گوشہ عافیت پا لیا۔ یہاں انھوں نے پلازما فزکس کی نئی ریسرچ لیبارٹری قائم کی۔

اس لیبارٹری میں انھوں نے یونیورسٹی کے متعدد طلبہ کو ایم ایس سی اور ایم فل کےلیے تربیت دی۔ اس کام سے متعلق بڑی تعداد میں مقالات بھی تحریر اور شائع کروائے گئے۔

Getty Imagesسر ردرفورڈ

ڈاکٹر رفیع چودھری کی پنجاب یونیورسٹی سے وابستگی شروع ہی سےتھی۔ وہ 1960 سے 1977 تک پنجاب یونیورسٹی میں اعزازی پروفیسر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ سنہ 1977 میں پنجاب یونیورسٹی نے انھپیں تاحیات پروفیسر ایمریطس مقرر کیا۔

ڈاکٹر رفیع چودھری نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن میں جوہری ٹیکنالوجی پر تحقیق بھی کی۔ وہ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف نیوکلیئر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے پہلے ڈائریکٹر تھے اور انھوں نے وہاں نیوکلیئر پارٹیکل ایکسلریٹر کی تنصیب میں اہم کردار ادا کیا۔

وہ پہلے ری ایکٹر کی نگران ٹیم کا بھی حصہ تھے۔ 1967 میں انھوں نے سائنسدانوں کی ایک ٹیم کی نگرانی کی جس نے کامیابی سے ریڈیوآئسوٹوپس کی پہلی کھیپ تیار کی۔

جنوری 1972 میں ڈاکٹر رفیع چودھری نے ایٹمی لائحہ عمل طے کرنے کے لیے صدر ذوالفقار علی بھٹو کی بلائی ملتان ملاقات میں شرکت کی۔

Getty Imagesڈاکٹر رفیع محمد چودھری کے استاد سر ارنسٹ ردرفورڈ

پروفیسر ڈاکٹررفیع محمد چودھری نے 1932 سے 1988 کے دوران 53 تحقیقی مقالات لکھے، جو مختلف بین الاقوامی جرائد کی زینت بنے۔ شاندار سائنسی خدمات پر متعدد ملکی اور بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں نے انھیں رکنیت، فیلوشپ یا چیئرمین شپ دی۔

ان کی خدمات کے اعتراف میں انھیں ستارہ خدمت (1964)، ستارہ امتیاز (1982) اور ہلال امتیاز (2005) سے نوازا گیا۔

چار دسمبر 1988 کو مختصر علالت کے بعد ڈاکٹر رفیع محمد چودھری وفات پا گئے۔

ہیرالڈ فرٹزش اور مرے گیل مین نے اپنی کتاب ’ففٹی ایئرز آف کوارکس‘ میں لکھا ہے کہ ’ردرفورڈ کے شاگردوں، ساتھیوں اور ان کی لیبارٹری کے ارکان میں سے 11 نے فزکس یا کیمسٹری میں نوبیل انعام پایا۔ بہت سوں نے شان دار لیکن کم مشہور کارنامے سر انجام دیے۔

’رفیع محمد چودھری تجرباتی نیوکلیئر فزکس کے سرخیل بنے اور اپنے شاگرد مصطفیٰ یار خان کے ساتھ مل کر پاکستان کے کامیاب نیوکلیئر ہتھیاروں کے پروگرام کی بنیاد رکھی۔‘

ڈاکٹر عبدالسلام: نوبیل انعام یافتہ سائنسدان کو مذہبی امتیاز کا سامنا کیوں؟کوانٹم فزکس کے ماہر جنھوں نے دنیا کو ’تمام برائیوں کی جڑ‘ کے بارے میں خبردار کیاڈاکٹر عبدالسلام کے نوبیل انعام یافتہ نظریے کی سائنس میں کیا اہمیت ہےکیا کوانٹم فزکس ’روح‘ کے راز کو سمجھ جائے گی؟فزکس: پچپن سالوں میں کسی خاتون کے لیے پہلا نوبیل انعام
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More