Getty Imagesایک مفرور شخص اپنا بازو ایک سپیشل ایجنٹ کے ساتھجو حقیقی آپریشن فلیگ شپ کے دوران دربان کے روپ میں ہے
کیا آپ کو کبھی ایسا لگا کہ جو لمحات آپ جی رہے ہیں وہ حقیقت نہیں ہو سکتے کیونکہ ایسا یا تو فلموں میں ہوتا ہے یا شاید کہانیوں میں۔ ایسا ہی کچھ ایک امریکی شخص کے ساتھ ہوا جو اپنی بیٹی کو ایک پاپ کنسرٹ میں لے گیا لیکن وہاں پہنچ کر اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ سب کچھ ایف بی آئی کی طرف سے ایک خطرناک مجرم کو پھنسانے کے لیے قائم کیا گیا ایک سٹنگ آپریشن ہے۔
اگرچہ کنسرٹ حقیقی تھا لیکن وینیو پولیس اور خصوصی ایجنٹوں سے بھرا ہوا تھا جو ناظرین کو عقابی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں تاکہ آخر کار ان مفرور افراد کو پکڑ لیا جائے جن کا وہ مہینوں سے تعاقب کر رہے تھے۔
یہ منظر کسی فلم کی طرح لگتا ہے اور ایسا ہے بھی۔ ’ٹریپ‘ ایم نائٹ شیاملن کی تازہ ترین ریلیز ہے جو ہائی کانسیپٹ فلموں کے لیے مشہور ہیں۔
لیکن اس فلم کے واقعات دراصل چار دہائیوں پہلے کے ایک حقیقی زندگی کے کیس سے متاثر ہیں جسے آپریشن فلیگ شپ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
سنہ1985 کے سٹنگ آپریشن میں 100 سے زیادہ مجرموں کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ یہ سوچ کر ایک جعلی ٹی وی سٹیشن میں چلے گئے کہ انھوں نے مفت این ایف ایل ٹکٹ جیت لیے ہیں۔
Getty Imagesمفرور افراد کو چھوٹے گروپوں میں ایک بڑے ہال میں لے جایا گیا، جہاں انہیں پولیس نے گھیر لیا
تقریبا 3000 مفرور افراد کو واشنگٹن ریڈسکنز کا میچ دیکھنے کے لیے مفت ٹکٹوں کی پیشکش کی گئی تھی اور انھیں بتایا گیا تھا کہ ان کے پاس سپر باؤل کا تمام اخراجات پر مبنی سفر جیتنے کا موقع بھی ہو گا۔
لیکن جب ان میں سے تقریباً 120 ایک فرضی ٹی وی کمپنی کے ہیڈکوارٹر میں پہنچے تو انھیں گرفتار کر لیا گیا۔
یہ ایک غیر معمولی کہانی ہے جس نے فلم کو تحریک فراہم کی۔
شیاملن نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’میں نے اس بارے میں اس وقت سنا تھا جب میں بچہ تھا اور مجھے لگا کہ یہ بالکل مضحکہ خیز ہے۔‘
’یہ ایسی چیز تھی جو اس وقت تو بہت دیر تک میرے سر پر سوار رہی ۔۔۔ یہ حقیقی زندگی کے مجرم، ایف بی آئی اور پولیس تھے۔ وہ چیئر لیڈرز اور میسکاٹس کے لباس میں ملبوس تھے اور ان کے ساتھ رقص کر رہے تھے اور ان کے ساتھ گھوم رہے تھے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’شاید آج وہ ایسا کچھ نہیں کر سکتے لیکن تب وہ سچ میں ان کے ساتھ پارٹی کر رہے تھے۔ ایسے لگ رہا کہ کہ وہ کہہ رہے ہوں شاباش آ جاؤ اور پھر ان کے نام چیک کیے اور اس بات کو یقینی بنایا کہ یہ صحیح لوگ ہیں اور انھیں گھیر کر بولا ’آپ سب کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘
Getty Images100 سے زائد مفرور ملزمان کو موقع پر گرفتار کر لیا گیا آپریشن فلیگ شپ کیا تھا؟
یہ سٹنگ آپریشن 15 دسمبر 1985 کو اس وقت ہوا جب واشنگٹن ریڈ سکنز سنسناٹی بنگالز کا کردار ادا کرنے والے تھے۔
امریکی مارشل سروس کی جانب سے نشانہ بنائے جانے والے مفرور افراد کو بتایا گیا کہ انھیں واشنگٹن ڈی سی کے رہائشیوں میں سے دو مفت ٹکٹ حاصل کرنے کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔
میچ دوپہر ایک بجے شروع ہونا تھا لیکن بظاہر مقابلہ جیتنے والوں کو ٹکٹ وصول کرنے کے لیے صبح آنے کی دعوت دی گئی تھی۔
انھیں اس دوپہر کو بس کے ذریعے کھیل کے میدان تک لے جایا جانا تھا۔ یا کم از کم انھیں ایسا بتایا گیا تھا۔
ٹوبی روشے نے 2016 میں اس سٹنگ کے بارے میں ایک دستاویزی فلم میں یاد کرتے ہوئے کہا ’ہم نے واشنگٹن کنونشن سینٹر میں برنچ کے لیے 3000 سے کچھ کم مفرور افراد کو دعوت نامے بھیجے تھے۔ روشے اس وقت امریکی مارشلز کے چیف ڈپٹی تھے لیکن آپریشن فلیگ شپ کے مقاصد کے لیے وہ اس تقریب کےدربان بنے ہوئے تھے۔
انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا کام اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ جو افراد آرہے ہیں وہ درحقیقت وہی مفرور تھے‘
انہوں نےبتایا کہ ایجنٹوں کے پاس مجرموں کے لیول کی وضاحت کے لیے کوڈ ورڈ موجود تھے۔ ’ایک 'کنفرم ونر‘ وہ شخص تھا جو مطلوب تھا۔’ڈبل ونر‘ ایک خطرناک شخص تھا ایسا شخص جس نے حملہ، قتل یا ڈکیتی کی ہو۔‘
’اس شخص سے دور رہو، وہ خطرناک ہے‘ ریپ کا مجرم جس نے سزا سے بچنے کے لیے اپنی موت کا ڈرامہ بھی رچایا’فیس بُک ریپسٹ‘: وہ شاطر مجرم جو اپنی موت کا ڈرامہ رچا کر جیل سے فرار ہواپولیس تلاش کرتی رہی لیکن منشیات فروش پلاسٹک سرجری کروا کر چکمہ دیتا رہا
ان کے ساتھی باب لیسچرن جو یو ایس مارشلز میں انفورسمنٹ کے چیف ڈپٹی ہیں خود کو فرضی امریکی کیبل ٹی وی نیٹ ورک فلیگ شپ انٹرنیشنل سپورٹس ٹیلی ویژن کے سی ای او کے طور پر پیش کر رہے تھے۔
لیسچرن نے مسکراتے ہوئے یاد کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس 119 لکی ونرزتھے جو اتفاق سے فوجداری وارنٹ پر مطلوب تھے۔‘
لیکن کھیل کے میدان کی طرف جانے کے بجائے ’انھوں نے ڈی سی جیل کا سفر جیت لیا۔‘
ایجنٹوں نے زیادہ سے زیادہ مجرموں کو اس میں شامل کرنے کے لیے ریورس سائیکالوجی کا استعمال کیا۔
جیتنے والوں کو فون پر بتایا گیا کہ اگر انھوں نے اپنے ٹکٹ واپس نہیں کیے اور اپنی شناختی کارڈ نہیں لائے تو انعام کسی اور کو دیا جائے گا۔
لیسچرن نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہی وہ چیز تھی جس نے انھیں یہ کہنے پر مجبور کیا ’رکیے، آپ میرے ریڈسکین ٹکٹ کسی کو نہیں دیں گے۔ میں وہاں آرہا ہوں۔‘
سٹیج سیٹ ہونے کے ساتھ ہی امریکی مارشلز نے اس بات کو یقینی بنایا کہ جعلی ٹی وی سٹیشن کے آس پاس کی ہر چیز دیکھنے میں مستند نظر آئے۔
مارشلز کو ٹکسیڈو میں ملبوس کیا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ وہ ان مجرموںکو دیکھ کر مسکرائیں جن کا وہ پیچھا کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ کئی خواتین افسران کو چیئر لیڈر بنا کر آپریشن میں شامل کیا گیا تھا۔
جب مفرور افراد وہاں پہنچتے تو چیئر لیڈرز ان کے ارد گرد اپنی بانہیں ڈالتیں اور ان کا استقبال کرتیں۔ لیکن حقیقت میں وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے انھیں تھپتھاتیں کہ کہیں ان کے پاس کوئی ہتھیار تو نہیں ہیں۔
یو ایس مارشلز کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر آف آپریشنز ہاورڈ سفیر کا کہنا تھا کہ اس کا زیادہ خطرہ بھی نہیں تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سٹنگ آپریشن مفرور افراد کو گرفتار کرنے کا ایک محفوظ طریقہ ہے۔’وہ عام طور پر ہتھیار لے کر نہیں آتے ان کے دھیان بھٹکا دیا گیا ہوتا ہے، وہ جشن منانے کے موڈ میں ہوتے ہیں۔‘
’سب جال میں پھنس گئے‘
ایک بار جب وہ سب وہاں پہنچ گئے اور اپنی شناخت کی تصدیق کی تو مفرور افراد کو تقریباً 15 افراد کے گروپوں میں سٹیج کے ساتھ ایک ہال میں لے جایا گیا۔
جہاں سپیکر نے کہا ’ہمارے پاس آپ کے لیے ایک بڑا سرپرائز ہے۔ آپ سب کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘
مجرموں کو گھیر لیا گیا اور ہتھکڑیاں لگا کر باہر لے جایا گیا اور مجموعی طور پر 101 افراد گرفتار کیے گئے۔
ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کے امریکی مارشل ہربرٹ ایم ردرفورڈ نے بعد ازاں اسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا ’یہ پارٹی کا وقت تھا اور وہ اس کی زد میں آ گئے، سب جال میں پھنس گئے۔‘
’کچھ مفرور افراد پکڑے جانے کے بعد بھی یہ سمجھ نہیں پا رہے تھے کہ ہوا کیا تھا۔ جب مفروروں کو لے جانے والی بسیں وہاں سےجا رہی تھیں تو ایک نے پوچھا ’کیا ہم اب بھی میچ دیکھنے جا سکتے ہیں؟‘
رواں ہفتے کے آخر میں برطانیہ میں ریلیز ہونے والی فلم ’ٹریپ‘ آپریشن فلیگ شپ کی کہانی نہیں ہے بلکہ اس کی کہانی کھیل کے بجائے موسیقی کی دنیا پر مبنی ہے۔
فلم کا پس منظر پیش کرنے والے کنسرٹ میں پرفارم کرنے والی گلوکارہ لیڈی ریون ہیں جن کا کردار شیاملن کی اپنی بیٹی سالکا نے ادا کیا ہے۔
ایک نئی کہانی ہونے کے باوجود شیاملن نے آپریشن فلیگ شپ کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’اس کی مضحکہ خیزی‘ کی طرف راغب ہوئے تھے۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکام نے ان کے خلاف یہ مضحکہ خیز اقدامات اس لیے کیے کیونکہ انھوں نے اپنی حفاظت کم کر دی تھی۔‘
’تو یہ خیال میرےذہن میں اٹک گیا، اور مجھے لگتا ہے کہ جب سالکا اور میں ایک کنسرٹ میں ایک فلم کے بارے میں سوچ رہے تھے تو میں نے سوچا یہ شخص باہر کیوں نہیں نکل سکے گا اور میں انھیں وہاں کیسے رکھ سکتا ہوں؟‘
انھوں نے کہا کہ ’ٹریپ‘حقیقی زندگی کے کیس سے ملتا جلتا ہے بھلے ہی یہ فلم وہی کہانی نہ بیان کرتی ہوں۔
ہدایت کار نے وضاحت کی کہ ’یہ صرف اس مضحکہ خیز جال میں پھنسنے کا خیال تھا۔ میں نے سوچا کہ یہ بہت مزاحیہ ہوگا کیونکہ جب آپ (آپریشن فلیگ شپ) کی فوٹیج دیکھتے ہیں تو یہ بہت مضحکہ خیزہے۔‘
ملے جلے رویو
حیرت کی بات یہ ہے کہ گذشتہ ہفتے امریکہ میں ریلیز ہونے سے قبل ناقدین کے لیے فلم کی نمائش نہیں کی گئی تھی جو عام طور پر اس بات کا اشارہ ہے کہ سٹوڈیو جانتا ہے کہ ان کی فلم خراب ہے۔
کچھ ناقدین نے فلم کی عوامی نمائش کے بعد جائزے لکھے۔ اسوسی ایٹڈ پریس کے لنڈسے بحر نے اسے ایک ’پاپ کارن فلم‘ کے طور پر بیان کیا جو ’تھیٹر میں تفریحی وقت فراہم کرتی ہے‘۔
لیکن انھوں نے مزید کہا کہ فلم کسی حد تک’غیر متاثر کن ہے بہت زیادہ بحث کا موقع فراہم نہیں کرے گی۔
یہ فلم ورائٹی کے اوون گلیبرمین کو متاثر نہیں کرسکی جنھوں نے کہا کہ ٹریپ ایک ’تھرلر ہے جس میں ہر موڑ پچھلے کے مقابلے میں زیادہ فرضی ہے‘ جبکہ گارڈین کے بینجمن لی نے فلم کو ’ایک گڑبڑ‘ قرار دیا۔
’دی ریپ‘ کے ولیم بیبیانی نے لکھا کہ ’ٹریپ میں شیاملن کی سب سے اہم فلموں کی گہرائی یا ان کے سب سے زیادہ عجیب و غریب تجربات کی عکس بندی نہیں ہے۔ لیکن یہ ان کی بہترین تھرلر فلموں میں سے ایک ہے.۔‘
اپنی ماں کا قاتل رحمان ڈکیت، جس نے بھتے اور منشیات سے کمائی دولت سے ایران تک میں جائیدادیں خریدیںمذہبی رہنما کو جیل پہنچانے والی لیڈی پولیس افسر